کیا اب خونی انقلاب کا انتظار ہے؟
(Dr. Muhammad Javed, Karachi)
شاہ ولی اللہ کا قول ہے’’جب نہ کمانے والا
طبقہ کمانے والے طبقے کی کمائی پہ قابض ہو جائے تو یہ حالت انقلاب کا پیش
خیمہ ہوتی ہے‘‘گویا ریاستی اداروں پہ قابض سرمایہ دار طبقہ قومی دولت کو
لوٹ کر اپنا ذاتی مال بنائے اور لوگوں کی محنت کا استحصال کرے، یعنی لوگ
محنت تو کریں لیکن مہنگائی، ٹیکسز کی بھرمار اور دیگر بنیادی ضروریات کی
عدم دستیابی کی وجہ سے کسمپرسی کی زندگی گذارنے پہ مجبور کر دئیے جائیں تو
ایسی حالت انقلاب کی وجہ بنتی ہے۔
تاریخ انسانی کا مطالعہ بتاتا ہے جب انسانوں کو بنیادی ضروریات سے محروم کر
دیا جاتا ہے، انسانوں کی اکثریت کے لئے عرصہ حیات تنگ ہو جاتا ہے، معاشی
وسیاسی طبقات کے نتیجے میں اقلیتی طبقہ اکثریت کی جان و مال کو داؤ پہ
لگاتا ہے اور قومی وسائل کو بے دریغ لوٹتا ہے اور طرح طرح کے ٹیکسز اور
مہنگائی کے نتیجے میں انسانوں کے لئے روح اور جسم کا رشتہ استوار کرنا بھی
مشکل ہو جاتا ہے۔ مفلوک الحال لوگوں کی اکثریت معاشرے میں ذلت کی زندگی
گذارنے پہ مجبور ہوتی ہے، لوگ بغیر علاج کے مر رہے ہوتے ہیں، عدالتوں میں
انصاف کی بجائے ظالم کا ساتھ دیا جاتا ہے، مظلوم داد رسی کے لئے مارا مارا
پھرتا ہے اور ظالم اپنے اثر رسوخ سے قانون کو اپنے گھر کی لونڈی بنا لیتا
ہے۔ریاست کا کام صرف کرپٹ اور ظالموں کو پناہ دینا اور ان کی حفاظت کرنا
ٹھہرتا ہے۔لوگ ظلم کی چکی میں پستے پستے اور انصاف کی تلاش میں بھٹکتے
بھٹکتے مایوس ہونا شروع ہو جاتے ہیں، یہ مایوسی آہستہ آہستہ معاشرے میں
پھیلنا شروع ہوتی ہے اور اس کے نتائج مختلف صورتوں میں نکلنا شروع ہوتے ہیں۔
خود کشی عام ہوتی ہے، محرومیاں اور نا انصافیوں کی وجہ سے لوگ مجرم بننا
شروع ہو جاتے ہیں، اسی محرومی اور ریاستی اداروں سے مایوسی کے نتیجے میں
مظلوم نوجوان دہشت گردوں کے ہاتھوں استعمال ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ یہی
معاشرتی محرومی اور انصاف سے مایوسی ہے جس کے نتیجے میں عالمی خفیہ
ایجنسیوں کو آلہ کار بنانے میں آسانی ہوتی ہے۔وہ ایسے عناصر کو آسانی سے
اپنے مکروہ مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ غربت و
افلاس میں گھرے عوام کی اکثریت اخلاقی قدروں سے بے بہرہ ہو جاتی ہے، اب
لوگوں کے سامنے دو وقت کی روٹی کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں ہوتا، ہر طرح
کی محرومیوں کی وجہ سے وہ عدم تحفظ کا اس قدر شکار ہو جاتے ہیں کہ اپنی ذات
کے علاوہ کسی کی پرواہ نہیں ہوتی۔ تو پھر اس معاشرے میں انقلاب کی داغ بیل
