علامہ اقبال پر بے بنیاد الزام کا ایک جائزہ!
(Azhar Hussain, Islamabad)
علامہ اقبال پر بے بنیاد الزام کا ایک جائزہ! |
|
|
علامہ اقبال |
|
کل قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہوئے ایک آیت
میری نظروں سے گزری جوکہ کچھ یوں تھی۔
اِنَّ اللہَ لَا ےُغَیِّر مَابِقَومِہِ حَتّٰی ےُغَیِّروامَابِاَنُفُسِہِمْ
O (سورۃ الرَّعْد، پارہ 13 ، آیت نمبر11)
ترجمہ: کسی قوم کی حالت اللہ اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ
بدلیں۔یہ ترجمہ پڑھتے ہی میرے ذہین میں خود ہی ایک جھما کا سا ہوتا ہے اور
بے اختیار ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کا یہ شعر زبان پرآتا ہے۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خیال جسے خود اپنی حالت کے بدلنے کا۔
مجھے اس وقت سمجھ میں آیا علامہ محمد اقبال کی زیادہ تر شاعری قرآن و سنت
کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ اور جو اب شکوہ اس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کا زیادہ تر طبقہ جس میں طلباء کرام اور اساتذہ
کرام بھی شامل ہیں۔ یہ قیاس رکھتے ہیں کہ علامہ محمد اقبال شراب پیتے تھے
۔نعوذ باللہ ! بلکہ اس ضمن میں ان حضرات نے ایک جھوٹا واقعہ بھی مشہور کر
رکھا ہے کہ ایک دفعہ علامہ محمد اقبال مسجد میں بیٹھے شراب پی رہے تھے کہ
لوگوں نے کہا یہ آپ کیا کررہے ہیں مسجد میں شراب پی رہے ہیں یہ اللہ کا گھر
ہے تو علامہ اقبال نے جواب دیا مسجد میں نہیں پیتا پھر کوئی ایسی جگہ بتا
دو جہاں اللہ نہ ہو وہاں جا کے پی لوں گا ۔اللہ معاف فرمائے۔یہ سراسر جھوٹ
ہے علامہ محمد اقبال جیسی نیک اور پاکیزہ شخصیت پر ایک الزام ہے ۔علامہ
محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کیسے انسان تھے آپ کو اللہ اور اسکے رسول سے
کتنی محبت تھی میں آپ کو آج ایک جھلک دکھانا چاہتا ہوں۔
حدیث قدسی ہے کہ نبی پاک ﷺفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ
میں اتنا سخی اور کرم فرمانے والا ہوں کہ مجھے حیاء آتی ہے کہ میرا کوئی
بندہ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور میں اسے خالی ہاتھ بھیج دوں۔اس پر علامہ
محمد اقبال فرماتے ہیں کہ
روزِ حساب جب میرا پیش ہو دفترِ عمل آپ بھی شرمسار ہو، مجھ کو بھی شرمسار
کر
علامہ محمد اقبال ایک خوفِ خدا اور حضرت محمد ﷺ سے انتہائی عشق رکھنے والی
شخصیت تھے ۔علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں۔
ہر ابتداء سے پہلے ، ہر انتہاء کے بعد
ذاتِ نبی ﷺبلند ہے ، ذاتِ خدا کے بعد
دنیا میں احترام کے قابل ہیں جتنے لوگ
میں سب کو مانتا ہوں، مگر مصطفٰیﷺ کے بعد
قتلِ حسین علیہ السلام اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
حضرت محمد ﷺ کے ساتھ ان کے عشق اور محبت کا اندازہ علامہ محمد اقبال کے
بیٹے جسٹس (ریٹارئرڈ)جاوید اقبال کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے جو کہ
انہوں نے ایک انٹرویو میں دیا تھا۔
" میں نے اپنے باپ (علامہ محمد اقبال ) کو کبھی روتے نہیں دیکھا حتیٰ کہ جب
میری ماں فوت ہوئی اس وقت بھی نہیں۔لیکن جب بھی ان کے سامنے حضرت محمد ﷺ کا
نام لیا جاتا تھا وہ بے اختیار رونے لگ جاتے تھے۔سبحان اللہ"۔۔۔ایسا عشقِ
رسول آج کل تقریباً ناپید ہے۔
بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ علامہ اقبال رحمۃ
اللہ علیہ نے تہجد کی نماز نہ پڑھی ہو۔وہ باقاعدگی کے ساتھ تہجد کی نماز
بھی پڑھتے تھے۔ان کا یہ شعر ہر بچے بچے کی زبان پر ہے۔
کی محمد ﷺسے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں۔ یہ جہاں چیز ہے کیا ، لوح و قلم
تیرے ہیں۔
ہم لوگ یہ شعر تو پڑھ دیتے ہیں لیکن کبھی اس کے مطلب پر غور نہیں کیا۔اس
شعر میں علامہ محمد اقبال نے یہ دکھا یا ہے کہ اللہ پاک انسان سے فرماتے
ہیں کہ۔
" اے میرے بندے اگر تو حضرت محمد ﷺ سے وفا کرے گا یعنی ان کے طریقے سے
