’ بھارتیو! ایک وقت کبوتر کا تھا تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو‘

ایک طرف توبارڈر پرسرخ جھنڈے دیکھتی ہوں تو دوسری طرف انتشارِاعلی۔کیا اب دنیا بھرمیں گلی کے کتوں کی موت کا ذمے دار بھی پاکستان کو ٹھرایا جائے گا؟ آج کل جو صورتحال ہے عین ممکن ہے ،شبِ تاریک میں سوئے پانچ سالہ بھارتی بچے کی کسی ڈراؤنے سپنے کے تحت آنکھ کھل جانے پر بھی پاکستان کو نیندیں حرام کرنے کا دوش دیا جائے یا پھر بارش کے کم برسنے پر یہ منطق پیش کیا جائے کہ پاکستانیوں نے آسمان میں کنٹینر لگا رکھے ہیں۔محض کبوتر سے خوف کھانے والے لوگ شاید اس بات سے بے خبر ہیں کہ جنگیں ہتھیاروں،ٹینکوں اور بارود سے نہیں جذبہِ ایمانی سے لڑیں جاتی ہیں اورایسی قوم جو جھوٹے اور من گھڑت پروپوگنڈوں کو صرف اس خیال کے تحت فروغ دے رہی ہوکہ ایسا کرنے سے اس کے دامن پر لگے داغ مٹے جا سکتے ہیں تو آفرین ہے کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اپنی شخصیت مزید دا غ دارکر ر ہی ہے۔کبھی کبھی تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ بلا تصدیق کیئے کسی بھی سانحہ کے لیے اپنے مخالف کو قصوروار کیسے ٹھہرایا جا سکتا ہے؟ کیا محض شک کی بنا پر ڈھول بجا بجا کر ملک دنیا بھر میں شور شرابا کیا جا سکتا ہے؟

افغانستان،ایراق،سعود یہ،یمن،لبیا،کوریہ اور بھی کئی ملزوم ممالک جہاں انسانیت کی کثرت سے موت واقع ہوئی ،جب سرخ ندیاں بارود کی بو خود میں سموئے دنیا بھر سے کہ رہی تھیں:
؂ بولتے کیوں نہیں میرے حق میں
ؔ آبلے پڑ گئے زبان میں کیا
تب دکھ کی بانسری تو صرف چند مذہبی گروہوں کے ہاتھ میں دیکھنے کو ملی تو اب کچھ لوگوں کے لیے یہ سر بجا کر اپنے جھوٹے منصوبے کی ترویج سے صرف ان لوگوں کو ہی موم کیا جا سکتا ہے جا حقائق سے لاعلم ہوں۔کہا جاتا ہے صبر کا بھی ایک پیمانہ ہوتا ہے ۔کشمیر پر ظلم کی انتہا کر کے روز لاشوں کا بازارلگانے کے بعد دہشت گرد کا لیبل پاکستان کے ساتھ لگانا کہاں کی منصف گیری ہے؟تمام جرائم کے الزامات پاکستان پر تھوپنے سے فارغ ہونگے تب ہی اپنے گریبانوں میں جھانکنے کا وقت ملے گا۔مجھے یاد پڑتا ہے ایک وہ دور کہ جب الزام تراشی کے لیے کبوتر کا سہارا لیا گیا ،بھارت اپنی اس عادت سے مجبور ہے جس سے ہم سب ہی بخوبی واقف ہیں، کبھی کوئی خفیہ سازش توکبھی کوئی دھماکا اور کبھی کوئی من گھڑت کہانی سنا کر اِدھرا’دھر سے ہمدردی اکھٹی کی جا رہی ہوتی ہے۔ کیا دو پل چین سے بیٹھنا انسان کو کاٹتا ہے؟

اور جہاں تک بات کشمیر کی کی گئی ہے تو اسکا حل یوں ظلم و بربیت کا بازار گرم رکھنے سے ہرگزنہیں نکل سکتالہذاضروری ہے کہ شہریوں کی آواز دبانے کی بجائے انکی خواہشات کا احترام کیا جائے۔ظلم اور جبر سے صرف نفرت کی آگ ہی لگائی جا سکتی ہے جس میں کہیں بھی امن و امان کا نشان ملنا نا ممکن ہے۔ مسئلے کو اگر مذاکرات سے حل کرنے کی کوشش کی جائے تو شاید امن قائم رہ جائے کیونکہ جنگ کے بعد کامیابی و ناکا می کا فیصلہ ہی نہیں ہوگا بلکہ دونوں طرفہ نقصان کی فہرسٹ بھی منظرِعام پر لائی جائے گی اور ممکن ہے ازالے میں صدیاں بیت جائیں یا شاید ازالہ ممکن ہی نہ ہو۔بات اگر امن کی ہے تو امن پسندی سے ہی حل ہونا چائیے مگراسطرح سرِعام اعلانِ جنگ اور الزام تراشی کا مطلب کسی بھی قوم کی غیرت کوللکارنا ہے اور یاد رہے اینٹ کا جواب ہمیشہ پتھر سے ہی آیا کرتا ہے۔
Fatmah A. Zeb
About the Author: Fatmah A. Zeb Read More Articles by Fatmah A. Zeb: 5 Articles with 3934 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.