سیدہ ام ایوب الانصاریہ رضی اﷲ عنہا
(Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi, Narowal)
نام و نسب:اسم گرامی سیدہ ام ایوب والد کا
نام قیس بن سعد، سید ہ ام ایوب کا نکاح حضرت خالد بن زید رضی اﷲ عنہ سے ہوا
تھا ۔ جن کی کنیت ابو ایو ب الانصاری تھی وہ انصار کے سرداروں میں سے تھے
اور یہ دونوں میاں بیوی ان لوگوں میں شامل ہیں جن کے بارے میں اﷲ تعالیٰ نے
فرمایا ہے :
’’اور جن لوگوں نے پہل کی یعنی سب سے پہلے ایمان لائے مہاجرین میں سے اور
انصار میں سے بھی ۔۔۔ اور جن لوگوں نے نیکو کاری کے ساتھ ان کی پیروی کی اﷲ
تعالیٰ ان سے خوش ہے اور وہ اﷲ تعالیٰ سے خوش ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے ان
کیلئے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں اوروہ ہمیشہ ان میں
رہیں گے ۔ یہ بڑی کامیابی کی بات ہے۔ ‘‘
سیدہ ام ایوب اور ان کے اسلام لانے کا بیان:ایک صبح کو سیدہ ام ایو ب رضی
اﷲ عنہا بیدار ہوئی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے شوہر ابو ایوب رضی اﷲ عنہ
اپنے آپ کو سفر کرنے کیلئے تیار کر رہے ہیں ۔تو انہوں نے تلوار اپنے گلے
میں لٹکالی ہے اور اپنے سفید سیاہی مائل گھوڑے کی پیٹھ پر سوار ہو رہے ہیں
۔میں نے ان سے پوچھا آپ کا ارادہ کدھر کو جانے کا ہے تو انہوں نے بتایا کہ
وہ اس نبی کو دیکھنے مکہ جا رہے ہیں جو وہاں ظاہر ہوئے ہیں اور لوگوں کیلئے
ایک نیا دین لے کر آئے ہیں اور وہ لوگوں کو بتوں کی عبادت چھوڑ دینے کی
دعوت دے رہے ہیں اور ایک اﷲ تعالیٰ کی توحید کی طرف لوگوں کو بلارہے ہیں۔
سید ہ ام ایوب نے اپنے شوہر نامدار کو اس مبارک سفر کیلئے رخصت فرمایا اور
وہ دل میں خوش ہو رہی تھیں اور دل ہی دل میں سوچ رہی تھیں کاش یہ شخص اپنی
دانش مندی اور اس دین کے ذریعے سے جووہ لے کر آئے ہیں اوس اور خزرج کے
درمیان بھڑکنے والی جنگ کی اس آگ کو بجھا دیں اور وہ خیر کے سفیر بن کر اور
اصلاح کے وسیلہ بن کر ہمارے ہاں تشریف لائیں تاکہ ان لوگوں کے سینوں سے
کینے دور ہو جائیں اور یہود کی شرارتوں اور جرائم کا خاتمہ ہو اس لیے کہ
یہی لوگ ہیں جو فتنے کی آگ کو ہوا دیتے ہیں اور جنگ کے شعلے بھڑ کاتے ہیں
اور انہوں نے اپنے شوہر کیلئے یہ تمنا فرمائی کہ وہ صحیح سلامت پاک دل لے
کر اور نیکی سمیٹ کر واپس آئیں ۔
سیدہ ام ایوب مسلسل اپنے شوہر کے آنے کا انتظار فرماتی رہیں اور ان کے دماغ
میں طرح طرح کے خیالا ت آتے رہے اور زیادہ دیر ہو جانے کی وجہ سے بہت سے
وسوسے اور بے چینیاں ان کے دماغ میں کلبلاتی رہیں اور رات بھر سوچتی رہتیں
اور اپنے شوہر کے بارے میں اپنے دل سے سوال کرتی رہتیں کہ ان کا سفر کیسے
تکمیل کو پہنچے گا اور وہ کیا خبر لے کر آئیں گے۔
چند دنوں بعد انہوں نے اپنے دروازے کے باہر گھوڑے کے ٹاپوں کی آواز سنی تو