زندگی گزارے گا اور آپ ﷺ کی زندگی کو اپنے لئے نمونہ سمجھے گا اور ان کی
سنتوں پر عمل پیرا ہو کر زندگی بسر کرے گا ، تو یہ دنیا کی آسائشیں جس کے
لئے ہر کوئی پاگل ہے اور یہ جہان جس کو حاصل کرنے کے لئے انسان ہر حد سے
گزر جاتا ہے کوئی چیز نہیں ہم تجھے لوح و قلم جس سے ہم انسان کی قسمت اور
تقدیر کا فیصلہ لکھتے ہیں تجھے دے دیں گے تو خود اپنی قسمت لکھنا (یعنی جو
تو چاہے گا جو بھی چاہے گا وہی ہوگا۔) بس محمد ﷺ سے وفا کر" ۔سبحان اللہ
یہ صرف اقبال ہے جو مزدور کے تلخ ایام کی داستان بھی بیان کرتا ہے اور
معراجِ انسانی کے عظیم واقعے سے درس بھی سکھاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ صرف
اور صر ف ایک ہے کہ اقبال کا سارا کا سارا علم قرآن پاک سے مستعار ہے۔اللہ
کا نورِ ہدایت ہے۔اس لئے کہ اقبال نے خود یہ دعوٰی کیا ہے۔
گرد لم آئینہ بے جو ہراست گربجز فم غیر قراں مضمر است
پردہ ناموسِ فکرم چاک کن
ایں خیاباں زار خارم پاک کن
(اگر میرے دل کے آئینے میں کوئی خوبی نہیں ہے۔اگر اس دل میں قرآن کے علاوہ
کوئی ایک لفظ بھی موجود ہے تو اے اللہ میری عزت کا جو پردہ بنا ہے اسے چاک
کردے۔ان پھولوں جیسی دنیا سے مجھ جیسے کانٹے کو نکال دے۔)
اس لئے کہ قرآن پاک کا یہ دعوٰی ہے کہ " اور ہم نے تم پر ایسی کتاب نازل کی
ہے جس میں ہر چیز کا بیان مفضل ہے۔" (النحل ۔89)
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کے بیٹے جسٹس (ریٹائرڈ ) جاوید اقبال کی کتاب "
اپنا گریبان چاک" سے اقتباس ہے۔
والد کے عقیدت مندوں میں ایک حجازی عرب بھی تھے جو کبھی کبھار آتے اور
انہیں قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتے۔میں نے بھی ان سے کچھ عرصہ کے لئے قرآن
مجید پڑھا ہے ۔وہ بڑے خوش الحان تھے۔ والد صاحب بھی ان سے قرآن مجید سنتے ،
مجھے بلوا بھیجتے اور اپنے پاس بٹھا لیتے ۔ایک بار انہوں نے سورۃ مزمل کی
تلاوت کی تو آپ اتنا روئے کہ تکیہ آنسوؤں سے تر ہوگیا ۔جب وہ ختم کرچکے تو
آپ نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور مر تعش لہجے میں بولے ۔" تمہیں یوں
قرآن پڑھنا چاہیے" اسی طرح مجھے ایک بار مسدس حالی پڑھنے کو کہا اور خاص
طور پر وہ بند ۔۔۔جب قریب بیٹھے ہوئے میاں محمد شفیع نے دہرایا۔
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی برَ لانے والا
تو آپ سنتے ہی آبدیدہ ہو گئے ۔میں نے انہیں والدہ کی موت پر آنسوبہاتے نہ
دیکھا تھا مگر قرآن مجید سنتے وقت یا اپنا کوئی شعر پڑھتے وقت یارسول اللہ
ﷺ کا اسمِ مبارک کسی کی نوکِ زباں پر آتے ہی ان کی انکھیں بھر آیا کر تیں
تھیں۔
ایک جگہ پر علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
عشق قاتل سے بھی ، مقتول سے ہمدری بھی یہ بتا کسی سے محبت کی جزا مانگے
گا؟
سجدہ خالق کو بھی، ابلیس سے یارانہ بھی حشر میں کس سے عقیدت کا صِلہ مانگے
گا؟
یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضرت علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
جب شراب کی بات کرتے ہیں ۔ساقی سے مراد ساقیِ ازل یعنی اللہ تعالی اور شراب
سے مراد اس کی وحدانیت کی شراب اور اللہ کے احکامات ہوتے ہیں۔جیسا کہ ساقی
نامہ میں فرماتے ہیں۔
پلادے مجھے وہ مئے پردہ سوز کہ آتی نہیں فصلِ گل روز روز
وہ مئے جس سے روشن ضمیرحیات وہ مئے جس سے ہے مستیِ کائنات۔
اس کالم کے شروع میں قرآنی آیت کے مطابق علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ
کا شعر اور یہ شعر یہ تو علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی عظیم شاعری کا
چھوٹا سا نمونہ ہے۔ ان کی شاعری آپ کو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کی
طرف اشارہ کرتی دکھائی دے گی۔کیا ایک شرابی ایسا نیک اور پاکیزہ انسان ہو
سکتا ہے؟ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں۔ |
|