کیا کشمیر پاکستان بن سکتا ہے؟

یہ کہنا کہ کشمیر پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتا ہے،فی الوقت طفل تسلی کے سوا کچھ نہیں۔اس وقت کشمیر میں تین طرح کے لوگ ہیں،وہ جو آزاد خود مختار ریاستِ کشمیر کے حامی ہیں۔وہ جو پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں اور وہ جو بھارت کے ساتھ رہنا پسند کرتے ہیں۔

دنیا یعنی اقوام متحدہ کیا چاہتی ہے؟اقوام متحدہ کی خواہش ہے کہ کشمیر خود مختار آزاد ریاست بنے،اورپھر کشمیر کی اکثریتی آبادی کی رائے بھی یہی ہے۔سوال یہ ہے اگر اقوام متحدہ کی چاہت یہی تھی تو پھر یہ مسئلہ ستر سال سے اقوام متحدہ حل کیوں نہ کرپائی ؟جواب یہ ہے کہ ایک تو اقوام متحدہ (امریکا)کو کشمیر کی ضرورت پہلے ایسی نہ تھی جو اب ہے،پھرپاکستان اور بھارت دونوں اس فارمولے کے خلاف ہیں،بالخصوص بھارت کی ناراضگی سے اقوام متحدہ اب تک ڈری بیٹھی ہے۔ باقی دو آپشن بچتے ہیں جن میں پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے والے لوگ زیادہ ہیں۔لیکن یہ آپشن اس وقت تقریبا ناممکن نظر آتا ہے۔کیوں کہ یہ نہ صرف بھارت بلکہ اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا کو کسی صورت قبول نہیں۔رہا بھارت کے ساتھ الحاق کا مسئلہ جب ستر سالوں سے بھارت کشمیر پر حکومت کرنے باوجود کشمیریوں کو اپنا نہیں بنا سکا تواب ریفرنڈم کے ذریعے کیسے اپنا سکتاہے؟

اس لیے اب مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے خود مختار ریاست والا آپشن ہی باقی بچتا ہے۔جس پر اقوام متحدہ سمیت امریکا بھرپور طریقے سے کام کررہا ہے۔ماضی میں اقوام متحدہ نے کشمیر ایشو کو اتنی اہمیت اس لیے بھی نہیں دی کہ اس وقت کشمیر کے پہلو میں واقع چین ایسی طاقت اتنی مضبوط نہ تھی ،جب کہ اب چین تیزی سے بڑھتی ہوئی دنیا کی سب سے بڑی طاقت بنتی جاررہی ہے ،جوامریکا سمیت دیگر عالمی طاقتوں کو کسی صورت قبول نہیں۔ اس لیے اب نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ امریکا بھی کشمیرایشو کو سنجیدہ لے رہاہے۔

سی پیک کے بعداس پر کام مزید تیز ہوگیا ہے۔نہ صر ف امریکا،بلکہ افغانستان ایران اور بھارت بھی سی پیک اور گوادار پورٹ کے بعد مشترکہ طور پر ایران میں چاہ بہار پورٹ بنانے پر معاہدہ کرچکے ہیں۔ادھر بعض خلیجی ممالک بھی سی پیک کے بعد ،بھارت ایران کے اس منصوبے سے نالاں ہیں۔سی پیک میں ایران کی خصوصی حیرت انگیز اور غورطلب ہے۔حال ہی میں وزیراعظم نوازشریف کے اقوام متحدہ اجلا س کے موقع پرایرانی صدر حسن روحانی نے باضابطہ سی پیک میں شمولیت کی خواہش کا اظہار کیا۔تعجب کی بات یہ ہے کہ جو ایران سی پیک کے مدمقابل بھارت کے ساتھ مل کر چاہ بہار پورٹ بنائے،پھر بھارت کو سب سے زیادہ تیل دینے والا ملک بھی ہواور اس کے ساتھ بھارت کے کلبھوشن یادیو ایسے جاسوس بھی ایران کے ذریعے پاکستان میں دراندازیاں کرتے ہوں ،بھلادشمن کا ایسااتحادی ملک سی پیک ایسے حساس منصوبے میں شامل ہوکر پاکستان کا خیرخواہ ہوسکتاہے؟کہاجاتاہے دشمن کا دوست بھی دشمن ہوتاہے۔حالیہ دنوں میں پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان انہیں تین ممالک بھارت،افغانستان اور ایران سے ہی پہنچا ہے۔پھر کیوں کر پاکستان ایران کو سی پیک میں شامل کرسکتاہے۔تعجب بالائے تعجب یہ ہے کہ بعض لوگ روسی فوجی دستوں کی 23 سال بعد آمد کے بعد یہ کہہ رہے ہیں کہ روس،چین ،ایران اور پاکستان، اسرائیل اور امریکہ کے خلاف گرینڈالائنس بنارہے ہیں۔شایدیہ ایک خواب ہو کیوں کہ حقیقت یہ ہے چین کسی طور پر ایران کا اتحادی بننے پر تیار نہیں ہوسکتا،جب کہ ایران بھارت کا پکا اتحادی ہے اور چین بھارت سے اتناہی نالاں ہیں،جتنا بھارت روس کے فوجی دستے پاکستان بھیجنے پر سیخ پا ہے۔پھر اگر چین اور روس کو ایران کے ساتھ اتحاد کی اتنی ہی ضرورت ہوتی تو چاہ بہار پورٹ میں کم ازکم ان کی دلچسپی ضرور نظر آتی،جب کہ نہ صرف چین بلکہ اب روس بھی پاکستان کے ساتھ سی پیک ایسے منصوبے میں تعاون کرنے پر آمادہ نظرآتاہے۔اس لیے بھارت کے ساتھ ساتھ ایران بھی سی پیک کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔

بہرحال پاکستان کو سی پیک منصوبہ کامیاب بنانے کے لیے بھرپور طریقے سے متوجہ رہنا ہوگا۔نہ صرف ایران ،بھارت ،افغانستان بلکہ امریکا سمیت اقوام متحدہ کی چالوں کو بھی سمجھنا ہوگا۔خطے میں سی پیک،گوادرپورٹ کے بعد چاہ بہار پورٹ کا قیام امریکا ایسی طاقتوں کا یقینا کھٹک رہا ہے،جس سے کشمیر میں ان کی رغبت مزید بھڑ گئی ہے۔اس لیے بھارت کشمیر اور پاکستان کے خلاف کشیدگی پیدا کرکے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماررہاہے۔پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی اگر مزید بڑھتی گئی تو بین الاقوامی طاقتوں کا کام انتہائی آسان ہوجائے گا۔اب سوال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کو کشمیر کی خود مختار ریاست سے کیا فائدہ ہوگا؟جس کا سادہ ساجواب یہ ہے کہ چین اور پاکستان کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنا اور سی پیک کو ناکام بنانا ہے۔ظاہر سی بات ہے امریکا بھارت میں بیٹھ کر پاکستان اور چین کے خلاف وہ کام نہیں کرسکتا جو کشمیر کی آزاد ریاست میں بیٹھ کرکرسکتاہےاور پھرامریکا کسی طور راضی نہیں ہے کہ بھارت کشمیر کے پانیوں سے فائدہ اٹھا کر چاہ بہار بندرگاہ میں ایران کا اتحادی بن کر پاورفل بنے۔اس کے ساتھ ساتھ امریکا پر بعض خلیجی ممالک کی طرف سےبھارت کے ساتھ مل کر ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے دباؤ بھی ڈالا جارہاہے۔ اس لیے امریکا اور اقوام متحدہ کے لیے خودمختار کشمیر کا آپشن ہی قابل غور ہے۔

اگر یہ فارمولا حل ہوجاتاہے تو اس کانقصان بھارت سے زیادہ پاکستان کو ہے۔کیوں کہ جہاں سی پیک کو خطرہ لاحق ہوگا ،وہیں پاکستان کی سرحدات اور پانی وغیرہ کا بھی مسئلہ ہوگا۔اس لیے بہتر یہ ہے کہ پاکستان اور بھارت کشیدگی کے بجائے تحمل کا مظاہرہ کریں۔بالخصوص پاکستان سفارتی سطح پر بھارت کے خلاف بین الاقوامی الائنس بنائے اور انٹرنینشل کانفرنسیں منعقد کروائے۔اس کے ساتھ کشمیری عوام سے یک جہتی کے کے لیے ان کی ہرممکن مدد کرے،تاکہ پاکستان کی حمایت میں اضافہ ہواورزیادہ سے زیادہ کشمیری عوام پاکستان کے ساتھ الحاق پر راضی ہوں اور "کشمیر بنے گا پاکستان "کا خواب شرمندہ تعبیرہو۔
Ghulam Nabi Madni
About the Author: Ghulam Nabi Madni Read More Articles by Ghulam Nabi Madni: 43 Articles with 32146 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.