ہندو پاک کے درمیان کشیدہ تعلقات ۰۰۰ دونوں ممالک کی معیشت کے لئے خطرناک

مسلمانوں کے خلاف امریکی دہشت گردی
ہندوپاک کے درمیان جنگ جیسی صورتحال عالمی سطح پر دونوں ممالک کیلئے نقصاندہ ثابت ہوگی۔جنگ کی صورت میں کروڑوں روپیے کا نقصان دونوں ممالک کو برداشت کرنا پڑے گا اور ساتھ ہی کثیرانسانی جانوں کا اتلاف ہوگا۔ آج دونوں ممالک کے وزرائے اعظم اپنے دیگر وزراء و اعلیٰ فوجی قیادت و عہدیداروں کے ہمراہ اڑی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کے بعد مسلسل صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو اس حملہ کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا کیونکہ جن چار دہشت گردوں کے پاس سے ہتھیار و دیگر سازو سامان ملا اس سے پاکستانی ہونے کا ثبوت دستیاب ہوا ہے۔ ہندوستان نے جوابی کارروائی کے طور یا پھر دہشت گردوں کی جانب سے مزید دہشت گردانہ کارروائی کی اطلاعات پر 28اور 29؍ ستمبر کی درمیانی شب سرحدپار ان دہشت گردوں کا تعقب کرتے ہوئے انکے ٹھکانوں پر حملہ کیا جو سرجیکل حملوں کی صورت میں بتایا گیا۔پاکستان کی جانب سے سرجیکل حملے کی تردید کی جارہی ہے جبکہ 29؍ ستمبر کو ڈائرکٹر جنرل ملٹری آپریشنس لیفٹننٹ جنرل رنبیر سنگھ نے دہلی میں ایک پریس کانفرنس میں ان حملوں سے متعلق بتایا تھا۔ اڑی فوجی کیمپ پر حملہ بے شک ہندوستانی فوجی طاقت کو للکارنا تھا جو پاکستانی دہشت گردوں کی جانب سے کیا گیا ہے۔ پاکستان کے تعلق سے پہلے ہی عالمی سطح پر اسے دہشت گردوں کا ٹھکانہ اور ان کی پشت پناہی کرنے کا الزام ہے ۔ نریندر مودی وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد جس طرح اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے کئی ممالک کا دورہ کئے اور وہ عالمی سطح پر ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس‘‘ کا نعرہ لے کر ایک دوسرے کے تعاون سے ترقی کے منصوبوں کو پیش کرنے کی کوشش کئے اس میں انہیں کسی حد تک کامیابی تو ملی ۔ لیکن اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے تو دوسرے ممالک کے سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے سوچنے پر مجبور ہوجائینگے کہ ان کی سرمایہ کاری کشیدہ صورتحال والے اس ملک میں کس حد تک کامیاب ہوگی۔کشمیر کا مسئلہ ہندوپاک کے لئے کتنا اہم ہے یہ حکمراں جانتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ اپوزیشن کو خاموش کرانے اور ملک میں ہونے والے انتخابات میں کامیابی حاصل کرنا ہے تو کشمیر کے مسئلہ کو اچھالا جائے ۔ دونوں ممالک کی حکومتیں اگر واقعی کشمیر کا مسئلہ حل کرنا چاہتی ہیں تو کشمیری قائدین کے ساتھ مل بیٹھ کر مذاکرات کرتے۔ آج ہندو پاک کے درمیان بگڑتے حالات پر عالمی سطح پر تقریباً تمام ممالک کی نظریں مرکوز ہیں۔ عالمی قائدین جس طرح مشرقِ وسطی میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر مسلمانوں کا قتلِ عام کررہے ہیں اسی طرح اگر ہندو پاک کے درمیان جنگ چھڑجائے تو اس سے ایک طرف پاکستانی مسلمانوں کا قتل عام ہوگا تو دوسری جانب ہندوستان میں ہندومسلم آپسی رواداری کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے کیونکہ ہندوستان میں پہلے ہی فرقہ پرست ہندو دہشت گرد تنظیمیں مسلسل مسلمانوں کے خلاف جھوٹے پروپگنڈوں کے ذریعہ انہیں دہشت گرد بتاتے رہے ہیں۔ اگرہند و پاک جنگ ہوتی ہے تو ہندوستانی مسلمانوں کو جن علاقوں میں انکی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے حملے کئے جاسکتے ہیں اسی لئے ہندوستانی حکومت ملک کے حالات کو بگڑنے سے بچائے رکھنے کے لئے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات نہ سہی دشمنی سے بھی گریز کرنے کی کوشش کریں کیونکہ دونوں ہی ممالک کی فوجی طاقت اپنے اپنے اعتبار سے کئی ایک صلاحیتوں کی حامل ہے ۔ دونوں ممالک کے وزراء اعظم اپنے اپنے ملک کی معیشت کے استحکام کے لئے جس طرح کوششیں کررہے ہیں اس میں انہیں کامیابی اسی وقت مل سکتی ہے جبکہ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات ہوں اور امن و آمان کی فضاء بحال رہے۔ اگر ہندوستانی سرحد پر پاکستانی دہشت گرد حملے کرتے ہیں تو ہندوستانی حکومت جب پاکستان کو ثبوت فراہم کرتی ہے تو اس بنیاد پر پاکستانی حکومت اور فوج کو چاہیے کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف سخت سے سخت کارروائی کرے تاکہ دونوں ممالک کی سلامتی قائم رہے ۔ عالمی طاقتیں دونوں ممالک کے درمیان کشیدہ صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے ہمارے حکمراں خود اپنی سلامتی کے لئے کریں کیونکہ آج عالمِ اسلام میں دہشت گردانہ کارروائیاں ان ہی عالمی ممالک کی دین ہے۔

