بجنور میں پانچ مسلمانوں کا قتل: اترپردیش کو فساد میں جھونکنے کی تیاری

ہندوستان میں کہیں بھی لڑکی کے ساتھ چھیڑ خانی کی جاتی ہے اور اس کا تعلق اعلی ذات کے ہندو سے ہوتا ہے تو ہندوستان قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔ وزیر اعظم لیکر چپراسی تک بے چین ہوجاتا ہے اور میڈیا تو پھانسی دینے پر آمادہ نظر آتا ہے۔ اگر خدا نہ خواستہ چھیڑنے والوں کا تعلق مسلمان سے ہوتا ہے تو پھر کہنا ہی کیا۔ ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون کو قانون کی یاد آنے لگتی ہے۔یہ چاروں ستون اتنے بے چین ہوجاتے ہیں جیسے کہ اس طرح کا ملک میں پہلا واقعہ پیش آیا ہو۔ زمین آسمان ایک کردیتے ہیں۔ ہائی کورٹ اور عدالت عظمی از خود نوٹس لیتی ہے۔ انسانی حقوق کمیشن بے ماہی آب کی طرح تڑپنے لگتا ہے۔ خواتین کمیشن کو کام مل جاتا ہے۔ بار ایوسی ایشن ملزموں کو اپنے ہاتھ سے پھانسی دینے پر آمادہ نظر آتی ہے۔ میڈیا کا بس چلے تو وہ پورے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈالیں۔ وہ نئی نئی کہانیاں پیش کرتا ہے۔ اپنے سارے رپورٹر کو اس کی کھوج بین میں لگادیتا ہے۔ جاہل، غیر مہذب ، متعصب ا ور انصاف سے دور اور نفرت زدہ لوگوں کو اکٹھا کرکے بحث و مباحثہ کراتا ہے۔ جیسے کہ پہلی بار چھیڑ خانی ہوئی ہو اور آبروریزی کا پہلا واقعہ پیش آیا ہو۔ میڈیا، اینکر، وکلاء، پولیس، عدالت،انتظامیہ اور مقننہ مسلمانوں کووحشی، حیوان اورخونخوار جانور بناکر پیش کرتا ہے۔ لوگوں کے ذہن میں یہ بات بٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس روئے زمین پر مسلمانوں کے زیادہ وحشی درندہ کوئی نہیں ۔ مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں نفرت پیدا کرنے کے لئے میڈیا مسلمانوں کے خلاف نہ صرف بے سر پیر کا الزام لگاتا ہے بلکہ مسلمانوں کی عزت و آبرو سے کھیلنے، نقصان پہچانے ، قتل کرنے، سبق سکھانے اور ان سے ہر حال میں نمٹنے کی بین السطور ترغیب و تحریک بھی دیتا ہے۔ حالیہ دنوں میں یکے بعد دیگر کئی ایسے روح فرسا واقعات پیش آئے جن میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں نے ظلم کے پہاڑے توڑے، مسلمانوں کی آبرو کو پامال کیا۔گورکشا کے نام پر سرعام پٹائی کی، ویڈیو بنایا اور سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ پر اپلوڈ کیا۔ کئی جگہ خواتین کی پٹائی کی ارو آبرو سے کھیلا۔ گزشتہ ماہ (اگست 2016 (ہریانہ میں دو کمسن لڑکیوں کی اجتماعی آبروریزی کی گئی اور زبردست طریقے سے زدوکوب کیاگیا اور مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے۔ دومسلمان کا قتل کردیا۔ جن میں گورکشک اور آر ایس ایس کے وابستہ افراد کے نام آئے ہیں۔ قومی راجدھانی سے محض 60کلو میٹر ہونے کے باوجود جمہوریت کے چاروں ستونوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ بقرعید کے دوسرے دن قومی راجدھانی کے کراڑی اسمبلی حلقہ میں دو مسلمانوں کو گورکشکوں نے زبردست پٹائی کی ۔تفتیشی ٹیم میں مولانا طارق انور قاسمی کی قیادت میں راقم الحروف بھی موجود تھا۔ ایک منظم سازش کا نتیجہ تھا اور گورکشک اور آریس ایس سے وابستہ تنظیوں کے افراد نے پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔اس واقعہ کو آرام سے انجام دیا۔ دہلی حکومت کے ایک استپال کی بے حسی غیر انسانی رویہ دیکھئے ان میں سے ایک جبرا ً ڈسچارج کر رہے تھے۔ مارنے والوں کا تعلق بھی بجرنگ، آر ایس ایس اور گورکشک دل سے تھا۔ قومی راجدھانی ہونے کے باوجود یہ سنگین واقعہ میڈیا کی توجہ کا مرکز نہیں بنا۔ گجرات میں گورکشکوں نے ثمیر شیخ اور محمد ایوب کو مار کر سنگین زخمی کردیا۔ ان میں سے محمد ایوب کی موت بھی ہوگئی لیکن میڈیا نے اس کی موت کو خبر بنانے کے قابل نہیں سمجھا۔ سانپ بچھو اور دیومالائی واقعہ کو بریکنگ نیوز بنانے والا ہندوستانی میڈیا کے دلوں میں مسلمانوں کے تئیں کتنی نفرت ہے مسلمانوں پر چاہے جنتا بڑا بھی ظلم کا پہاڑ ٹوٹ جائے وہ اس خبر کو نہیں دکھاتا۔ میرٹھ مظفر نگر کے محبت کے واقعات کو لوجہاد کا رنگ دینے والا ہندوستانی کو میڈیا مسلم لڑکی کی چھیڑ خانی کے واقعات نظر نہیں آتے۔ آئیں گے بھی کیسے کیوں کہ اکسانے اور اشتعال دلانے کا کام یہی میڈیا کرتا ہے جھوٹے واقعات کو مسلمانوں سے منسوب کرکے مسلمانوں کے خلاف ہندوؤں کے دلوں میں نفرت پیدا کی جاتی ہے۔ جیسا کہ بجنور سانحہ میں کیا گیا ۔ اس نفرت انگیز کھیل سے سنگھ پریوار اور اس کا سیاسی بازوبھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ جوں جوں اترپردیش اسمبلی کے انتخابات قریب آرہے ہیں نفرت کی کھیتی عروج پر پہنچ رہی ہے۔ نفرت کی کھیتی کرنے والوں کو ہندوستانی جمہوریت کے چاروں ستون کھاد فراہم کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں نفرت کے کاروبار کرنے والے دن بہ دن پھل پھول رہے ہیں۔ یہاں متنوع ثقافت اور کثیر جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں، اقلیتوں، دلتوں اور کمزوروں طبقوں کو متنوع طریقے سے مارو،کثیر جمہوریت کا فائدہ اٹھاکر حقوق چھینو اور ان کو سہولت محروم کردو۔ بجنور میں یہی کھیل کھیلا گیا۔ہندو لڑکے مسلم لڑکی کو مسلسل چھیڑ رہے تھے۔ لیکن انتظامیہ خاموش تھی۔ لڑکی چھیڑنے کے بہانے سنگھ پریوار اور اس کے سیاسی بازو نے یوپی اسمبلی انتخابات کے پیش نظر سازش پہلے رچی تھی۔ تیاری پوری کرلی گئی تھی۔لڑکی کو چھیڑا اور مسلمان جب احتجاج کرنے لگے تو ان کو گھیر کے قتل کردیا۔میڈیا کا کہنا ہے دونوں طرف سے سنگ باری ہورہی تھی تو پھر ہندوؤں کو چوٹ کیوں نہیں لگی۔ یہ بات وہاں کی خاتون ہندو ممبر اسمبلی ریچا ویرانے بھی کہی ہے۔ کوئی ہندو زخمی نہیں ہوا۔لیکن ایک ہندی اخبار جو اردو اخبار بھی نکالتا ہے اس خبر مسلمانوں کی طرف موڑ دیا اور اپنی خبر میں لکھا کہ چھیڑنے والے مسلمان لڑکے تھے۔ اس نے اس طرح خبر لگائی ’’ بجنور شہر سے کچھ دور واقع کچھپورا اور نیا گاؤں کی طالبات گاؤں پیدا کے تراہے سے اسکول جانے کے لئے بسیں پکڑتی ہیں۔ دیہاتیوں کو کہنا ہے کہ پیدا کے اقلیتی یہاں طالبات سے کافی دنوں سے چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے۔ جمعہ کی صبح پھر چھیڑ چھاڑ کو لے کر کہا سنی ہوئی اور نو بجے اسی مسئلے نے طول پکڑ لیا۔ تنازعہ بڑھا تو اچانک پتھراؤ اور فائرنگ شروع ہو گئی۔

گزشتہ جمعہ 16ستمبر کو مسلم فرقے کی لڑکی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ تب ہوئی جب وہ اسکول جا رہی تھی۔ اکثریتی طبقہ کے تین نوجوانوں نے لڑکی کو روکا اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی۔ لڑکی نے اپنے ساتھ ہوئی اس حرکت کے بارے میں اہل خانہ کو بتایا ۔ وہ لوگ آگئے اور دونوں فرقوں کے درمیان سنگباری شروع ہوگئی۔ اکثریتی فرقہ کے لوگوں نے فائرنگ شروع کردی۔جس میں پانچ لوگوں کی موت ہوگئی جن میں دو سگے بھائی تھے۔ فائرنگ کے بعد ملزم فرار ہو گئے۔ملزم جاٹ برادری کے لڑکے کی چھیڑ خانی کے بعد معاملہ طول پکڑ گیا۔ ملزم کے گاؤں کے سنسار سنگھ، تیج پال ، گاؤں کے پردھان دلاور، تلک راج راجو وغیرہ نے نیا گاؤں والوں کے ساتھ مسلمانوں پر فائرنگ شروع کردی تھی ۔ فائرنگ میں ڈیڑھ درجن افراد زخمی ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ سنگباری اور فائرنگ کے واقعات پولیس کے سامنے پیش آئے۔ اگر پولیس بروقت کارروائی کرتی تو معاملہ اتنا طول نہیں پکڑتا۔ کیوں کہ متاثرہ مسلمان تھا اس لئے پولیس نے کارروائی کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ پولیس یہ بھی بھول گئی کہ ان کے ہاتھ میں بندوق نام کی کوئی چیز ہے۔ کیوں کہ سامنے جاٹ برادری کے لوگ تھے اس لئے پولیس کے ہاتھ فائرنگ کرنے سے کانپ رہے تھے۔ مرنے والوں میں رضوان ولد شرافت (۲۰)، سرفراز ولد ذوالفقار شامل ہیں۔ اکثریتی فرقہ کے لوگوں نے ایک نائی کی دکان، ایک جھونپڑی اور ایک موٹر سائیکل کو آگ لگادی۔ اس واقعہ میں داروغہ اور پولیس اہلکار کو معطل کیا گیا ہے۔

خونی جدوجہد میں پانچ لوگو کے مرنے کی تصدیق ہو چکی ہے۔مشتعل لوگوں نے مرنے والوں کی لاشیں نیشنل ہائی وے پر رکھ کر ہنگامہ شروع کر دیا۔مشتعل لوگوں نے نیشنل ہائی وے پر جام لگا دیا۔ اس درمیان حالات قابو کرنے کے لئے بھاری پولس فورس کو تعینات کیا گیا ۔ہنگامے کی اطلاع پر سینئر پولیس اور انتظامی افسران بھی موقع پر پہنچ گئے اور لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ انہوں نے ملزمان کو جلد پکڑنے اور سخت کارروائی کا یقین دلایا۔