اڑٰی حملہ : تاثرات کی جنگ اور نتائج
(Maemuna Sadaf, Rawalpindi)
جموں و کشمیرمتنازعہ علاقہ ہے جس پر بھارت
نے غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے ۔ یہاں بسنے والے لوگکم و بیش ستر سال سے
ہندوستان کے ظلم و بر بریت کا شکار ہیں ۔مسئلہ کشمیر سن 1948 ء میں اقوام ِ
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش ہوا تاہم بھارت نے حال ہی میں اپنا موقف
تبدیل کر دیا ہے اور اس مسئلہ کو علاقائی مسئلہ کے طور پر اجاگر کرنے کے
لیے کوشاں ہے ۔ حال ہی میں ہندوستان نے کشمیر میں کم و بیش دو ماہ سے کرفیو
لگا رکھا ہے جس میں بھارتی فوج کو ہر طرح کے ایکشن کی اجازت ہے ۔کشمیر میں
چاہے وہ بچہ ہو ، جوان ہو یا بوڑھا کسی کی جان محفوظ ہے اور نہ ہی کسی عورت
کی عزت ۔ اس کرفیو کے دوران بھارت نے ظلم و ستم کی داستان رقم کر دی ہے
۔کشمیر کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے بھارت نے اپنی افواج کو ہر قسم کے
ظلم و ستم کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔بھارت کی اس ریاستی دہشت گردی کے خلاف
بین الاقوامی فورم پر جب آوازیں بلند ہونے لگیں تو لائن آف کنڑول کے قریب
بھارتی مقبوضہ کشمیر ہی کے علاقے اڑی سکیٹر بھارتی فوج کے ہیڈ کوراٹر
پردہشت گردوں نے حملہکر دیا اور اس حملہ میں تین منٹ کے اندر 18بھارتی فوجی
جوان جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ جبکہ ۱۹ سے ۳۰ فوجی اس حملہ میں زخمی ہو گئے ۔
یہ حملہ چھ گھنٹے تک جاری رہا ، اس دوران چار دہشت گرد بھی مارے گئے ۔اس
حملہ کی ذمہ داری کسی بھی گروپ نے نہیں لی ۔ ابھی حملہ جاری ہی تھا کہ
بھارت کی جانب سے روایتی بیان بازی کا آغاز ہو گیا جس میں اس نے پاکستان کو
اس حملے کے لیے موردِ الزام ٹھہرانا اور پاکستان کے خلاف پراپگنڈا کا آغاز
کر دیا ۔بھارتی میڈیا، فوج اور سیاست دانوں نے تحقیقات کا بھی انتظار نہیں
کیا ۔جس وقت بھارتی تحقیقاتی ٹیمیں اڑی کے علاقہ میں پہنچی اس سے کہیں پہلے
بھارتی میڈیا پاکستان کو اس حملے کا ملزم قرار دے چکا تھا ۔ بھارتی میڈیا
کے مطابق حملہ میں استعمال ہونے والا بارود اور اسلحہ ، کھانے پینے کی
اشیاء پر پاکستانی مہریں موجود تھیں ۔ اس کے ساتھ ہی بھارت نے اپنے ملک میں
چلنے والے پاکستانی پروگراموں پر بین لگا دیا اور بھارت میں مقیم پاکستانی
اداکاروں کو اڑتالیس گھنٹے کے اندر اندر ملک چھوڑ دینے کا حکم بھی جاری کر
دیا ۔ صرف یہی نہیں بھارت کی جانب سے برسوں پراناآبی معاہدہ ( سندھ طاس )
کا معاہدہ بھی توڑ دینے کا اعلان کیا ۔بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی نے
پاکستان کے خلاف ہر طرح کے معائدے کو ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور ہر سطح
پر جنگ کا طبل بجا دیا ہے ۔
واضع رہے کہ مقبوضہ کشمیرکے اڑی سیکڑ میں موجود بھارتی افواج کے ہیڈ کوارٹر
پر یہ حملہ اس وقت ہو اجب اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کا اجلاس امریکہ
میں منعقد ہو ناتھا ۔مقبوضہ جموں و کشمیرمیں بھارتی کرفیو اور ظلم و ستم کے
کم و بیش دو ماہ گزر چکے تھے اور تمام عالم کی نظریں کشمیر کی جانب اٹھ چکی
تھیں ۔ایسے موقع پر یہ حملہ دنیا کی نظریں اس مسئلہ کی جانب سے ہٹانے کی
ایک مضموم کوشش تھی ۔اس حملہ کے بعد بھارتی حکومت ، میڈیا ، عوام سب ایک
ساتھ ، ایک ہی سمت میں بات کرتے نظرآئے یہاں تک کہ بھارت میں پاکستان پر
حملہ تک کرنے کی باتیں ہونے لگیں ۔ یہاں تک کہ بھارت نے پاکستان کی سرحد کے
ساتھ تعنیات افواج میں اضافہ کر دیا ، بھارتی میڈیا نے نہایت جارحانہ انداز
میں دن رات پاکستان کے خلاف پراپگینڈاکا آغاز کر دیا ۔ یہ منفی
پراپگنڈابھارت کی جانب سے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کی ایک ایسی
کوشش تھی جس میں بھارتی حکومتی اراکین پیش پیش تھے ۔ اس کے برعکس پاکستان
میں میڈیا ، اس معاملہ پر متضاد بیانات، حکومت کی جانب سے اس معاملہ پر
خامو شی جبکہ چیف آف آرمی سٹاف کی جانب سے موضوع جواب نے بھارت کے اس جنگی
جنون میں کمی کا عندیہ دیا۔ پاکستانی میڈیا میں اس معاملہ پر اس حد تک اس
طرح سے بات نہیں کی گئی جس طرح بھارتی میڈیا نے بات کی ۔ اگرچہ پاکستان کے
