مولانارحمت اﷲ کیرانوی :انقلاب ۱۸۵۷ء میں اسلام کا دفاع کرنے والے عظیم مبلغ

پایۂ حرمین مولانارحمت اﷲ کیرانوی (متولد ۱۲۳۳ھ/۱۸۱۷ء۔متوفی ۱۳۰۸ھ/ ۸۹۱ء) کبیرالاولیامخدوم جلال الدین پانی پتی (متوفی ۷۶۵ھ)کی اولاد میں سے ایک بلند پایہ عالم دین ہیں۔جن کا سلسلہ نسب خلیفۂ سوم حضرت عثمان بن عفان رضی اﷲ عنہ سے ملتاہے۔ردِ نصرانیت کے باب میں مولانارحمت اﷲ کیرانوی کانام ہندوستان میں معروف اور سرفہرست ہے۔اپنی پوری زندگی میں مولانارحمت اﷲ کیرانوی نے سب سے نمایاں کام یہی کیاہے۔آپ کی دوسری عظیم الشان دینی وعلمی خدمت’’ مدرسہ صولتیہ مکۂ مکرمہ‘‘ کی تاسیس ہے اور تیسرے مرحلے میں انگریزوں کے خلاف آپ کی جدوجہد اور انقلاب ۱۸۵۷ء میں آپ کامخلصانہ کردار اور زمین وجائداد کی قربانی ہے۔کیرانہ مظفر نگر (موجودہ مغربی یوپی)میں ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ حیات دہلی میں آپ نے تعلیم حاصل کی۔پھر لکھنؤ جاکر مفتی سعداﷲ مرادآبادی (متوفی ۱۲۹۴ھ/۱۸۷۷ء ۔شاگردشاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ومفتی صدرالدین آزردہؔ دہلوی)سے چند اعلیٰ کتابوں کادرس لیا۔شاہ عبدالغنی مجددی دہلوی (متوفی ۱۲۹۶ھ/دسمبر۱۸۷۸ء)سے حدیث نبوی سے کئی کتابیں پڑھیں۔مولاناامام بخش صہبائی ؔ سے بھی کچھ تحصیل علم کیا۔شروع میں کئی سال تک کیرانہ کی مسجد میں طلبہ کو پڑھایا ۔مشنری اسکولوں اور پادریوں کی سرگرمیاں جب زیادہ بڑھنے لگیں اور انھوں نے اسلام پر اعتراضات کیے تو شاہ عبدالغنی مجددی کے حکم پر ’’ازالۃ الاوھام‘‘کے نام سے آپ نے ایک ایک ضخیم کتاب لکھی جس میں عیسائیوں بالخصوص پادری فنڈر کی لکھی ہوئی کتاب ’’میزان الحق ‘‘کے سارے اعتراضات کااطمینان بخش جواب دیا۔

۱۲۷۰ھ/۱۸۵۴ء میں مولانارحمت اﷲ کیرانوی اور پادری فنڈر کے درمیان آگرہ میں ایک تاریخی مناظرہ ہواجس میں پادری فنڈر کوآپ نے لاجواب کردیا۔اس مناظرہ کی تفصیلات اسی وقت کتابوں میں شائع ہوگئیں۔اس مناظرہ میں مولانافیض احمد بدایونی اور مولاناڈاکٹروزیر خاں اکبرآبادی آپ کے خصوصی معاون تھے۔انقلاب ۱۸۵۷ء شروع ہواتو آپ نے انگریزوں کے خلاف محاذ آرائی کی۔مولاناامداد صابری دہلوی لکھتے ہیں’’اس زمانہ میں عصر کی نماز کے بعد مجاہدین کی تنظیم وتربیت کے لیے کیرانہ کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر نقارہ کی آواز پرلوگوں کوجمع کیاتھااور اعلان ہوتاتھاکہ ’’ملک خداکااور حکم مولوی رحمت اﷲ کا‘‘(آثار رحمت، بحوالہ: ۱۸۵۷ء : پس منظروپیش منظر،ص۲۹۶)

مولاناکیرانوی کا دہلی کے علمی طبقے اور لال قلعہ کے شہزادوں پر اثر اور ان سے تعلقات تھے اس لیے اس وقت بہادر شاہ ظفر اور دوسرے مجاہدین کے ساتھ مولانارحمت اﷲ صاحب نے بھی جنگ آزادی کا نقشہ بنانے میں حصہ لیااور جنگ میں شرکت فرمائی۔ڈاکٹر مولوی وزیر خاں اکبرآبادی اور مولانافیض احمد بدایونی کے ساتھ دہلی کی جنگ آزادی میں شریک ہوئے۔

کتاب آثار رحمت،تاریخ عروج عہد انگلشیہ اور روزنامچہ عبداللطیف کے علاوہ دیگر کتابوں میں مولاناکیرانوی کی مجاہدانہ سرگرمیوں کاذکر ملتاہے۔ان مجاہدانہ سرگرمیوں کے سبب انگریزوں نے آپ کے خلاف مقدمہ چلایااور اعلان کیاکہ مولاناکیرانوی کو گرفتار کرکے انھیں انگریزوں کے حوالے کرنے والے شخص کو ایک ہزار روپے کا انعام دیاجائے گا ۔ مگر آپ گرفتار نہ کیے جاسکے اور کسی طرح آپ مکۂ مکرمہ پہنچ گئے۔کیرانہ میں آپ کی جائدادوملکیت ضبط کرکے نیلام کر دی گئی۔اسی طرح پانی پت کی آپ کی موروثی جائداد بھی نیلام کردی گئی۔مکہ مکرمہ پہنچ کر آپ نے ۱۲۹۱ھ/۱۸۷۴ء میں مدرسہ صولتیہ قائم کیااور درس وتدریس میں مصروف ہوگئے۔حاجی امدادﷲ مہاجر مکی اور شیخ زینی دحلان شافعی مکی نے وہاں آپ کو کافی سہارادیا۔سلطان ترکی کی دعوت پر کئی بار آپ نے قسطنطنیہ کا سفرکیا۔انھیں کی خواہش پر آپ نے ردِ نصرانیت میں اپنی معرکۃ الآرا کتاب ’’اظہارالحق‘‘مکہ مکرمہ میں لکھ کر پادریوں کا ناطقہ بند کردیا۔۲۴؍رمضان۱۳۰۸ھ/ ۲۸۹۱ء میں مکہ مکرمہ میں آپ کا انتقال ہوااور جنت المعلیٰ میں آپ کی تدفین ہوئی۔
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731678 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More