وہیں تنازعہ بھڑکنے کا خدشہ سے پولیس نے چوکسی سخت کر دی ہے اور علاقے میں پولیس کے ساتھ ہی پی اے سی کی تعیناتی کی جا رہی ہے۔اگر پولیس نے اپنی ذمہ داری پوری کی ہوتی تو پانچ لوگوں کی جان بچائی جاسکتی تھی۔ لیکن پولیس ہندتو کے رنگ رنگ چکی ہے۔ یہاں عام طور ایسا ہوتا ہے کہ مارنے والا اگر مسلمان ہے تو پورے محلے کو پولیس نامزد کریتی ہے۔ اگر مارنے والا ہندو ہے تو پولیس پھونگ پھونک کر قدم رکھتی ہے۔ ایک مارنے والے ایک درجن ہیں تو بہ مشکل دو تین کو گرفتار کرتی ہے۔ مثال کے طور پر دہلی کے کراڑی میں پندرہ بیس سے زائد لوگوں نے مسلمانوں کو مارا تھا لیکن پولیس نے چار کو گرفتار کیا تھا اور پولیس کا کہنا ہے کہ ان میں تین اہم ملزم ہیں۔ جب اہم ملزم پکڑے گئے ہیں تو باقی کیوں نہیں پکڑے گئے اور باقی ماندہ کی شناخت کیوں نہیں ہوئی۔ پولیس ان تینوں اہم ملزموں سے سخت سے پوچھ گچھ کرکے باقی مجرموں کوگرفتار کیوں نہیں کرتی۔ معاملہ صاف ہے پولیس کی منشا تمام ملزموں کو گرفتار کرنا نہیں ہے۔ بلکہ معاملہ کی لیپا پوتی کرکے اسے ٹھنڈا کردینا ہے اور پھر خاموشی کے ساتھ اس کی رہائی ہوجائے گی اور کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا۔ یہی حال بجنور سانحہ کا ہے۔ جتنے ملزم ہیں ان میں بیشتر کا تعلق بی جے پی سے ہے۔ ایک وکیل کے نام آنے کے بعد بارکونسل نے وہاں احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ جب کہ ابھی تفتیش باقی ہے، مجرم یا نہیں اس کا فیصلہ عدالت پر چھوڑ دیا جانا چاہئے۔ لیکن ہندوستان میں ماورائے عدالت انصاف کرنے کے رواج کو بڑھاوا دیا جارہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف ماورائے عدالت قتل کو گزشتہ دو ہائی میں کافی فروغ حاصل ہوا ہے۔ چند ماہ قبل جھارکھنڈ میں لاتیہار کے دو مسلمانوں کو گور کشکوں نے درخت پر لٹکا کر پھانسی دے دی تھی۔ ان میں کچھ کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن جلد ہی گورکشکوں کو عدالت سے ضمانت دے دی گئی۔ کیا یہ ممکن تھا کہ اگر کوئی مسلمان اس طرح کی گھناؤنی حرکت کرتا تو ان کو ضمانت مل جاتی۔ نظام عدل کے اس رویے کو آپ کیا کہیں گے۔شہاب الدین کی ضمانت کو رد کرانے کے لئے بہار سرکار سے لیکر مشہور وکیل پرشانت بھوشن تک سپریم کورٹ میں پہنچ گئے۔ لیکن جھارکھنڈ کے مسلمانوں کو مارنے والوں کی ضمانت رد کرانے کیلئے کسی نے اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی اور عدالت نے آخری کس بنیاد پر قتل کے مقدمے میں اتنی جلدی ضمانت کیسے دی جب تک استغاثہ (بی جے پی حکومت)کی مرضیی نہیں ہوگی اس وقت یہ ممکن نہیں ہے۔