پڑنا شرو ع ہو جاتی ہے۔
بالاخر معاشرے پہ ایک ایسا وقت آتا ہے جب ریاستی اداروں کی کرپشن اور ظلم و
نا انصافی عروج پہ پہنچ جاتی ہے اور لوگوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا
ہے اور پھر لوگوں کا رخ اس ایلیٹ کلاس استحصالی اور ظالم طبقوں کی پناہ
گاہوں، ان کے محلات اور ان کے دفاتر کی طرف ہو جاتا ہے۔ بپھرے ہوئے محروم
انسانوں کے یہ ہجوم اس ظالم طبقے کے خلاف اپنی بے انتہا نفرت کا اظہار کرنے
کے لئے میدان عمل میں اتر جاتے ہیں، پھر وہ سد راہ ہر اس شئے کو نیست و
نابود کرنا شروع کر دیتے ہیں جو ان کے راستے میں حائل ہوتی ہے۔پھر نہ کوئی
محل بچتا ہے اور نہ کوئی ادارہ اور نہ کوئی ایوان،حکمرانوں کو سڑکوں اور
چوراہوں میں گھسیٹا جاتا ہے۔ لوگ پھر خود انصاف کرتے ہیں،اور اب ان کا
انصاف کرنے کا معیار بھی اپنا ہوتا ہے،وہ اپنی جانیں لڑا دیتے ہیں اور
’’کاخ امراء کے درو دیوار ہلا دیتے ہیں‘‘۔تاریخ ہمیں اس طرح کے مناظر
دکھاتی ہے جب لوگوں نے ظالموں اور جابروں کے تختے الٹے اور انہیں انجام تک
پہنچایا اور پھر اس قوم نے اپنے آپ کو نئے انداز سے بنایا، اپنے اداروں کو
نئے انداز سے تخلیق کیا اور قوم میں پھر سے ایک نئی جان ڈالی اور ترقی کی
راہوں پہ ڈالا۔
دنیا کے انقلابات کی مثالیں ہی لے لیں فرانسیسی انقلاب، روسی انقلاب، چینی
انقلاب، ایرانی انقلاب ، شمالی کورین انقلاب، کیوبین انقلاب جن کے نتیجے
میں ان قوموں نے ایسے نظام تشکیل دئیے کہ آج وہ دنیا کی ترقی کی راہوں میں
نام پیدا کرنے والی اقوام میں شامل ہیں۔ان انقلابات کے دوران ظالم وجابر
طبقات کو ان کے انجام تک پہنچایا گیا،ظالم اور کرپٹ بیور کریسی اور ان کے
حاشیہ بردار حکمرانوں کو سڑکوں اور گلیوں میں گھسیٹا گیا، انہیں بھاگنے کا
بھی موقع نہیں ملا اور ان کے خاندانوں کو بھی برے انجام سے دوچار کیا گیا،
ان ظالم حکمرانوں کی لوٹی ہوئی اور ان کا شاہانہ نظام اور ان کے حمایت
یافتہ مسلح ادارے بھی ان کو اس بد ترین انجام سے نہ بچا سکے، آج تاریخ ان
ظالموں کو برے نام سے یاد کرتی ہے۔
بدقسمتی سے اس وقت ہمارے عوام کی حالت بھی فرسودہ طبقاتی اور استحصالی نظام
کے زیر اثر بھیڑ بکریوں سے کم نہیں۔ عوام کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی
لکیر سے نیچے زندگی گذار رہی ہے، لوگ عام طور پہ ہر ادارے کی کار کردگی سے
مایو سی کی طرف بڑھ رہے ہیں، نوجوانوں کی اکثریت غربت اور محرومیوں کی وجہ
سے اپنے مستقبل سے انتہائی مایوس نظر آ رہی ہے۔ حکمرانوں کی کرپشن ،عیاشیوں
اور ملک کو قرضوں کے جال میں پھنسا ہوا دیکھ کر ہر فرد معاشرہ انتہائی ذہنی
