رائے ونڈ مارچ۔۔۔ اور انڈا فورس
(ajmal malik, faisalabad)
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھر سے بھی انڈا ملتا تھا اور سکول سے بھی ۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ استاد جی ڈنڈے کے ساتھ انڈا دیتے تھے اور اماں جی بریڈ کے ساتھ۔۔میں نے تب گھر میں مرغ پال رکھا تھا۔ کیونکہ انڈے سکول سے مل جاتے تھے۔ہم نالائقوں نے مشہور کر رکھا تھا۔کہ استاد جی انڈے دیتے ہیں۔ اللہ جانے یہ آف شور کمپنی کس نے لیک کر دی۔پھراستاد جی نےسزا بدل دی ۔وہ پہلے مرغا بناتے۔اور پھر کہتے نالائقو اٹھو۔اپنی اپنی کاپی پر انڈے بھی خود بناؤ۔یوں استاد جی کی جگہ انڈےہم دینے لگے۔ |
|
|
سیاسی انڈوں کی تصویر |
|
یہ ان دنوں کی بات ہے جب گھر سے بھی انڈا
ملتا تھا اور سکول سے بھی ۔۔ فرق صرف اتنا تھا کہ استاد جی ڈنڈے کے ساتھ
انڈا دیتے تھے اور اماں جی بریڈ کے ساتھ۔۔میں نے تب گھر میں مرغ پال رکھا
تھا۔ کیونکہ انڈے سکول سے مل جاتے تھے۔ہم نالائقوں نے مشہور کر رکھا تھا۔کہ
استاد جی انڈے دیتے ہیں۔ اللہ جانے یہ آف شور کمپنی کس نے لیک کر
دی۔پھراستاد جی نےسزا بدل دی ۔وہ پہلے مرغا بناتے۔اور پھر کہتے نالائقو
اٹھو۔اپنی اپنی کاپی پر انڈے بھی خود بناؤ۔یوں استاد جی کی جگہ انڈےہم دینے
لگے۔اور آفاقی تنازعہ بھی حل ہو گیا کہ دنیا میں مرغی پہلے آئی تھی یا
انڈا۔؟۔ استاد جی۔جس ۔روز خوش ہوتے ہم انڈے کا ناغہ کرتے۔اُس دن میرا ۔دوست
مرید بہت خوش ہوتا۔کیونکہ اُس کا عقیدہ تھا کہ انڈے اور ڈنڈے موسمی میوے
ہیں۔ دونوں گرمائش کرتے ہیں۔ سردی میں کھانے چاہیں۔۔اُس کی ریسپی میں ڈنڈا
۔ اور انڈا۔پیزے کی بیس اور ٹوپنگ کی طرح تھے۔وہ چیزوں کو اپنے ڈھنگ سے
دیکھتا تھا۔ایک بار اپنے ابا سے بولا :ڈیڈکل سکول میں چھوٹی سی دعوت ہے۔آپ
ضرور آئیں۔
ڈیڈ:کون کون ہوگا ۔؟
مرید :آ پ۔ میں اور پرنسپل ۔
مرید کا شعور بچپن سے ہی بالغ تھا۔ڈیڈ جانتے تھے کہ وہ بات کہنے کا گُرجان
گیاہے۔۔ کیونکہ شعور پر مبنی۔جواز ۔کے لئے لاشعور۔ کی ہاں ضروری ہوتی
ہے۔چائلڈ۔ از۔اے ۔فاد ر آف مین۔والا شعور۔ روایت شکن۔۔ ’’داغ تو اچھے ہوتے
ہیں‘‘۔کا نعرہ لگا کر سرف بیچنے والا شعور۔موجودہ حکومت بھی باشعور ہے جس
نے ’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘ والی روایت توڑی ہے۔ وفاقی وزیراسحاق ڈار کہہ
چکے ہیں کہ ’’دال مہنگی ہے تو مرغی کھائیں‘‘۔۔پنجاب کے سستے بازاروں میں۔
’’مرغی کاگوشت ہڈیا ں مضبوط بناتا ہے‘‘۔والے بینرز لگ رہے ہیں۔لیکن لاشعور