وہ سمجھ گئیں کہ ان کے شوہر ابو ایوب انصاری ہیں کیونکہ وہ ان کے آنے کے
انداز کو الگ سے پہچانتی تھیں اور یہ ان کے صحیح سلامت واپس آنے کی خوش
خبری تھی جن کی وجہ سے وہ پریشان ہو رہی تھیں اب ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ
آگئی اور ان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا اور وہ اپنے چہرے کو ڈھانپ کر دروازے
کی درازوں سے دیکھنے لگی کہ باہر کیا خبر ہے ؟ اور اُن کا اندازہ تھا کہ
خیر کی خبر ہی آئی ہے ۔انہوں نے اپنے شوہر کے آرام کرنے کا تھوڑا سا وقفہ
لیا ۔تاکہ ان کے شوہر راستے کی مشقت اور صعوبت سے تھکے ہوئے ہیں ۔کچھ آرام
فرمالیں پھر ان سے اطمینان کے ساتھ باتیں کریں گی اور وہاں کے حالات پوچھیں
گی جن کے لئے وہ عرصہ سے انتظار میں تھیں۔
تو جناب ابوایوب انصاری رضی اﷲ عنہ نے سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہا کو بتایا
کہ وہ اور ان کے ساتھی کیسے جناب رسول اﷲ ﷺ سے ملے اور ان کا شیریں اور
خوبصورت کلام سنا ۔ اور کیسے آپ کا کلام سن کر ان کے دلوں کو سرور حاصل ہوا
اور حضور اکرم ﷺ کی ذات پر اعتماد اور امن کا احساس ہوا اور ایسا کلام
انہوں نے اس سے پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔ لہٰذا ہم لوگ اس پر ایمان لے آئے
اور آپ ﷺ کی تصدیق کی اور حضور اکرم ﷺ سے اﷲ تعالیٰ کی اطاعت اور اﷲ تعالیٰ
کے رسول کی نصرت پر بیعت کی۔
ابھی حضرت ابوایوب رضی اﷲ عنہ نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ ان کی بیوی
کا چہرہ کھل اٹھا اور ان کا کلام ان کے دل میں گھر کر گیا فرمانے لگیں میں
اپنی ذات کو اﷲ تعالیٰ کے تابع کرتی ہوں اور اقرار کرتی ہوں کہ اﷲ تعالیٰ
کے سوا کوئی معبود نہیں اور اقرار کرتی ہوں کہ جناب محمد ﷺ اﷲ تعالیٰ کے
رسول ہیں۔
سیدہ ام ابوایوب رضی اﷲ عنہا نے اپنے شوہر ابو ایوب رضی اﷲ عنہ کے ساتھ
نہایت پر سکون زندگی گزاری اور یہ اپنے شوہر کی رائے پر اور اعلیٰ دانش
مندی پر پورا اعتماد فرماتیں اور ان کے لئے ہر وقت خیر اور بھلائی سوچتی
رہتیں اور یہ دین میں آپ کی پیروی کیوں نہ کرتیں جسے انہوں نے سچے دل سے
قبول فرمایا تھا اور جو دین تمام دنیا کی بہتری کیلئے آیا تھا اور جس دین
کی وجہ سے عام بھلائی کے دروازے کھل گئے ۔
سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہا کو کلمہ شہادت پڑھنے اور حق کا اقرار کرنے کے بعد
ایک گہری سعادت اور اطمینان کا احساس ہوا جو اس سے پہلے انہیں کبھی محسوس
نہیں ہوا تھا اور اس روحانی لذت کا انہوں نے مزہ نہیں چکھا تھا ۔ جب حضرت
مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ حضرت اسعد بن زرارہ کے ہاں مہمان بن کر تشریف لائے
اور لوگوں کو قرآن کریم پڑھ کر سنانے لگے اور اﷲ کا دین انہیں سمجھانے لگے
