حکومت اگر نون لیگ کا نام ہے تو اﷲ ہی حافظ
ہے۔ مجھے یقین ہے کہ بہت جلد کراچی کی صورت حال اسی طرح واپس پلٹ جائے گی
جس طرح 1992ء کے کامیاب آپریشن کے بعد ہوا تھا اور وہ لوگ جو کراچی کی
اصلاح کے لئے اپنی جان لڑا رہے ہیں وہ ماضی کی طرح اب بھی اپنی جان کی بازی
ہار جائیں گے۔ کراچی کے مافیاز جو سیاسی پناہ میں آج کل ڈھکے چھپے نظر آتے
ہیں، ایک بار پھر کراچی میں راج کرتے نظر آئیں گے۔ مگر اِس دفعہ جو صورت
حال ہو گی اس کی سنگینی کا شاید لوگوں کو اندازہ نہیں یا جان بوجھ کر کبوتر
کی طرح آنکھیں بند کئے حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اب تو ملک کی بقا کا
مسئلہ ہے۔ کیونکہ وہ لوگ جو اِس ملک کی سالمیت کے دشمن ہیں اب کھل کر سامنے
آچکے۔
خواجہ اظہار سندھ اسمبلی میں ایم کیو ایم کے ممبر، قائد حزب اختلاف اور
کراچی کی ایک معتبر شخصیت ہیں۔ وہ کچھ جرموں کی ایف آئی آر کی بنیاد پر
گرفتار ہوئے، ان کی ضمانت لینا یا نہ لینا عدالت کا کام تھا۔ مگر اُن کی
گرفتاری پر ایک مافیا حرکت میں آیا۔ ایک نہ سمجھ آنے والے شور و غل میں
وزیر اعلیٰ سندھ کے حکم پر انہیں رہا کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کے اس
اقدام کو ملک کے وزیر اعظم جناب نواز شریف کی آشیر باد بھی حاصل تھی۔ اگلے
دن عدالت نے ان کی ضمانت لی۔ عدالت کا کام انصاف کرنا ہے۔ عدالت نے کسی سے
یہ نہیں پوچھا کہ وزیر اعلیٰ کو عدالتی اختیارات کیسے ملے؟ گرفتاری صحیح
تھی یا غلط، اصل قصور وار کون ہے؟ صرف عوام ہی سوچتے رہے۔ شاید دونوں صحیح
ہیں کہ دونوں طاقتور ہیں۔ چیف جسٹس لاکھ بہتری کی بات کریں، ججوں کی تربیت
کی بات کریں، جب تک کچھ نظر نہیں آتا کون جانے گا؟ سب کو پتہ ہے کہ ایک بڑے
اور بااثر آدمی کو دیکھ کر ہمارے فولاد بھی موم میں ڈھل جاتے ہیں۔ کتنے با
اثر اور بڑے سیاستدان ہیں جن پر بہت سے الزامات ہیں۔ درجنوں ایف آئی آر کٹی
ہوئی ہیں، نہ پولیس ہمت کرتی ہے اور نہ عدالتیں پوچھتی ہیں۔ عام آدمی کے
بارے ایک جھوٹی درخواست دے دیں، پولیس بغیر کسی تحقیق کے دویا تین دن تھانے
میں بٹھائے رکھے گی اس کا حلیہ بگاڑ دے گی اور مشکل سے مک مکا کے بعد اس کی
جان چھوٹے گی۔
وسیم اختر کراچی کے مئیر منتخب ہوئے تو تقریر کے بعد ایک صحافی کے کہنے پر
انہوں نے پاکستان زندہ باد، عمران زندہ باد اور بہت سے زندہ باد کے نعرے
لگائے۔ ان کے لہجے میں طنز صاف نظر آرہا تھا۔ جو پتہ دیتا تھا کہ وہ کہہ
رہے ہیں کہ جس کو مرضی زندہ باد کہلوا لو، جو میرے دل میں ہے، سو ہے۔ میں
بھائی کا بندہ تھا، بندہ ہوں اور بندہ رہوں گا۔ورنہ پاکستان زند ہ باد کے
بعد کسی دوسرے زندہ باد کی ضرورت نہ تھی۔ کراچی میں یہ بھائی پن کا کلچر
پاکستان دشمن کلچر ہے، جس کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔ دنیا میں ہر قوم اپنی
سلامتی کا ایک اصول جانتی ہے کہ جو غدار ہے اس کی سزا موت ہے۔ ہم عجیب لوگ
ہیں، ہم سانپ پا لتے ہیں، ہم غداروں سے پیار اور محبت سے پیش آتے ہیں،
انہیں ہر طرح کی رعایتیں دیتے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ جلد وہ محب وطن ہو
جائیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ غدار کو معاف کرنا ہمیشہ مملکت کو مہنگا