اذیت سے گذر رہا ہے۔لوگ کسی ادارے پہ بھروسہ نہیں کرتے، پولیس کا نظام،
عدالت کا نظام، خفیہ اداروں کا نظام، صحت کا نظام، تعلیم کا نظام،سیاسی
نظام،معاشی نظام اور ان کے چلانے والے ارباب اختیار اور ان کی کرپشن ،
ناہلی نے ہر ذی شعور کو انتہائی مایوسی سے دوچار کر دیا ہوا ہے۔اب اس کا
انجام کیا ہو گا،؟کیا اسی طرح لوگ ان کرپٹ افسروں،سیاستدانوں کو وی آئی پی
پروٹوکول کے ساتھ اس ملک کی تقدیر سے کھیلتے ہوئے اور اپنے استحصال کے
مناظر برداشت کرتے رہیں گے؟کیا اس تاریخی مکافات عمل کا وقت پاکستان میں
بھی شروع ہو سکتا ہے؟ کیا لوگوں کے صبر کے پیمانے کو لبریز کیا جا رہا
ہے؟کیا اس وقت کا انتظار ہے جب لوگوں کا رخ بدلے اور پھر سب’’ تخت اچھالے
جائیں‘‘، اور پھر مجرموں کو سر عام سزائیں بھگتنی پڑیں۔یقیناً وہ طبقات
جانتے ہیں کہ انہوں نے اس قوم کو اس قدر لوٹ لیا ہے کہ ایسا وقت کبھی بھی آ
سکتا ہے لہذا انہوں نے ایک اچھا انتظام اپنے لئے یہ کر دیا ہوا ہے کہ انہوں
نے اپنے بدیسی آقاؤں کے ممالک میں اپنے لئے رہائش گاہوں اور پناہ گاہوں کا
پہلے سے بندو بست کیا ہوا ہے، اب بھی جب کبھی انہیں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی
برا وقت آنے والا ہے تو وہ یہاں سے کھسک جاتے ہیں گویایہ ان کا اصل ملک ہے
ہی نہیں بلکہ ان کی ناجائز کمائی کا ٹھکانہ ہے جہاں سے کمائی کی اور اسے
بیرون ملک منتقل کیا اور خرچ کیا۔اور مزید یہ کہ ان چوروں اور ظالموں کو
عالمی استحصالی ملکوں کی مکمل حمایت حاصل ہے اور انہیں اقتدار میں رکھنے کے
لئے ہر طرح کی مدد فراہم کر رہے ہیں۔ کیونکہ یہ قومی خود مختاری کو پہلے سے
ان کے ہاں گروی رکھ چکے ہیں۔
ایک طرف عالمی اور علاقائی دہشت گردوں کی ریشہ دوانیاں ہیں جو اپنی خفیہ
ایجنسیوں کے ذریعے ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی وششوں میں مصروف
ہیں تو دوسری طرف ناہل سیاسی قیادت اور کرپٹ اور ناہل بیورو کریسی کی خارجہ
پالیسی سے عدم دلچسپی اور مجرمانہ غفلت کے نتیجے میں علاقائی اور عالمی سطح
پہ ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔لیکن سب سے زیادہ تباہ کن صورتحال کی
وجہ ملکی معیشت کی کھلے عام اور بڑے پیمانے پہ کرپشن ہے۔اس کرپشن میں ملوث
وہ تمام عناصر پاکستان کے حقیقی دشمن ہیں، چاہے ان کا تعلق کسی ادارے،کسی
سیاسی جماعت یا کسی بھی طبقے سے ہو۔کیونکہ افر ملک معاشی طور پہ کمزور ہو
گا تو وہ ہر طرح کی دفاعی لائن میں ناکامی سے دوچار ہو جائے گا۔
اس وقت خطے کی صورتحال ہو یا عالمی سطح پہ پاکستان اپنی کمزور معاشی
صورتحال کی وجہ سے تنہائی کا شکار ہے۔بھیک مانگنے والے ممالک میں اس کا