تو جناب ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ حضرت مصعب بن عمیر رضی اﷲ عنہ کی ان
مجالس میں متواتر حاضری دے رہے تھے۔ تاکہ وہ ان سے قرآنی آیات کو یاد کریں
اور ان باتوں کا ذخیرہ کریں جو ان کی زبانی نبی اکرم ﷺ کی جانب سے وہ سنتے
ہیں یا فقہ کے احکام معلوم کریں۔
اور جناب ابو ایوب رضی اﷲ عنہ اپنی اس ذمہ داری کا احساس رکھتے تھے اور جو
کچھ وہاں سے احساس کرتے اسے اپنی بیوی ام ایوب رضی اﷲ عنہا اور اپنے رشتہ
داروں اور تمام دوستو ں تک پہنچاتے ۔
جناب نبی اکرم ﷺ کی ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف آوری :ایک صبح کو اہل
مدینہ جاگے تو انہوں نے ایک نہایت مبارک خبر سنی ۔ انہوں نے سنا کہ جناب
سید البشرحضرت محمد مصطفی ﷺ مدینہ منورہ کی طرف تشریف لارہے ہیں اور ابھی
راستے میں ہیں ۔ تو مدینہ والوں نے آنجناب ﷺکے لیے اپنے بازو پھیلادئے اور
تمام مرد عورتیں اور بچے حضور اکرم ﷺکومرحبا اور خوش آ مدید کہنے کے لیے
مدینہ منورہ سے نکل پڑے اور نہایت احسن طریقے سے آپ ﷺ کے استقبال کیلئے
کھڑے ہو گئے اور دیکھو جناب نبی اکرم ﷺ کی سواری آہستہ آہستہ قریب آرہی ہے
اور بہت سے لوگوں نے تو انتظار کی زحمت گوارا نہیں کی اور وہ دور تک آپ ﷺ
کے استقبال کیلئے پہنچ گئے ۔ تاکہ انہیں مدینہ منورہ میں داخل ہونے سے پہلے
ہی شرف رفاقت اور سعادت ملاقات حاصل ہو جائے ۔پھر جب ان لوگوں کو جناب رسول
اﷲ ﷺ کا روشن چہرہ نظر آیا اور ان کی آنکھیں حضور اکرم ﷺ کے دیدار سے ٹھنڈی
ہوئیں تو ہر طرف مرحبا اھلاً و سہلا ً کا شور مچ گیا اور خوش آمدید کی
صدائیں ہر طرف سے گونجنے لگیں اور ننھی بچیاں استقبال کے میٹھے ترانے گانے
لگیں۔
’’ہمارے سامنے چودھویں کا چاند ثنیا الوداع کی گھاٹیوں سے طلوع ہوا ہے
لہٰذا ہمارے ذمہ اس کی شکر گزاری ادا کرنا لازمی ہے ۔جب تک اﷲ تعالیٰ کی
دعوت دینے والا نبی موجود ہے ۔اے ہمارے اندر مبعوث ہونے والے نبی آپ کے
لائق امر ہمارے پاس لے کر آئے ہیں ۔آپ ﷺ تشریف لائے ہیں تو مدینہ کو شرف
حاصل ہوا ہے ۔اے بھلائی کی دعوت دینے والے نبی آپ ﷺ کو مرحبا ۔آپ ﷺ کو خوش
آمدید۔‘‘
تو جناب رسول اﷲ ﷺ کی خدمت میں انصار کی یہ خوش آمدید ان کیلئے بہت بڑی
سعادت تھی جس کا پورا مدینہ گواہ ہے اور آپ ﷺ کے استقبال کیلئے لوگوں کے
ہاتھ آپ ﷺ کی طرف اٹھے ہوئے تھے اور ہر کوئی چاہتا تھا کہ جناب رسول اﷲ ﷺ
کی اونٹنی القصواء کی باگ تھام کر اپنے گھر میں لے جائے تاکہ یہ عظیم
پیغمبران کے ہاں مہمان ہو اور اس سے بڑھ کر معزز مہمان دنیا میں اور کون سا
ہو سکتا تھا اور کون شخص تھا جو اس شرف عظیم کو پانے کا خواہش مند نہ ہو
لیکن اس دن ہوا کیا؟
سید الخلائق جناب محمد رسول اللّٰہﷺ کی انصار کے ہاں بطور مہمان تشریف
آوری:جناب نبی اکرم ﷺ نے خوشی کی جھلک لوگوں کی آنکھوں میں دیکھی اور سچائی