پڑتاہے۔ جب تک چند غداروں کو عبرت کا نشان نہیں بنایا جاتا، صورت حال بہتر
نہیں ہو سکتی۔
خواجہ اظہار کی گرفتاری پر نواز شریف کا فوری احکام جاری کرنا، سمجھ میں
آتا ہے۔ رینجرز پنجاب میں کام شروع کر چکی، فیصل آباد میں بہت اہم لوگ
گرفتار ہو چکے، اب اگلی باری اُن لوگوں کی تھی جو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں
اور جن پر شبہ ہے کہ وہ تخریب کاروں کے سہولت کار ہیں۔ خواجہ اظہار کی
گرفتاری پر نواز شریف کا وزیر اعلیٰ سندھ کو پیغام در حقیقت ان قوتوں کو
پیغام ہے جو جلد یا بدیر با اثر لوگوں پر ہاتھ ڈالنا چاہتی تھیں۔ اب ان
قوتوں کو وقتی طور پر کسی بھی بااثر شخص کو پکڑنے کے لئے حکومت سے رجوع
کرنا ہوگا۔ نواز شریف کے اس بروقت اقدام سے وقتی طور پر پنجاب میں بہت سی
متوقع گرفتاریاں فی الحال رُک گئی ہیں۔ مگر مجرموں کو کسی طرح بھی تحفظ
فراہم کرنا، چاہے اُن کی کوئی بھی، کیسی بھی پوزیشن ہو، عوام میں پسندیدہ
عمل نہیں۔ مجرموں کو بالآخر اُن کے کئے کی سزا ملنی ہے اور مل کر رہے گی۔
فوج نیشنل پلان پر تیزی سے عمل کر رہی ہے، مگر اس طرح کے اقدامات اس کی راہ
میں رکاوٹ کا باعث ہوں گے۔ فوج کبھی بھی ملک کی قیادت کی خواہش مند نہیں
رہی، مگر ہوتا یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اپنی حماقتوں اور غلطیوں سے ایسے
حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ فوج کے پاس کوئی چارہ نہیں رہتا کہ وہ خود
ڈرائیونگ سیٹ پر آجائے۔ آج ملک کی سیاسی اور فوجی قیادت میں ہم آہنگی کی بے
حد ضرورت ہے۔ لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہ ہم آہنگی موجود نہیں۔ سیاسی
قیادت کے پاس اب بہت کم وقت ہے، مگر گنجائش ہے کہ صورت حال کو سمجھ کر ٹھیک
سمت میں اقدامات کئے جائیں۔ سیاست کی آڑ میں مجرموں کو بچانے کا نقصان
سیاستدانوں کو ہی ہوگا، فوج کا کچھ نہیں بگڑے گا۔
کانپتے ہاتھوں اور لڑکھڑاتی ٹانگوں کے ساتھ الطاف بھائی کی خدمت میں ہمیشہ
رہنے والے ڈاکٹر فاروق ستار شاید اسی لئے ایم کیو ایم کے سربراہ تھے کہ وہ
بنیادی طور پر کمزور آدمی ہیں عام آدمی کے خیال میں ان میں اتنی جرأت نہیں
کہ الطاف بھائی کے خلاف کچھ کہہ سکیں یا کر سکیں۔ وہ ایم کیو ایم پاکستان
کو لندن کی قید سے آزادی دلا ہی نہیں سکتے۔ یہ سب کچھ جو ہو رہا ہے ایک طے
شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔ وہ منصوبہ جو ایم کیو ایم کے لیڈروں کو وقتی طور پر
موجود ابتلا سے جلد نجات دلا دے گا۔ مگر پاکستان کو ایک نئی ابتلا کی طرف
دھکیل دے گا۔ ایم کیو ایم آج بھی الطاف حسین کو اپنا قائد مانتی ہے اور جو
الطاف کو قائد نہیں مانتا، اس کے لئے ایم کیو ایم میں کوئی جگہ نہیں۔گو
پچھلے دنوں میں فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے عوام کے اندازوں سے ہٹ کر
کافی استقامت کا مظاہرہ کیا ہے مگران لوگوں کی اس استقامت کو مستقل شکل
دینے کے لئے اور مسلسل حوصلے سے بد ترین صورتحال میں اسی طرح پاکستان کے
علم کو بلند رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کچھ غداروں کو تختہ دارپر لٹکایا
جائے۔ پاکستان کی بقا کے لئے یہ اقدام انتہائی اہم ہے۔سب کو معاف کرنے سے
کام نہیں چلے گا۔ |