برصغیر پاک و ہند کی تقسیم کے وقت دریائی پانیوں کی تقسیم
کے لئے کوئی علیحدہ اور خود مختار کمیشن قائم نہیں کیا گیا تھا ، بلکہ یہ
کام ضمنی طور پر سرحدوں کے تعین کے لئے مقرر کردہ باؤنڈری کمیشن کے سپرد
تھا ۔ بحیرۂ عرب کی طرف سے بہنے والے پانچ بڑے دریا ٗ ستلج ، راوی ،چناب
،جہلم اور سندھ ٗ بھارت اور اس کے زیر انتظام علاقوں سے گزر کر پاکستان میں
داخل ہوتے ہیں ۔ تقسیم ہند سے پہلے دریائے ستلج اور دریائے راوی سے نکلنے
والی نہروں کا پانی ان علاقوں کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتا تھا جو بعد میں
پاکستانی پنجاب کا حصہ بنے ۔ تقسیم ہند کے تقریباً 6 ماہ بعد دونوں ملکوں
(پاکستان اور بھارت) نے ان نہروں کے پانی کے بہاؤ پر مؤرخہ 30 دسمبر 1947 ء
کو ’’سٹینڈسٹل ایگریمنٹ ‘‘ کے نام سے ایک معاہدہ کیا تھا ۔ اس معاہدے کے
ختم ہونے سے پہلے نہ تو کوئی نیا معاہدہ کرنے کی کوئی ضرورت محسوس کی گئی
اور نہ ہی اس پر کوئی زور دیا گیا ۔ جس کے بعد بھارت کی مرکزی حکومت نے
نہیں بلکہ اس کے مشرقی پنجاب کی حکومت نے پاکستان کی طرف آنے والی ان نہروں
کا پانی بند کردیا تھا۔
ہوا در اصل یوں تھا کہ مؤرخہ 21 اکتوبر 1947 ء کو جب پاکستان اور بھارت کے
درمیان کشمیر کی پہلی جنگ شروع ہوئی تو اس وقت بھارت کی پنجاب حکومت نے
پاکستان کے خلاف پہلی بار آبی جنگ کھیلنا شروع کی تھی اور پاکستان کی طرف
آنے والی نہروں کا پانی بالکل بند کردیا تھا، جسے بھارت کی بعد والی حکومت
نے اپنے حق میں آلۂ کار کے طور پر استعمال کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع
کردیا تھا جو اس وقت سے لے کر تاہنور برابر جاری ہے ۔
بھارت کی اس جارحیت کے خلاف بعد میں جب پاکستان نے احتجاج کیا تو بین
الاقوامی ملی بھگت سے پاکستان کو ایک ایسا معاہدہ منظور کرنے کے لئے مجبور
کیا گیا تھاکہ جس سے اسے تین مشرقی دریاؤں ٗ دریائے بیاس ، دریائے راوی
اوردریائے ستلج کے پانیوں سے دست بردار ہونا پڑا ، جسے پاکستان کی ایک بہت
بڑی غلطی کہا جاتا ہے ۔بالآخربھارت کی جانب سے پاکستانی پنجاب کے علاقوں کی
طرف نکلنے والی نہروں کے پانی کی بند ش بعد ازاں ایک ایسے معاہدے پر منتج
ہوئی جسے نا صرف پاکستان اور بھارت بلکہ کشمیر بھی ناپسندیدہ قرار دیتا ہے
۔
چنانچہ 19 ستمبر 1960 ء کو عالمی بینک کی وساطت سے پاکستان اور بھارت کے
درمیان پاکستانی صدر ٗ صدر ایوب خان اور بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہروکے
مابین سندھ طاس معاہدہ طے پایا ، جس کے تحت تین مشرقی دریا ٗ دریائے بیاس ،
دریائے راوی اوردریائے ستلج بھارت کے حصے میں آئے ، جب کہ تین مغربی دریا ٗ
دریائے سندھ ، دریائے چناب اور دریائے جہلم پاکستان کے حصے میں آئے ۔ اس
معاہدے کے تحت بھارت کو اس کے یہاں سے پاکستان کی طرف آنے والے ان تین
مغربی دریاؤں کو اپنے تجارتی و زرعی مقاصد اور ان سے بجلی پیدا کرنے کے لئے
بھرپور استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی ۔علاوہ ازیں اسے دریائے سندھ کا
بیس فیصد پانی استعمال کرنے کی بھی الگ سے اجازت دی گئی تھی ۔ لیکن گزشتہ