کا نور حضور اکرم ﷺ نے ان کے چہروں پر محسوس فرمایا کہ ہر کوئی انہیں اپنے
ہاں مہمان بنانا چاہتا ہے توحضور اکرم ﷺ نے فرمایا ’’اونٹنی کا راستہ چھوڑ
دو اور اس لیے کے یہ (امر ربی کی ) پابند ہے ۔‘‘اور قصواء اونٹنی آہستہ
آہستہ چلتی رہی گویا کہ وہ حضور اکرم ﷺ کے ٹھہرنے کیلئے مکان پسند کر رہی
ہے ۔ پھر تھوڑی دیر بعد اچانک وہ حضرت ابو ایوب خالد بن زید الانصاری رضی
اﷲ عنہ کے گھر کے سامنے آکھڑی ہوئی ۔
اس وقت سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہا اپنے گھر کے سامنے اونٹنی کے قدموں کا
انتظار کر رہی تھیں اور منتظر تھیں کہ دیکھوں اونٹنی کہاں ٹھہرتی ہے اور اس
وقت وہ اپنے بہتے ہوئے خوشی کے آنسوؤں کو نہ روک سکیں جس وقت انہوں نے
دیکھا کہ قصواء ان کے گھر کے سامنے کھڑی ہو گئی ہے ۔یہ خوشی کے آنسو اس لئے
تھے کہ ایک عظیم ترین مہمان ان کے گھر میں داخل ہو رہا ہے اور ان کے مکان
کی تعمیر سے لے کر یہ سعید موقعہ پہلی بار آیا تھا ۔
لہٰذا سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہ فوراً آپ کے بیٹھنے کیلئے جگہ بنانے کی
تیاری کرنے لگیں اور سونے کی خاص جگہ جہاں ان کا عظیم مہمان آرام فرما سکے
کی تیاری میں لگ گئیں او رمہمان کے کھانے کیلئے مرغوب اور لذیز کھانے کیلئے
اہتمام فرمانے لگیں اور سچی بات تویہ ہے کہ وہ اس وقت سعادت اور خوش نصیبی
کی چوٹی پر بیٹھی ہوئی تھیں اور انہوں نے سعادت کی انتہا کو پا لیا ۔
جناب ابو ایوب رضی اﷲ عنہا اس عظیم مہمان کا سامان اٹھانے اور حضور اکرم ﷺ
کو اپنے گھر کے اندر لانے کیلئے آگے بڑھے ۔ اس دوران جناب رسول اﷲ ﷺ بھی
استقبال کرنے والوں کے خوش آمدید اور سلام کا جواب دینے کی طرف متوجہ ہو
گئے کہ اتنے میں جناب ابو ایوب رضی اﷲ عنہ نے آگے بڑھ کر عرض کیا :’’یا
رسول اﷲ ﷺ میرے ماں باپ آپ ﷺ پر قربان ہوں آج کے روز ہمارے گھر میں حضور
اکرم ﷺ کے تشریف لانے سے بڑھ کر اور کوئی شرف نہیں ہے۔‘‘ اور جناب ابو ایوب
رضی اﷲ عنہ کے مکان کے دو حصے تھے ۔ ایک نیچے اور ایک اوپر، سیدہ ام ایوب
رضی اﷲ عنہانے جناب رسول اﷲ ﷺ کیلئے گھر کے بالا خانے پر رہنے کا انتظام
کیا تھا اور جب حضرت ابو ایوب رضی اﷲ عنہ نے جناب رسول اﷲ ﷺ سے بالا خانے
پر تشریف آوری کیلئے عرض کیا تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے نیچے والے درجے کو پسند
فرمایا کہ اس میں رہنے سے ان کے ملنے والوں کو آسانی رہے گی ۔لہٰذا گھر
والوں کو کوئی چارہ نہ رہا کہ وہ اس عظیم مہمان کی خواہش کے مطابق نچلے
درجے میں ٹھہرائیں کیونکہ فرمان باری تعالیٰ ہے ۔‘‘
’’جب اﷲ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ کسی امر کا فیصلہ فرمادیں تو کسی مومن مرد
اور کسی مومن عورت کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی کریں اور جو شخص