شمار ہوتا ہے۔قرض لے کر بجٹ بنائے جاتے ہیں ،اور یہ قرض رفتہ رفتہ ایک ایسی
صورتحال تک پہنچ گیا ہے جہاں سیاسی خود مختاری کا سودا کرنے کے سوا اور
کوئی حل موجود نہیں ہے۔کرپشن میں ملوث وہ تمام سفید پوش چور نہ صرف بدستور
اس بدقسمت ملک کے ادروں پہ قابض ہیں بلکہ مسلسل ڈھٹائی سے اسے تباہی اور
عدم استحکام کی طرف گامزن کرنے کے لئے کام کر رہے ہیں۔
وہ ادارے جنہوں نے ریاست پاکستان کے تحفظ کے حلف اٹھائے ہیں وہ اس تباہی
اور زوال پہ آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔ملکی دولت جو لوٹ کر بیرون ملک منتقل
کی گئی ہے، اور حکمرانوں نے گذشتہ نصف صدی میں ملکی خزانے سے لوٹے ہوئے مال
سے اپنی جائیدادیں بنائیں ، اپنے خاندانوں کو ترقیاں دیں ،لیکن اگر ترقی کی
راہ پہ جسے نہیں ڈالا وہ بدقسمت پاکستان ہے۔اگر کسی کی حفاظت اور عزت کے
بارے میں نہیں سوچا گیا تو وہ یہ بدقسمت ملک پاکستان ہے۔جب کبھی احتساب کی
بات ہوتی ہے، ان سب سفید پوش چوروں کی جو مختلف اداروں اور جماعتوں میں
پھیلے ہوئے ہیں ان میں کھلبلی مچ جاتی ہے اور مختلف سازشوں اور حیلے بہانوں
سے کسی نہ کسی طرح احتساب کرنے والے اداروں کے کردار کو ہی بدل دیتے
ہیں۔یعنی ’’نہ رہے بانس نہ بجے بنسری‘‘
سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ جمہوریت کی آڑ میں یہ سب چوریوں کو حلال کرنے
کی کوشش ہو رہی ہے۔جو کوئی بھی احتساب کے لئے چوری پہ انگلی اٹھاتا ہے تو
اس کے خلاف سارے چور متحد ہو جاتے ہیں اور اس کی آواز کو دبانے کی کوشش
کرتے ہیں۔کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کو چور چور کہتے ہیں، اب
سوال یہ ہے کہ ان چوروں کو جو ایک دوسرے کو بھی چور کہتے ہیں ان کا احتساب
کون کرے گا؟
کیا ہمارے ملک کی یہ ایلیٹ کلاس جس نے اس ملک کو دیوالیہ کر دیا اور اس ملک
کے سیاسی اداروں، تجارت، معیشت کو تباہی کے دہانوں پہ پہنچا دیا، کوئی طاقت
ایسی ہے جو اس کے نرغے سے اس بد قسمت ریاست کو نکال سکے۔اس وقت بیرون ملک
لوٹی ہوئی دولت اتنی ہے کہ اگر کوئی ایسی طاقت ہو جو اسے ان چوروں کے
احتساب کے بعد واپس لا سکے تو پاکستان کے نہ صرف قرضے ختم ہو جائیں گے بلکہ
ہماری معیشت مضبوط ہو جائے گی۔لیکن ایسا کون کرے؟ اگر ایسا کوئی ادارہ یہ
کردار ادا کرنے کی جب سکت نہیں رکھتا تو پھر اس ملک کے اصل مالک
’’لوگ‘‘میدان عمل میں آتے ہیں اور پھر وہ ہوتا ہے جس کو تاریخ’’خونی
انقلابات‘‘کا نام دیتی ہے۔کیا ہم اس وقت کا انتظار کر رہے ہیں؟ اس پہ سوچنے
کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ |
|