ہاں ہاں نہیں کر رہا۔کیونکہ ۔ برائلر کھانے سے تو برگر پیدا ہوتے ہیں۔بچپن
کی یک سطری نظم ۔’’سنڈے ہو یا منڈے روز کھاؤ ڈے‘‘۔ بھی بدل گئی ہے۔ اب۔
’’سنڈے ہو یا منڈے روز کھاؤ۔دو انڈے‘‘۔والے گُر آزمانئے جا رہے ہیں۔پولٹری
کے بزنس کے لئےوزیر خزانہ بجٹ کی ماہیت بدل چکے ہیں۔۔
چوہدری کا بیٹا یورپ سے فلسفہ پڑھ کے آیا توباپ نے ناشتے پر پوچھا پُتر تم
نے کیاپڑھا ہے۔؟
بیٹا(مثال دے کر):ابا۔ بظاہر یہ انڈا ہے۔اسے ابالیں یا فرائی کریں اور
کھائیں۔ دوسری چیز ہے اس کا فنڈا۔ یہ بنا کیسے ہے۔ انڈے کی ماہیت کیا
ہے۔ایسی ہی سوچ بچار والی ڈگری میں نے لی ہے۔
چوہدری نے انڈاغر پ کیا اور بولا۔۔ پُتر تم اس کی ماہیت کھا لینا۔
آدھی سے زیادہ قوم ماہیت ہی کھا رہی ہے ۔۔یہاں تو تعلیم، صحت اور جمہوریت
سب کچھ ماہیت ہی ہے ۔۔۔ تقریبا تین سال قبل شہروں میں شور مچاتھا کہ حمزہ
کے انڈے کھائیں۔ دودھ پئیں اور حمزہ برائلر بھی دستیاب ہے۔۔کیونکہ فاؤنڈری
،شوگر، ٹیکسٹائل، سپنگ، سٹیل اور پیپر ملز وغیرہ کے بعد حکمران خاندان
پولٹری فیڈ ،دودھ اورکوالٹی چکن نامی فیکٹریاں لگا چکا ہے۔ اسحاق ڈار نے
بجٹ کی ماہیت ٹھیک بدلی ہے۔ اقتدار ہر سیاستدان کو ڈبل شاہ بننے کا موقع
دیتا ہے۔ اور صد شکر کہ سب موقع پرست ہیں ۔ہمارا مقدر ماہیت ہے۔ ہم کُکڑ بن
کر زندہ باد کی بانگیں دیتے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی لکھتے ہیں کہ
پانچویں جماعت میں ۔ ایک دفعہ۔۔ ماسٹر فاخر حسین نے مجھے مرغا بنا دیا۔میں
غلطی نہ بھی کرتاتواور کسی بات پر مرغا بنا دیتے۔ اپناتو طالب علمی کا
زمانہ اسی پوز میں گزرا۔ بینچ پر آنا اس وقت نصیب ہوتا۔ جب ماسٹر کہتا کہ
’’اب بینچ پر کھڑے ہو جاؤ‘‘۔
اپنا زمانہ طالب علمی بھی مرغ بسمل کی طرح گذرا تھا۔ سکول تین دھائیاں
پیچھے رہ گیا ہے۔لیکن استاد جی والے انڈے اور ڈنڈے آج بھی گرمائش دے
رہےہیں ۔پھر شادی ہوئی تو بیگم نے پہلی خوشخبری یہی دی کہ انڈے بریڈ کے
علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔ یوں عمر رفتہ اور عمر پیوستہ ۔انڈوں میں ہی الجھی
ہے۔ اماں۔ استاد جی۔۔چاچا اور بیگم۔انڈوں نے زندگی میں اتنے ہی محاذ کھولے
جتنے 2013 کا الیکشن ہار کے عمران خان نےنواز حکومت کے خلاف کھولے ہیں۔ آج
تک کاآخری محاذ ۔آف شور کمپنیوں کی تحقیقات ہیں۔۔30 ستمبر 2016 کو رائے
ونڈ میں دھرنا ہو گا ۔ لیگی کارکن سر نیوں کرنے کے بجائے مزاحمت کر رہے
ہیں۔ بقول علامہ اقبال۔
اٹھاکر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے ۔
ہمارےہاں گلی محلے کی بدتہذیبی کا نام سیاست ہے۔ کچن کے بعد سب سے زیادہ