اﷲ اور اس کے رسول کی نا فرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں جا پڑے گا۔‘‘
پہلی رات کو جناب رسول اﷲ ﷺ نیچے کے درجے میں فروکش ہوئے اور حضرت ابو ایوب
رضی اﷲ عنہ اور سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہا اوپر کے درجے میں ٹھہرے ۔ جب ان
دونوں میاں بیوی نے سونے کا قصد کیا تو وہ دونوں اپنے آپ کو گناہ گار
سمجھنے لگے اور فجر تک نہایت بے قراری کی حالت میں انہوں نے رات گذاری ۔ جب
وہ نیچے اترے جناب رسول اﷲ ﷺ کی خدمت اقدس میں دونوں نے سلام عرض کیا اور
جناب ابو ایوب رضی اﷲ عنہ نے حضور اکرم ﷺ کو بتایا کہ وہ لوگ رات بھر نہیں
سو سکے مبادا ہماری کسی حرکت سے آپ ﷺ کو پریشانی اور اس ڈر سے بھی کہ ہماری
وجہ سے آسمان سے وحی اترنے میں کوئی خلل واقع ہو ۔پھر جناب ابو ایوب رضی اﷲ
عنہ جناب رسول اﷲ ﷺ سے اُمیدوار ہوئے اور عاجزی سے عرض کرنے لگے کہ آپ ﷺ
اوپر کے درجے پر قدم رنجا فرمائیں اور انہیں اور ان کی بیوی کو نچلے درجے
میں ٹھہرنے دیں۔
اس عظیم مہمان کی خدمت کیلئے قربانی کا کتنا جذبہ ان میاں بیوی میں موجود
تھا اور حضور اکرم ﷺ کو ہر قسم کی راحت اور آرام پہنچانے کیلئے کتنے بے
قرار تھے۔
جناب ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ کے مکان میں جناب رسول اﷲ ﷺ کا قیام مسجد
نبوی کی تعمیر اور اُس سے ملحق ازواج مطہرات کی سکونت کیلئے حجرات کی تکمیل
تک برابر رہا ۔ کیا مبارک ہیں ابو ایوب رضی اﷲ عنہ اور ام ایوب رضی اﷲ عنہا
کتنے عظیم مہمان کی مہمانی کا انہیں شرف حاصل ہوا جس کیلئے آنکھوں کو تمنا
اور دلوں میں آرزو تھی کہ وہ ہمیشہ کیلئے یہاں مقیم رہیں۔
جب رسول اﷲ ﷺ نے حضرت ابو ایوب رضی اﷲ عنہ کے گھر سے مسجد سے ملحقہ حجروں
میں منتقل ہونے کا ارادہ فرمایا تو جناب ابو ایوب رضی اﷲ عنہ اور ام ایوب
رضی اﷲ عنہا نے آپ ﷺ کی اس جدائی کو بہت زیادہ محسوس کیا لیکن اس بات سے
انہیں تسلی ہو گئی کہ جناب رسول کریم ﷺ کا قیام ان کے گھر کے بہت ہی قریب
ہے اور امہات المومنین کے حجرات جناب ابو ایوب رضی اﷲ عنہ انصاری کے گھر کے
سامنے واقع تھے۔
جناب ابو ایوب اور ام ایوب کے گھرانے کی سرفرازی:جناب ابو ایوب انصاری رضی
اﷲ عنہ اور ان کی بیوی ام ایوب انصاریہ رضی اﷲ عنہا نہایت شریف اور فیاض
لوگ تھے۔ چنانچہ جناب ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ ﷺ
نے ایک دن حضرت ابو بکر و حضرت عمر رضی اﷲ عنہما کو فرمایا کہ تم لوگ اس
وقت کس وجہ سے گھر سے نکلے ہو۔ دونوں نے عرض کیا ، یا رسول اﷲ ﷺ بھوک کے
مارے نکلے ہیں۔ ارشاد فرمایا مجھے بھی اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں
میری جان ہے اسی وجہ سے نکلاہوں جس کی وجہ سے تم گھر سے نکلے ہوا ٹھو(میرے
ساتھ آؤ)تو وہ دونوں حضرات اٹھ کر حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ہو لیے تو جناب رسول
