نتیش کمار کو شہاب الدین کا کھیل مہنگا پڑے گا

ہندوستان میں میڈیا کی گندی ذہنیت، پراگندہ سوچ، فرقہ پرستانہ جذبات و خیالات،سطحی اور منصفانہ احساسات سے عاری رویہ اور مسلمانوں کے تئیں نفرت و عداوت ایک بار پھر سامنے آگئی ۔اس کا ثبوت ہندوستانی میڈیا مستقل طور پر دیتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہندوستانی میڈیا پر لوگوں کا اعتبار اٹھ گیا ہے اور پوری دنیا میں ہندوستانی میڈیا کا واقار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ لیکن ہندوستانی میڈیا ہندوتوا کے رتھ پر سوار عزت و وقار اور میڈیا کی آبروسے لاپروا ہوکر بار بار اپنی عزت تار تار کرواتا ہے۔ کئی بار منہ کی کھانے کے باوجود اس کی چال ، کردار،سوچ، ذہنیت، رویہ اور کام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ حالیہ دنوں میں ذاکر نائک کے معاملے میں میڈیا کی بے عزتی ہوئی ۔ بقرعید کے موقع پر میڈیا بنگلہ دیش کے سیلاب زدہ علاقے کو خونی دریا میں تبدیل کرکے مسلمانوں کو درندہ او ر وحشی ثابت کرنے کی کوشش کی۔ دیومالائی نظریات کے حامل ہندوستانی میڈیا سے لوگوں کی نفرت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے۔ صحافت کو دوشیزہ کی آبرو سے تشبیہ دی گئی ہے۔دوشیزہ کے لئے آبروجو معنی رکھتی ہے وہی معنی میڈیا کے لئے بھی رکھتی ہے۔لیکن ہندوستانی میڈیا کو اپنی دوشیزگی کی خود فکر نہیں ہے اور میڈیا میں کام کرنے والی بیشتر خواتین کو میڈیا کی دوشیزگی کا احساس نہیں ہے۔ اسی لئے اسے بعض سیکس ورکروں سے بدترین پیشہ بھی کہتے ہیں۔ کیوں کہ سیکس ورکر اپنی مجبوری میں اپنے جسم کو بیچتی ہے لیکن ہندوستانی میڈیا کے صحافی عیاشی اور چاپلوسی اور ایک طبقہ کو بدنام کرنے اور دوسرے طبقے میں سرخرو ہونے لئے اپنے ضمیر کوفروخت کرتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا کی وجہ سے مسلمانوں کو انصاف نہیں مل پاتا ہے۔ قصائی اعلی عہدے تک پہنچ جاتے ہیں۔ غنڈہ کسی پارٹی کا صدر بن جاتا ہے۔ سارے مجرم ایک پارٹی میں جمع ہوکر ملک کے لئے قانون بناتا ہے۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ ہندوستان میں آخر قانون کا احترام کیوں نہیں ہوتا۔ یہاں قانون توڑنے کو باعث فخر سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستانی میڈیا اسے ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے۔ وزیر اعظم سے لیکر ادنی افسران تک اس کے آؤ بھگت میں مشغول رہتے ہیں۔ اس کے لئے الیکشن لڑنا بہت آسان ہوجاتا ہے۔ کیوں کہ میڈیا اسے ہیرو بناکر پیش کرتا ہے ۔ اس کے کارنامو ں میں مسلمانوں کا قتل، مسلم عورتوں کی آبروریزی، مسلمانوں کی حق تلفی، مسلمانوں کو اذیت دینا اور مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات ہوتے ہیں۔ اگراس طرح کا کوئی کام مسلمان کرتا ہے توہندوستان میں ا س سے بڑا مجرم کوئی نہیں ہوتا۔ وہ ہندوستان ہی نہیں دنیا کے لئے خطرناک ہوتا ہے۔لیکن جب یہ سیاہ کارنامے کسی ہندو یا سنگھی ذہنیت کے حامل لوگوں سے سرزد ہوتے ہیں تو وہ ہندوستان، میڈیا ، سیاسی پارٹیوں اور بہت حد تک سول سوسائٹی کا ہیرو بن جاتا ہے۔ عدالت سے ضمانت حاصل کرنا ہر ملزم کا قانونی حق ہے۔ اس پر انگلی اٹھانا عدالت پر انگلی اٹھانے کے مترادف ہے۔ اگر کوئی مجرم بری ہوجاتا ہے تو اس کے سسٹم، پولیس، سیاست اور کمزور پیروی ذمہ دار ہوتی ہے۔نہ کہ عدالت، البتہ کسی کسی معاملے میں عدالت بھی اہم ثبوتوں کو نظر انداز کرکے فیصلہ سناتی ہے جیسا کہ امت شاہ کے کیس میں ہوا۔ امت شاہ کو کلین چٹ دیا جانا ہے ایک ڈرامائی انداز سا لگتا ہے۔اس وقت میڈیا پر سیوان کے سابق رکن پارلیمنٹ شہاب الدین ضمانت پر باہر آنے کے بعد سوار ہیں۔ جب کہ میڈیا دہلی میں ڈینگو، چکن گنیا اور ملیریا کی زد میں سیکڑوں لوگوں کی موت کو سوار ہونا چاہئے۔ میڈیا کا کام تھا کہ وہ ڈینگو، چکن گنیاکی زد میں آنے والوں کی موت کے بارے میں اسٹوری چلاتے اور حکومت کو مجبور کرتے کہ وہ اس سمت میں فوری اور مناسب قدم اٹھائیں لیکن دلال اور ہندوتوا کے رتھ سوار میڈیا نے حکومت کے اشارے پر اس معاملے کو بالکل دبائے رکھا۔ ملک میں لوگ سیلاب اور سیلاب کے نتیجے آنے والی مصیبتوں سے پریشان ہیں ۔خاص طور پر بہار میں سیلاب نے قہر برپا کیا ہے اور لوگ دانے دانے کو محتاج ہیں، مرکزی حکومت کی طرف سے کوئی اب تک کوئی مدد نہیں دی گئی ہے۔ لوگ دانے دانے کو ترس رہے ہیں لیکن میڈیا ان کے بارے میں خبر چلانے کے بجائے اٹھتے بیٹھے ، سوتے جاگتے اپنے حواس خمسہ پر صرف شہاب الدین کو سوار رکھا۔ کوئی عدالت نے ضمانت پر رہا نہیں کیا ہے پٹنہ کی عدالت عالیہ نے ضمانت دی ہے۔ یہ کیا عدالت کی توہین نہیں ہے۔ اگر مسلمان اس طرح کی حرکت کرتے تو توہین عدالت اور ملک سے بغاوت کے الزام میں انہیں جیل میں ٹھوس چکے ہوتے۔ یہ پہلا واقعہ نہیں تھا اور نہ ہوگا کہ قتل کے کیس میں ضمانت ملی ہے۔ لیکن پہلی بار ایسا ہورہا ہے کہ کسی کی ضمانت پر میڈیا نے اتنا واویلا مچایا ہے۔ میڈیا نے تو جیسکالال قتل کیس کے معاملے میں بھی اتنا شور و غوغا نہیں کیا تھا جب کہ اس کیس میں ملزم کو بری کیا گیا تھا۔ امت شاہ کو تمام ضابطہ کو بالائے طاق میں رکھتے ہوئے بغیر کسی بحث کے عدالت نے کلین چٹ دے دی اور اس کے خلاف اپیل بھی نہیں کی گئی۔ جب کہ سہراب الدین کے بھائی رباب الدین نے اپیل کرنے کی کوشش کی تو دباؤ اور جان کی خوف کی وجہ سے ایسا کرنے سے قاصر رہا۔میڈیا میں بیان بھی دیا کہ وہ کس وجہ سے اپیل نہیں کر رہے ہیں اس کے باوجود عدالت نے اور نہ کسی پرشانت بھوشن نے اس پر کوئی نوٹس لیا۔ ہندوستانی میڈیا اس وقت جشن میں ڈوبا ہوا تھا۔ وہ دور کی کوڑی لاکر امت شاہ کی خصوصیات گنوا رہا تھا۔ ویاپم گھپلے میں پچاس سے زائد گواہوں کا قتل کیاگیالیکن اب تک کلیدی ملزم کی گرفتاری عمل میں نہیں آئی ہے۔ لیکن میڈیا کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔نربھیا اوربلند شہر کے آبروریزی کے واقعات پر آسمان سر پر اٹھانے والا میڈیا ہریانہ کے ڈنگرہیڑی معاملے میں بالکل خاموش رہا کیوں کہ ملزم آر ایس ایس اور گورکشک ہیں۔ جھارکھنڈ میں دو مسلمانوں کو درخت پر پھانسی دینے والو کو آسانی سے ضمانت مل گئی ہے لیکن میڈیا میں کوئی ہلچل نہیں ہوا۔

شہاب الدین کی ضمانت پر پورا ہندوستان میں جیسے سکتے میں آگیا ہے۔ ضمانت ہر ملزم کا حق ہوتا ہے۔ شہاب الدین بغیر جیل گئے ضمانت پر باہر نہیں آیا ہے۔ پورے گیارہ سال جیل میں رہ کر باہرآیا ہے۔ بہار حکومت کی مسلم دشمنی اور نتیش کمار کی شہاب الدین سے ذاتی پرخاش کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ شہاب الدین پر جیل میں قید رہتے ہوئے 30سے زائد مقدمات قائم کئے گئے۔ شہاب الدین کو ذلیل کرنے کے لئے نتیش حکومت نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ بہانہ بناکر حکومت اور بی جے پی کے اشارے پر شہاب الدین کو اذیت دینے میں کوئی کسر نہیں اٹھاکر رکھی گئی ۔ان کو اور ان کے خاندان کو ذلیل و خوار کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا گیا۔ محض اس لئے وہ مسلمان تھا۔ کیا ہندوستان میں غنڈوں کی کوئی کمی ہے۔کیا صرف مسلمان ہی غنڈے ہیں۔ کیا داؤد ابراہیم ہی سب سے بڑا غنڈہ ہے؟، لاکھوں مسلمانوں کو قتل کرنے والا کیا وہ غنڈہ نہیں ہے۔ گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمان کا قتل کرنے والا کیا شریف ہے کیوں کہ وہ ایک ہندو ہے۔ شہاب الدین کو میڈیا نے اس لئے اتنا اچھالا کیوں کہ وہ مسلمان ہے۔ شہاب الدین کو صرف ایک مسلمان ہونے کی وجہ سے سزا دی جارہی ہے نہ کہ ایک مجرم کی حیثیت سے۔اگر دوسرے رخ کو دیکھا جائے تو شہاب الدین نے سیوان کی ترقی، تعلیمی، میڈیکل کی تعلیم اور صحت اور سماج کے لئے جو کام کیا ہے وہ آج کوئی لیڈر نہیں کرسکا۔ اب آئیے بہار میں جب بی جے پی اور نتیش کمار شیرو شکر کی طرح رہتے تھے اور وہ قانون پر کتنا عمل کرتے تھے۔بی جے پی اور نتیش کمار کی نظر میں برہمیشور مکھیاکتنا بڑا دیش بھکت تھا کیوں کہ انہوں نے سیکڑوں دلتوں اور مسلمان کا قتل کیا تھا۔برہمیشور کے قتل کے بعد بہار میں کیا حال ہوا تھا اسے دیکھتے ہیں۔

برہمیشور مکھیا کے قتل کے بعد پٹنہ اور آراء اضلاع میں جس طرح کی دہشت گردی کا مظاہرہ کیاگیا اور بہار کی پولیس بے بس اور یہاں تک کے آئی جی کو بھی اپنی جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ نتیش کمار حکومت میں کس درجہ کا سوشاسن ہے۔ پولیس کا زور صرف کمزور اور بے سہاراپرہی چلتاہے۔ ممنوعہ رنویر سینا کے غنڈے اوردہشت گرد جس قدر عام لوگوں کے ساتھ مار پیٹ کی اور گاڑیوں کو جلایا اور اس حکومت نے اسے یہ سب کرنے کی اجازت دی کیا سبھی کو اس طرح کی اجازت دے گی؟۔ رنویرسینا کی طرح اسلامک موومنٹ آف انڈیا سیمی بھی ممنوعہ تنظیم ہے اورابھی تک اس پرکوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے لیکن رنویر سینا اور اس کے سربراہ کا جرم ثابت ہے اور ایک دو نہیں ۲۷۷ افراد کے قتل عام کے مقدمے کا سامنا تھا ،تو کیا سیمی کو بھی اسی طرح غنڈہ گردی کرنے اور پولیس اہلکاروں کی پٹائی کی اجازت حاصل ہوگی۔ بہار حکومت نے آخر کس بنیاد پر شو یاترا نکالنے کی اجازت دی۔ مقتول برہمیشورمکھیاکوئی گاندھی جی کے چیلے تھے؟، یا جے پرکاش کے جانشین تھے؟، یابہت بڑے مجاہد آزادی تھے یا انہوں نے بہار کو ترقی کی اونچائیوں پرپہنچایا تھا؟، کیا تھاوہ کہ نتیش کمار کو لاش کاجلوس نکالنے کی اجازت دینی پڑی اور اس کے نتیجے میں جس قدر رنویرسینا کے غنڈوں نے پٹنہ کو یرغمال بنایا وہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ میڈیااور یاتراؤں کے سہارے اپنی حکومت چلانے والے نتیش کمار حکومت میں کس قدر جنگل راج ہے۔ پٹنہ کی پوری تاریخ میں اس طرح کی غنڈہ گردیاوردہشت گردی دیکھنے کو نہیں ملی تھی جو سوشاسن حکومت میں ملی ہے۔ برہمیشور مکھیا جس کی درندگی کی کوئی مثال نہیں ملتی اس کی شان میں جلوس نکلنا وہ بھی ممنوعہ تنظیم کا نہ صرف غیر قانونی تھا بلکہ قانون کے منہ پرطمانچہ بھی تھا۔ رنویر سینا کے 70 سالہ بانی کوجمعہ کی صبح نامعلوم حملہ آور نے گولی مار کر قتل کردیاتھا جب وہ 4.15 بجے نوادا تھانہ علاقہ کترا محلہ میں واقع اپنے گھرکے آس پاس ٹہل رہا تھا۔ اس پر موٹرپرسوارتین لوگوں نے تابڑتوڑ فائرنگ کرکے ہلاک کردیاتھا۔ انتظامیہ نے کشیدہ حالات کے پیش کرفیو نافذ کردیا تھا اور دیکھتے ہی گولی ماردینے کا حکم جاری کیا گیاتھالیکن اس کے باوجود جس طرح سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا اس اوررنویرسینا کا بال بھی باکا نہیں ہوا اس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ اس میں انتظا میہ کی منشا شامل تھی۔ بدنام زمانہ برہمیشورکے قتل کے بعد بہار میں مکھیا کے حامیوں کا قبضہ ہو گیاتھااور انہوں نے پورے بہار میں وسیع پیمانے پر فساد مچا یا تھا۔ سرکاری مشینری ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی ۔ پولیس مکھیا حامیوں کو ہر طرح کی کھلی چھٹ دے رکھی تھی۔چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مکھیا حامیوں نے شہر کے اہم بازار میں جم کر فساد مچایا۔ درجنوں دکانوں میں لوٹ مار کی گئی، گاڑیوں کے شیشے توڑدئے گئے اورکئی مقامات پر مظاہرین نے عام لوگوں کے ساتھ بھی مار پیٹ کی۔ یہ بالکل گجرات کے فارمولہ پرعمل ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ہندؤں کو اپنا غصہ نکالنے دیں۔ اسی طرح نتیش کمار نے رنویر سینا کے دہشت گردوں کو اپنا غصہ نکالنے بھرپور موقع دیا۔رنویر سینا کے کارکنوں نے بی جے پی کے ریاستی صدر ڈاکٹر سی پی ٹھاکر، للن سنگھ اور سنیل پانڈے کی بھی پٹائی کی۔ یہاں تک عام آدمی اس قہر سے بچ نہیں پایا۔
