یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ بھارت پاکستان کا ازلی دشمن
ہے لہذا اس سے کسی خیر کی امید کرنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔
لیکن کل تک جو ملک پاکستان کے قریب سمجھے جاتے تھے وہ بھی اب پاکستان سے
دور ہوتے جا رہے ہیں ، یہ بہت زیادہ تشویش نا ک بات ہے۔ بھارت نے اسلام
آباد میں ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا اعلان کر کے
پاکستان پر پہلے سے موجود دباؤ مزیدبڑھانے کی کوشش کی ہے جبکہ بھارت کے بعد
بنگلہ دیش کی طرف سے بھی اسی قسم کا اعلان ہونے کے بعد پاکستان کی پوزیشن
بہت زیادہ خراب ہو رہی ہے ۔ بھارتی میڈیا نے دعوی کیا ہے کہ اسلام آباد میں
ہونے والی سارک سربراہ کانفرنس میں بنگلہ دیش کے علاوہ افغانستان اور
بھوٹان بھی شرکت نہیں کریں گے۔ دوسری طرف بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے
یہ بھی دعوی کیا ہے کہ وہ پاکستان کو تنہا کر دیں گے۔یہاں بھارتی وزیر اعظم
شاید غلطی پر ہیں۔ کیونکہ اس کے لئے انھیں کسی قسم کی کوئی کوشش کرنے کی
ضرورت نہیں پاکستان اپنی کمزور سفارتکاری اور بے ربط پالیسیوں کی وجہ سے
پہلے ہی سے نہ صر ف خطے میں بلکہ عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہوتا جا رہا
ہے۔ ماضی کی پالیسوں کی وجہ سے پاکستان کو یہ دن دیکھنے پڑ رہے ہیں ۔
پاکستان کو تنہار کرنے کے حوالے سے نریندر مودی کو کسی قسم کی چنتا کرنے کی
کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی انھیں اس کام کے لئے کسی نئی سازش کے تانے بانے
بننے پڑیں گے۔ اس کام کے لئے ہمارے پالیسی ساز ہی کافی ہیں۔ سار ک سربراہ
کانفرنس میں بھارت کی عدم شرکت تو سمجھ میں آتی ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے
کہ بھارت نے اپنے ساتھ سارک کے دیگر ممالک کو بھی اپنا ہمنوا بنا لیا ہے۔
ادھر ایران سے بھی پاکستان کے تعلقات کچھ بہت اچھے قرار نہیں دیئے جا سکتے۔
آئے روز پاک ایران سرحد پر ہونے والے واقعات دنوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت
کی عکاسی کرنے کے لئے کافی ہیں۔ کیا خطے میں صرف چین کے ساتھ اچھے تعلقات
قائم کر کے پاکستان عالمی دباؤ اور گوشہ تنہائی سے نکل سکتا ہے یا پھر اسے
اپنے اوپر بڑھتے ہوئے دباؤ کو کم کرنے کے لئے اور بھی ممالک سے اپنے تعلقات
کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک چین تعلقات
مثالی ہیں لیکن کیا ہر معاملے میں چین پر کلی طور پر انحصار ہماری درست
پالیسی ہے ؟کیا روس کے محض 200فوجیوں کے ساتھ مشقیں کرنے سے ہم یہ سمجھنے
لگیں کہ روس بھارت کے ساتھ اپنے تمام تر تاریخی اور دیرینہ تعلقات توڑ کر
پاکستان کے ساتھ آ کر کھڑ ا ہو گیا ہے؟ کیا ہمارے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ
ہمارے فوجی روس کے ساتھ مشقیں کرلیں اور خوش فہمی کا شکار ہو کر دنیا کو
ایک نیا بلاک بننے کا پیغام دے دیں اور اس پر ڈھول پیٹے رہیں ، چاہے یہ
معاملہ حقیقت سے کوسوں دور اور ہمارے پالیسی سازوں کے دماغوں کا خلل ہی
کیوں نہ ہو۔ پاکستان کو آج جتنی بھی مشکلات کا سامنا ہے اس میں ہماری غیر
منطقی خارجہ پالیسی اور کمزورسفارتی حکمت عملی کا بڑا کردار ہے۔ مقبوضہ
کشمیر میں بھارتی بربریت اور ظلم و تشدد کے باوجود ہم کشمیر ایشو پر دنیا
کو اپنا ہمنوا نہیں بنا سکیں ہیں ۔ یہاں تک کے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی
کے اجلاس میں کسی ایک بھی مسلم ملک نے کشمیر میں ہونے والی بھارتی فوجوں کی
سفاکیت کے خلاف بات نہیں کی۔ یہ کس کی کمزوری ہے کہ ہم 70برس سے زائد عرصے
میں ایک بھی مسلم ملک کو اپنا ہم خیال نہیں بنا سکیں ہیں؟لیکن دوسری طرف
بھارتی وزیر خارجہ سوشما سوراج نے وزیراعظم محمد نواز شریف کی تقریر کا
جواب دیتے ہوئے پاکستان کو اپنے گریبان میں جھانکنے کا مشورہ دیا اور
بلوچستان کی بد امنی کا حوالہ دیا جسے اقوام عالم نے اطلاعات کے مطابق بہت
زیادہ اہمیت دی ۔ اگلے روزمغربی میڈیا میں ان خبروں کو بھی بڑی اہمیت دی
گئی۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کی حکمراں ایلیٹ کو سر جوڑ کربیٹھاہی ہو گا
ورنہ سیلاب رواں سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔
|