چند دھائیوں سے بھارت اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے حق سے کہیں
زیادہ پاکستانی پانی پر قبضہ کرنے کے لئے پاکستان کی طرف آنے والے ان
دریاؤں پر بڑی تعداد میں ڈیم بنوارہا ہے ، جس سے اس امر کا خدشہ ظاہر کیا
جارہا ہے کہ چوں کہ اس سے پاکستان کو اپنے حصے کا پانی بہت کم مل سکے گا،
جس سے اس کی زراعت کو نقصان پہنچنے کے باعث اس کا ایک بہت بڑا زرعی علاقہ
بنجر ہوسکتاہے ۔
قارئین کرام ! آپ کو یہ بات جان کر حیرانگی ہوگی کہ سندھ طاس معاہدے کے بعد
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 ء اور 1971 ء کی دو بڑی جنگوں سمیت لائن
آف کنٹرول پر کئی چھوٹی بڑی جھڑپیں اور جنگیں ہوچکی ہیں ، لیکن ان جنگوں
میں بھارت نے نہ ہی تو کبھی ان مغربی دریاؤں کے پانی کے پاکستان کی طرف
بہاؤ میں کوئی رکاوٹ ڈالی ہے اور نہ ہی کسی طرح سندھ طاس معاہدے کی خلاف
ورزی کی ہے۔لیکن اب جب کہ دونوں ممالک امن و امان کے دور سے گزر رہے ہیں تو
اس صورت میں بھارت کا پاکستان کی طرف بہنے والے مغربی دریاؤں کا پانی روکنے
کا خدشہ ظاہر کرنا خاصا حیران کن محسوس ہورہا ہے۔
پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور
بھارت دونوں ممالک کے درمیان ہونے والا سب سے زیادہ کامیاب ترین معاہدہ
تصور کیا جاتا ہے ۔ لہٰذا بھارت کی جانب سے اس کی خلاف ورزی کرنے پاکستان
کے خلاف جنگ اور دشمنی تصور کیا جائے گا ۔ بھارت اگر پاکستان کی طرف آنے
والے دریاؤں کے پانیوں کو روکنے کی کوشش کرے گا تو وہ نہ صرف سند ھ طاس
معاہدے کی کھلم کھلی خلاف ورزی کرے گا بلکہ خطے کی ریاستوں کے لئے بین
القوامی قوانین کی بھی علانیہ خلاف ورزی کرنے کی ایک مثال قائم کرے گا ۔
بھارت مقصد پاکستان کا پانی بند کرنے یہ ہے کہ وہ اس کے ذریعہ پاکستان کو
دنیا سے علیحدہ کردے گا ، یہ اس کی بھول ہے، اسے یہ بات خوب اچھی طرح ذہن
نشین کرلینی چاہیے کہ اس کا پاکستان کو تنہا کرنے کا خواب انشاء اﷲ! کبھی
بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکے گا۔
اس میں شک نہیں کہ سندھ طاس معاہدہ پاک بھارت دو طرفہ معاہدہ ہے جس کی
پاسداری کے دونوں ممالک پابند ہیں ۔اس لئے کہ عالمی قوانین کے تحت کوئی بھی
ملک اپنے یہاں سے چلنے والے پانی کو مکمل طور پر روک کر کسی بھی دوسرے ملک
کی حق تلفی نہیں کرسکتا ۔لہٰذا اس معاہدے کے تحت نہ ہی تو بھارت پاکستان کا
پانی بند کرسکتا ہے اور نہ ہی اسے اپنے پاس جمع رکھ سکتا ہے ۔ اگر بھارت نے
پاکستان کا پانی روکا تو چین کو بھارت کا پانی روکنے کا جواز فراہم ہوجائے
گا ۔ بھارت اگرچہ جزوی طور پر سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے اور
اس نے اب تک 32 چھوٹے بڑے ڈیم تیار کرلیے ہیں ، لیکن اگر اس نے کلی طور پر
پاکستان کا پانی بند کرنا شروع کردیا تو اس کا یہ اقدام عالمی قوانین کی
کھلم کھلی خلاف ورزی ہوگی اور دوسری طرف بھارت یک طرفہ طورپر سندھ طاس
معاہدے کو بھی ختم نہیں کرسکتا ، کیوں کہ اس میں عالمی بینک کی گارنٹی شامل
ہے ۔اور سندھ طاس معاہدہ صرف پاکستان اور بھارت کا ہی دوطرفہ معاہدہ نہیں
بلکہ یہ تو ایک عالمی معاہدہ ہے جسے ختم کرنا بھارت کے لئے کارے دارد اور
بڑا مشکل کام ہے - |