بجنور سانحہ میں مسلمانوں سے کتنی نفرت تھی اس کا اندازہ ماری گئی گولیوں سے لگایا جاسکتا ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق مرنے والوں میں سے کئی کے جسم سے ایک درجن سے زائد گولیاں نکالی گئیں۔مارنے کے لئے ایک دو گولی ہی کافی ہوتی ہے لیکن دو درجن گولیاں مارنا نہ صرف منظم سازش کا پتہ دیتا ہے بلکہ اس علاقے میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی کھیتی کا اندازہ ہوتا ہے۔ حسب سابق اس معاملے میں میڈیا کا رول بہت گندہ رہا۔ ایک ہندی اخبار کو معاملے میں الٹا رنگ دیکر مسلمانوں کو پھنسانے کی کوشش کی۔ پولیس کا رول سب سے زیادہ متعصبانہ رہا کیوں کہ پولیس نے اس معاملے میں کوئی کارروائی نہیں کی اور اگر وہ چھیڑ خانی کرنے والے کو گرفتار کرلیتے تویہ معاملہ طول نہیں پکڑتا۔ اس معاملے میں صرف ایک داروغہ اور پولیس اہلکار کو معطل کیا جانا انتظامیہ کے متعصبانہ رویہ کو ظاہر کرتا ہے۔ بلند شہرآبروریزی معاملے میں کئی اعلی افسران سمیت درجن بھر پولیس اہلکار کو معطل کیاگیا تھا۔ جب کہ اس میں موت نہیں ہوئی تھی۔ جب کہ بجنور کے سانحہ میں پانچ لوگوں کی موت ہوئی ہے اور درجن بھر زخمی ہیں۔اس کی شدت بلند شہر واقعہ سے کئی گنا زیادہ ہے۔ بلند شہر کا واقعہ لوٹ اور آبروریزی کا ہے جب کہ بجنور کا واقعہ ایک فرقہ کے خلاف نفرت، جنگ چھیڑنے، آبرو سے کھیلنے، فرقہ وارانہ ہم آہنگی بگاڑنے، دونوں فرقوں میں تشدد برپا کرنے جیسے واقعا ت ہیں۔ اس میں سنگین دفعات لگائی جانی چاہئے دو چار کو پکڑکر خانہ پری کی کوشش کو ترک کرکے سارے مجرموں کو پکڑکر سخت سزا دی جانی چاہئے۔ورنہ یہ ملک تباہ ہوجائے گا۔ امن او مان اور انصاف کسی بھی ملک کی ترقی کے لئے لازمی چیز ہوتی ہے۔ اگر مسلمانوں کے ساتھ اس طرح کا امتیاز کیا جاتا رہے گا تو ملک خانہ جنگی، افراتفری اور فرقہ وارانہ جنون میں مبتلا ہوجائے گا۔ یہ ملک کے لئے کسی بھی طرح سے اچھا نہیں ہوگا۔ ملک میں قانون و انصاف کی حکمرانی ہر حال میں قائم ہونی چاہئے۔ قانون و انصاف میں امتیازاور تعصب سے ہم اپنے ملک کو بدنام توکرسکتے ہیں لیکن اس کی نیک نامی میں اضافہ نہیں کرسکتے۔ دراصل اترپردیش کو الیکشن سے قبل فرقہ وارانہ فسادات کی آگ میں جھونک دینے کی تیاری ہے۔ الیکشن کمیشن اس ضمن میں اہم فیصلہ کرسکتا ہے اور ایسی پارٹیوں کی رجسٹریشن منسوخ کرکے نفرت کی آگ کو بڑھنے سے روک سکتا ہے۔ اگر الیکشن کمیشن نے جس طرح عمران مسعود، اعظم خاں اوردیگر سیکولر امیدوار پر کارروائی کی تھی اسی طرح کی کاررروائی بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کے لیڈروں پر کی ہوتی تو ملک میں اس قدر بدامنی نہیں ہوتی۔ نہ ہی ایک سیاسی پارٹی کو نفرت کی کھیتی کرنے کی کھلی چھوٹ ملتی۔ اگرملک میں قانون اپنا کام کرتا تومسلمانوں کے ساتھ اس طرح کے وحشیانہ واقعات پیش نہیں آتے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87176 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.