کریم ﷺ ایک انصاری کے گھر میں تشریف لائے تو وہ اس وقت گھر میں موجود نہیں
تھے۔ جب ان کی بیوی نے حضور اکرم ﷺ کو دیکھا تو عرض کیا مرحباً و اھلاً خوش
آمدید خوش آمدید۔
جناب رسول اﷲ ﷺ نے ان سے پوچھا کہ فلاں (یعنی ان کے شوہر کے بارے میں
پوچھا) کہاں ہیں ۔انہوں نے عرض کیا وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لینے گئے ہیں
کہ اتنے میں وہ انصاری آپہنچے اور جناب رسول اﷲ ﷺ اور حضور اکرم ﷺ کے دونوں
ساتھیوں پر ان کی نظر پڑی تو عرض کرنے لگے الحمد ﷲ اس سے بڑھ کر میرے لیے
مہمانی کا دن کیا حاصل ہو گا۔ راوی فرماتے ہیں وہ گئے اور ایک بھرا ہوا طشت
لے آئے جس میں خشک کھجوریں اور تازہ کھجوریں تھیں ۔ عرض کیا کہ یہ کھائیں
اور چھری پکڑی تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے ان سے ارشاد فرمایا کہ دودھ والی سے
بچنا یعنی دودھ والی بکری کو ذبح نہ کرنا تو انہوں نے مہمانوں کیلئے بکری
ذبح کی اور مہمانوں نے گوشت کھایا اور کھجوریں کھائیں اور کھاپی کر سیر اور
سیراب ہوگئے تو جناب رسول اﷲ ﷺ نے حضرت ابو بکر و عمر رضی اﷲ عنہما سے
ارشاد فرمایا:’’قسم اس ذات گرامی کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تمہیں
قیامت کے روز ان نعمتوں کے بارے میں پوچھا جائے گا(دیکھو) بھوک نے تمہیں
تمہارے گھروں سے نکلنے پر مجبورکر دیا اور اب تم واپس جارہے ہو تو تمہیں یہ
نعمت (شکم سیری) حاصل ہوئی ہے ۔‘‘
یہ معزز مہمان نواز جناب ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ اور ان کی بیوی ام
ایوب رضی اﷲ عنہا تھے ۔ اور کیسی عجیب بات ہے کہ یہ تینوں حضرات بھوک سے
لاچار ہو کر اپنے گھروں سے نکلے ہیں اور ان کے گھر میں کھانا نہیں ہے اور
پھر بھی حضور اکرم ﷺ فرما رہے ہیں ان نعمتوں کے بارے میں رو ز قیامت تم سے
سوال ہو گا لیکن آج کے دور میں بعض لوگ ہیں کہ زیادہ کھا کر ہیضے سے مرجاتے
ہیں یا پیٹ کی بیماریوں میں مبتلا ہو کر ہزاروں روپے بیماریوں پر خرچ کر
دیتے ہیں اور یہ سب فضول خرچی اسراف کا نتیجہ ہے کہ لوگ پیٹ بھرنے کیلئے
اور نفسانی لذتوں کیلئے بے حساب روپیہ خرچ کرتے ہیں ۔حالانکہ کھانے کا حکم
تو ضرور ہے لیکن اسراف اور حد سے بڑھنے کی اجازت نہیں۔
سیدہ اُمِ ایوب اور ان کے شوہر کی عبادت گزاری:سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہا
اور ان کے شوہر رضی اﷲ عنہ کو اہل مدینہ میں سب سے زیادہ سعادت یہ حاصل تھی
کہ ان کا گھر مسجد نبوی کے بالکل متصل تھا اور حضر ت بلال حبشی رضی اﷲ عنہ
جب وہ مسلمانوں کو جناب نبی اکرم ﷺ کے پیچھے فریضۂ نماز کی ادائیگی کیلئے
بلاتے تھے تو اذان کی آواز ان کے کانوں میں رس گھولتی اور انہیں مسرت سے
سرشار کر دیتی ۔ یہ اس دائمی نعمت پر اﷲ تعالیٰ کے شکر گزار ہوتے اور دینِ