برہمیشور مکھیا کے قتل پر بی جے پی کے لیڈروں نے کیاکہا تھا ۔ کیا یہ خلاف آئین بات نہیں تھی۔اسے آپ بھی پڑھیں۔

برہمیشورمکھیا بھارتیہ جنتا پارٹی کی نظر میں گاندھی نظریہ کے حامل شخص تھایہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈران ان کی شان میں رطب اللسان ہیں۔ بہار کے مویشی پروری کے وزیر گری راج سنگھ نے انہیں گاندھی نظریہ کا حامل قرار دیا جس کی وجہ سے مذکورہ وزیر کے خلاف بھاگلپور میں مقدمہ درج ہوگیا ہے جس کی سماعت ۲۲ جون کو ہوگی۔ وہیں بی جے پی کے رہنما راجیو پرتاپ روڈی نے برہمیشورکو عظیم انقلابی اور ترقی کا سفیر بتاتے ہوئے صحیح معنوں میں انہیں کسانوں اور مزدوروں کے خیر خواہ قراردیا اور دلیل پیش کی کہ مکھیا کتنے مقبول تھے اس کا اندازہ ان کے جنازے کے جلوس میں امڈآئے عوامی سیلاب سے لگایا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ببرہمیشور کی رہائی کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر نہیں کی گئی تھی۔ برہمیشور مکھیا کی یاد میں برہمن فیڈریشن کی طرف سے جلسہ تعزیت کا انعقاد کیا گیا تھا برہمن فیڈریشن کے صوبائی صدر راج ناتھ مشرا نے اس موقع پر صدر کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ بہار نے ایک ہنرمند کسان لیڈر کھو دیا ہے۔برہمن سماج نے مکھیا کو انسانیت کے کام کرنے والے قراردیا۔ بہار میں اعلی اورادنی ذات کے درمیان کس قدر کھائی ہے ۔ بی جے پی اور برہمنوں کے ان جملوں سے سمجھا جاسکتاہے۔انسانیت کے اتنے بڑے قاتل کی حمایت میں اتنے لوگوں کاسڑکوں پراترنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ بہار میں اب انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ جنگل راج اپنا آہنی پنجہ گاڑچکا ہے اور یہاں کمزور طبقوں کو انصاف نہیں ملے گا۔

مشہور صحافی آلوک کمار شہاب الدین اور اننت سنگھ کا موازنہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ جے ڈی یو کے سینئر لیڈر اور سابق وزیر مسٹر پی کے شاہی ہی سیلاب کے اس دبنگ ممبر اسمبلی کے مقدموں کی پیروی کر رہے ہیں اور زیادہ تر مقدمات میں اننت سنگھ کو ضمانت مل بھی چکی ہے ۔اگر معزز عدالتوں میں گیٹنگ -سیٹنگ کا کھیل ہوتا ہوگا جیسا کی شہاب الدین کی ضمانت کیس میں بہار بی جے پی کے لیڈر اور ان کے حامیوں کی طرف سے دیے گئے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے !! تو ضرور ہی اننت سنگھ کے معاملے میں بھی اس کا استعمال ہوا ہوگا؟ لیکن حیران کرنے والی بات تو یہ ہے کہ این ڈی اے بالخصوص بی جے پی کا کوئی بھی لیڈر اس پر سوال اٹھانے سے گریز کر رہا ہے ...؟ ویسے بھی اننت سنگھ کس پارٹی کی اندرونی مدد سے انتخابات جیت کر آئے ہیں یہ کم سے کم میڈیا اور بیدار عوام سے تو چھپا نہیں ہی ہے ․․ جیل جانے کے بعد حالات کو بھاپتے ہوئے اس دبنگ ممبر اسمبلی نے اقتدار کے بھروسا رہنا ہی پسند کیا ․․․شہاب الدین معاملے میں بی جے پی حکومت پر یہ الزام بھی لگا رہی ہے کہ "حکومت نے اپنی طرف سے ضمانت کی مخالفت کرنے کے لئے کمزور وکیل کھڑا کیا" …… میں مانتا ہوں ایسا ہو سکتا ہے ... کوئی تعجب کی بات نہیں ... !! لیکن بی جے پی کو کیا یہ نہیں جانتے کہ اننت سنگھ معاملے میں بھی حکومت کی طرف سے کھڑا وکیل بھی مسٹر پی کے شاہی کے قد کا نہیں ہے ... عام آدمی کو جو معلوم ہے وہ سیاست کے بی جے پی کو نہیں معلوم ہو ایسا ہو نہیں سکتا ... پھر بھی اس معاملے پر بی جے پی خاموش ہے؟ …… کہیں بی جے پی کو یہ ڈر تو نہیں ستا رہا کہ اننت سنگھ کے معاملے پر کہیں کچھ بولا تو پہلے ہی بدکی ہوئی بھومی ہار برادری کہیں اور زیادہ بدک کر چلے ہی نہ جائے؟ ……جرم اور مجرم کے تئیں اپنی سہولت کے حساب سے دہرا پیمانہ۔سزا کہاں اور کس طرح جائز ہے ؟؟ مجرمانہ پس منظر والے رہنماؤں سے بی جے پی کو نہ کبھی گریز تھا اور نہ ہی آج ہے ... بی جے پی کے ساتھ ساتھ بی جے پی کے اتحادی جماعتوں میں بھی ایسے لوگوں کی کثرت ہے اور لیکن بی جے پی کے پاس جادو صابن سے بھری ایسی واشنگ مشین ہے جو بی جے پی کے رابطے میں آنے والوں کے سارے داغ دھو ڈالتی ہے․․․ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے دوران سورج بھان سنگھ، وشیشور اوجھا، رام سنگھ جیسے لوگوں نے وزیر اعظم کے ساتھ اسٹیج اشتراک کیا …… تب بی جے پی کے کسی بھی لیڈر نے سوال کھڑے نہیں کئے ؟ ... ماضی لوک سبھا (2014) اور اسمبلی انتخابات (2015) میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے لوگوں کو سب سے زیادہ ٹکٹ بی جے پی نے دی؟شہاب الدین کی ضمانت کی عدالتی - عمل بے شک سوالات کے گھیرے میں ہے لیکن سوال اٹھانے کے بی جے پی کے مقصد کے مضمرات بھی لوگ سمجھتے ہیں ․․․

نتیش کمار کوئی بھی کھیل کھیل لیں لیکن یہ کھیل ان کو بہت مہنگا پڑنے والا ہے۔ بہار کے مسلمان اتنے بے وقوف نہیں ہیں۔ نتیش کمار کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ کیا نتیش کمار کو چھپرہ فسادات، سیوان فساد، موتی ہاری فساد، حاجی پور فساد، عزیز فساد کے فسادی نظر نہیں آتے۔ جب ان سے سوال کیا جاتا ہے کہ ان فسادیوں کی گرفتاری عمل میں کیوں نہیں آئی تو کہہ دیتے ہیں کہ جانچ چل رہی ہے اور کسی مسلمان کو ضمانت ملتی ہے تو فوراَ کود سپریم کورٹ چلے جاتے ہیں۔ نتیش کمار حکومت بھاگل پور فساد کے علاوہ کسی فسادی کو سخت سزا نہیں دی ہے۔ 2011میں فاربس گنج پولیس فائرنگ کے مسلمان انصاف کے انتظار میں ہیں۔کسی مجرم کو سزا نہیں ملی ہے اور نہ ہی جیل میں ہے۔
Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 76790 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.