وزیر ِ اعظم نواز شریف نے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر پر
بات کی ۔ تاہم پاکستان کی جانب سے اڑی حملہ کے موضوع پر اس طرح روشنی ڈالی
نہیں گئی جس طرح بھارت نے پاکستان کو رکیدا۔پاکستان کے وزیر اعظم کا کہنا
تھا کہ اڑی حملہ کشمیر میں جاری ظلم و بربریت کا نتیجہ ہو سکتا ہے ۔انھوں
نے مزید کہا کہ بھارت کا رویہ انتہائی غیر ذمہ دارانہ ہے اور پاکستان کو
بغیر کسی ثبوت کے ان حملو ں کے لیے موردِ الزام ٹھہرانا کسی طور پر مناسب
نہیں ۔ پانچ دن تک وزیر ِ اعظم نواز شریف نے مسلمان ممالک کے راہنماؤں سمیت
مختلف لیڈروں سے ملاقاتیں کی جن میں مسئلہ کشمیر پر سیر حاصل بحث کی گئی
۔پاکستان کی ان ملاقاتوں کے نتیجے میں ترکی نے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک
سفارتی مشن بھیجنے کا اعلان کیا ہے جس کا مقصد بھارتی مقبوضہ کشمیر میں
زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہو گا۔اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے
بھی ایسا ہی ایک مشن بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھیجنے کا اندیہ دیا ہے ۔
تاہم امریکہ کے سیکڑی آف سٹیٹ جان کیری نے نواز شریف سے ملاقات میں پاکستان
کو اس حملہ کی تحقیقات میں بھارت کے ساتھ تعاؤن کرنے کو کہا ہے ۔ ان کا
کہناتھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ دونوں ممالک دو طرفہ تعلقات کو بہتر کریں اور
حالیہ تناؤ کو کم کرنے کی عملی کو ششیں کی جائیں ۔ امریکہ میں مقیم
پاکستانی سفیر جلیل عباس جیلانی کا کہنا تھا کہ پاکستان خطے میں امن و
سلامتی کا خواہاں ہے لیکن اگر سرحد کی دوسری جانب سے کاروائی کی گئی تو
پاکستان اس کا ہر طرح سے جواب دینے کے لیے تیار ہے ۔
اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں بھارت کے وزیر ِ اعظم نریندر
مودی نے اس حملہ میں پاکستان کو موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وزیر
ِاعظم پاکستان نے کشمیر کے موقف پر بات کی لیکن اڑی حملہ پر پاکستان کو
تحقیقات میں ساتھ دینا ہو گااور پاکستان بھارت میں ہونے والے ہر دہشت گرد
حملے میں ملوث ہے ۔ اڑی حملہ کے بعد بھارت نے نہ صرف پاکستان کو ایک دہشت
گرد ملک قرار دینے اور دنیا میں پاکستان کو تہنا کرنے کی کوششیں تیز کر دی
ہیں وہاں پاکستان کے خلاف جنگی جنون میں بھی اضافہ ہو ا ہے ۔ بھارتی جنگی
جنون اور پاکستانی سرحدوں پر افواج میں اضافہ کے جواب میں پاکستان نے بھی
سرحد پر اپنی افواج میں خاطر خواہ اضافہ کیا ہے اور وقت پڑنے پر پاکستانی
افواج ارض ِوطن کی جانب اٹھنے والی ہر آنکھ کو پھوڑ دینے کی صلاحیت رکھتی
ہیں ۔
پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے واضع الفاظ میں بھارت کو
خبردار کیا ہے کہ پاکستان کو تر نوالہ نہ سمجھا جائے اور پاکستانی افواج کی
صلاحیتوں کو معمولی نہ سمجھا جائے ۔ پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے
۔واضع رہے کہ پاکستانی افواج ، پاکستانی اسلحہ ، فوجی سازو سامان ، فردی
صلاحتیں ، دنیا میں بہترین مانی جاتی ہیں ۔ دفاعی لحاظ سے پاکستان ایک
ناقابل ِ تسخیر ملک بن چکا ہے ۔اور پاکستان کے خلاف جنگ کی باتیں کرنے
والوں کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ پاکستانی افواج کسی بھی حملہ کا جواب
دینے کی صلاحیت رکھتی ہیں اور دونوں ہی ممالک ایٹمی صلاحیت رکھتے ہیں ، ان
مالک کی آپس میں جنگ صرف اور صرف تباہی کو آواز دینے کے مترداف ہے ۔
آج صورت حال یہ ہے کہ دونوں ممالک کی افواج ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر کھڑی ہیں ، ہتھیار وں سے لیس یہ افواج اگر کسی جنگ کا حصہ ہو ں گی
تو دونوں جانب تباہی اور بربادی مقدر میں لکھ دی جائے گی۔ پاکستان ایک امن
پسند ملک ہے لیکن اس امن پسندی کو اس کی کمزوری نہ سمجھا جائے ۔ الفاظ کی
جنگ دونوں جانب سے جاری ہے بھارت ہمیشہ کی طرح جارحانہ رویہ اپنائے ہوئے ہے
جبکہ پاکستان کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس جارحیت کا جواب
دیا جا رہا ہے ۔ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہو اکرتی، مسئلہ کا باہر حال
حل مذاکرات سے نکالا جانا چاہیے ۔ |
|