انڈے بھی سیاست میں استعمال ہوتے ہیں۔ گندے انڈے ۔کچھ فارمی اور کچھ دیسی ۔
گلی میں پھینکنے کے لائق۔۔ نالائق۔سکول والے انڈوں سے سالوں بعد چوچے نکل
آئے ہیں۔ ہر چوچے کے ہاتھ میں اپنا اپنا انڈا ہے۔بھلا ہو۔ن لیگ کا ۔ کہ
آج سالوں بعدسکول یاد کروا ۔ دیا۔خبر کچھ یوں ہے کہ’’گوجرانوالہ میں لیگی
کارکنوں نے رائے ونڈ مارچ ۔کا استقبال کرنے کے لئےانڈا اور ڈنڈافورس بنا لی
ہے۔جسے مارچ کے راستوں پر تعینات کیا جائے گا۔عمران خان کی تصویر پر انڈے
اور ٹماٹر مارنے کی پریکٹس کی جا رہی ہے۔ ‘‘۔ شریفوں کی فیکٹریوں میں حمزہ
فورس کے نام سے ’’سکیورٹی ایجنسی‘‘ شامل ہو گئی ہے۔لیگی رہنما عابد شیر علی
اور ضعیم قادری لیگی کارکنوں کو بھڑکا رہے ہیں۔ٹانگ اڑا رہے ہیں۔ ۔
پپو بس میں بیٹھا مسلسل چاکلیٹ کھا رہا تھا ۔ ایک مسافراسے دیکھ کر بولا:
چاکلیٹ زیادہ کھانے سے دانت خراب ہوجاتے ہیں۔
پپو:میرے دادا کی عمر 125 سال تھی۔
مسافر :کیا وہ بھی چاکلیٹ کھاتے تھے۔ ؟
پپو:نہیں وہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔
احتجاج ، ریلیاں اور مظاہرے تو اپوزیشن کا حق ہے۔ اور پی ٹی آئی کا موقف
توافتخارچوہدری کی بحالی۔تحریک سے کہیں زیادہ مضبوط ہے ۔ن لیگ کو ۔تواس
محاز سے یوں ہٹ جانا چاہیے تھا جیسے اُڑی حملے کے بعدمودی جنگ سے بھاگ گیا
ہے۔ لیکن وہ کھسیانے ہوئے کھڑے ہیں۔ عمران خان سچ کہتے ہیں کہ اقتدار میں
آ کر شریف خاندان کابزنس چمک جاتا ہے۔ پنجاب میں انڈے دھڑا دھڑ بک رہے
ہیں۔ پنجابی کہاو ت ہے کہ۔ ’’ہتھاں دیاں۔ دتیاں ۔ دنداں نال کھولنیاں
پیندیاں‘‘۔ (جو گرہ ہاتھ سے لگائی جائے وہ دانتوں سے کھولنی پڑتی ہے)۔کل
۔یہ انڈے اور ڈنڈے کسی اور کا مقدر بھی ہو سکتے ہیں ۔ڈنڈا بردار فورس کے
جواب میں پی ٹی آئی کا۔ اکلوتا ہتھیار بلا ہے۔انڈے پھینٹنے کے لئے کھلاڑی
اپنا انتخابی نشان اٹھا کرمحاذِ پر جائیں گے ۔۔
چُوچے تو 21 دنوں میں نکل آتے ہیں۔لیکن پانامہ کے انڈوں پرمرغی 121 دن سے
کُڑک بیٹھی ہے۔جمہوریت کا ثمر یہ ہے کہ کاروبار چل نکلا ہے ۔انڈے درجنوں
میں بکیں گے یا تھوک کاسودا ۔ ہوگا۔اس سوال کا جواب ملنا مشکل ہے۔ اور
عمران خان کے تو سوال بھی چار ہیں۔۔وہ جواب لینے 30 ستمبر2016 کو رائے ونڈ
جا رہے ہیں۔بظاہر تو لگتا ہے کہ ’’صاف جواب ہوگا‘‘۔کیونکہ دھرنے سے قبل
انڈے تو فرائی ہو ہی رہے تھے ۔ تھوڑا تھوڑا ’’ لُچ‘‘ بھی فرائی ہو
گیا۔انڈوں کے لئے سب سے بُرا دن ۔فرائی ڈے ہوتا ہے ۔ اور اتفاق ہی کہیے کہ
30 ستمبر کو فرائی ڈے ہے۔ |
|