اسلام کی طرف رہنمائی پر اﷲ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرتے اور چونکہ محض زبانی
حمد و شکر اور اقرار انسان کیلئے کافی نہیں کیونکہ حقیقی ایمان وہ ہے جو دل
کے اندر قائم ہو اور عمل سے اس کی تصدیق ہو چونکہ خالی زبان کا اقرار کافی
نہیں ہوتا اس لیے سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہا اپنے شوہر سمیت عبادت میں عملی
طور پر مصروف رہتیں اور نہایت ذوق و شوق کے ساتھ فرض نمازیں ادا فرماتیں
اور نوافل کے ساتھ اﷲ تعالیٰ کا قرب حاصل کرتیں اور رات کو بہت کم سوتیں
اور نہ صرف ماہِ رمضان کے روزے رکھتیں بلکہ دوسرے دنوں میں بھی وہ اکثر
روزہ دار رہتیں اس لیے کہ وہ جانتی تھیں کہ روزہ اﷲ تعالیٰ کی مخصوص عبادت
ہے اور اس کی جزاء بھی وہ دے گا۔
قرآن کریم تو ان کا بہترین ساتھی تھا ۔ قرآنِ مجید کی جو آیات مبارکہ جناب
ابو ایوب رضی اﷲ عنہ جناب رسول اﷲ ﷺ کی زبان مبارک سے سن کر آتے یہ بھی
انہیں پڑھتیں اور کبھی کبھی یاد کر لیتیں اور قرآن کریم کے اسی تدبر اور
تفقہ ہی نے انہیں لوگوں کے ساتھ نیکی، فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ نیک
برتاؤ اور تمام مسلمانوں کی مشکلات کو دور کرنے کا عملی جذبہ پیدا کر دیا
تھا اور عبادت کی کوشش میں انہوں نے یہ مقام حاصل کر لیا تھا کہ جناب رسول
اﷲ ﷺ کی احادیث کی روایت میں ان پر پوری طرح اعتماد کیا جاتا تھا اور صحابہ
کرام رضی اﷲ عنہم کا ان سے روایت حدیث کو قبول فرمانا ان دونوں کے اعلیٰ
اسلام ، صداقت اور قابل اعتماد ہونے کی دلیل ہے ۔
صحیح مسلم میں جابر بن سمرہ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ سے روایت
فرماتے ہیں ۔فرماتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ ﷺ کے ہاں جب کوئی کھانا آتا تو آپ
ﷺ اس میں سے تناول فرماتے اور باقی میری طرف بھیج دیتے ۔ ایک دن انہوں نے
میری طرف بچاہوا کھانا بھیجا لیکن ابھی تک آپ ﷺ نے اس میں سے تناول نہیں
فرمایا تھا ۔اس لئے کہ اس میں لہسن پڑا ہوا تھا ۔ تو میں نے حضو ر اکرم ﷺ
سے پوچھا کیا یہ حرام ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا نہیں میں اس کی بو کی وجہ
سے اسے نا پسند کرتا ہوں تو حضرت ابو ایوب رضی اﷲ عنہ نے فرمایا میں بھی اس
چیز کو نا پسند کروں گا جسے آپ ﷺ نا پسند فرماتے ہیں۔
سیدہ ام ایوب رضی اﷲ عنہا اور جناب ابو ایوب انصاری رضی اﷲ عنہ نے اﷲ
تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کی شرط پر حضور اکرم ﷺ سے بیعت فرمائی تھی
اور زندگی بھر انہوں نے اس کی حفاظت کی اور اپنے عہد پر پورے اترے اور
فرماں برداری کی زندگی گذارتے ہوئے وہ اپنے رب کریم سے جاملے ۔ اے اﷲ کریم
ان کی مہمانی کو اپنے ہاں احسن فرما دے جیسے انہوں نے تیرے حبیب ﷺ کی
مہمانی احسن طریقے سے فرمائی اور ان دونوں کو جزائے خیر عطا فرما۔
|
|