امریکی دہشت گردی اور فرضی ویڈیوز
امریکہ جو اپنے آپ کو دنیا کا سوپر پاور بتانے کی کوشش کرتا رہا ہے اس نے جس طرح عراق، افغانستان، پاکستان وغیرہ میں مسلمانوں کو دہشت گرد بتاکر جس طرح ان ممالک میں قتل عام کیا ہے اور آج جو صورتحال عراق، شام، افغانستان وغیرہ کی ہے اس سے امریکی دہشت گردی کی پول کھل جاتی ہے ۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ایک تحقیقاتی رپورٹ جوسنڈے ٹائمس اور بیورو آف انوسٹی گیٹیو جرنلزم نے تیار کی ہے بتایا گیا کہ امریکی فوج نے برطانیہ کی ایک پی آر کمپنی کو دہشت گردو ں کے فرضی ویڈیوز تیار کرنے کیلئے پانچ سو ملین ڈالر سے زائد رقم ادا کی تاکہ عراق پر امریکہ کے قبضہ کی مدت بڑھائی جاسکے۔ اس پی آر کمپنی کا نام بیل اوٹنگر بتایا گیا ہے، جس نے نفسیاتی آپریشنس کیلئے دہشت گردوں کے فرضی ویڈویوز تیار کئے ۔ رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤز نے اس وقت عراق میں امریکی فوجوں کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پٹیریاس نے اس متنازعہ کمپنی کی طرف سے پیش کئے گئے مواد کی منظوری دی تھی ۔ اس کمپنی کے سابق چیرمین لارڈٹم بیل نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے سنڈے ٹائمس کو بتایا کہ ان کی کمپنی نے مختلف خفیہ سمجھوتوں کے تحت ایک آپریشن پر کام کیا تھا اور انکی کمپنی پنٹگان، سی آئی اے اور نیشنل سیکوریٹی ایجنسی کو رپورٹ کرتی تھی۔ یہ خفیہ آپریشن 2003میں عراق پر امریکہ کے حملے کے فوری بعد شروع ہوا۔ اس وقت کاامریکی صدر جارج ڈبلیو بش جس نے عراق میں بھیانک تباہی کے ہتھیار رکھنے کا الزام لگاکر عراق پر حملہ کیا تھا حالانکہ بعد میں ایسے ہتھیاروں کی موجودگی کی رپوٹس غلط ثابت ہوئیں۔ عراق پر کئے گئے حملوں کا نتیجہ آج ہیکہ آج عراق میں دہشت گردانہ کارروائیاں جاری ہے اور کم و بیش دس لاکھ عراقی اس جنگ کی نذر ہوچکے ہیں۔ اور آج شام کے حالات امریکہ اور روس کی وجہ سے مزید ابتر ہوتے جارہے ہیں۔

دنیا کا سوپر پاور ملک امریکہ نے شام کے معاملے پر روس کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کا اعلان کردیا ہے امریکہ محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ روس گذشتہ ماہ جنگ بندی کے معاہدے کی شرائط کو پورا نہیں کرسکا۔امریکہ نے روس اور شام پر امدادی کارکنوں اور ہاسپٹلوں پر حملوں میں تیزی لانے اور عام شہریوں کو نشانہ بنانے کا الزام لگایا ہے۔ دوسری جانب روسی وزارت خارجہ نے امریکی فیصلے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ معاہدے کی شرائط کو پورا کرنے میں ناکام ہونے کے بعد خود پر سے توجہ ہٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جاش ایرنیسٹ کے مطابق روس کو لے سب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ روس کی جانب سے جو درندگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے اس کے خلاف عالمی سطح پر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ شامی اور روسی فوج جس طرح طبی اداروں کو نشانہ بناکر درندگی کا ثبوت دیا ہے اس سے ساری دنیا میں اس کی ساکھ متاثر ہوئی ہے ۔امریکہ اور روس کے درمیان شامی جنگ بندی معاہدہ کے تحت ہر ملک کو 34ٹن اضافی پلوٹونیم کو ری ایکٹرز میں تلف کردینے کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن روس نے جوہری ہتھیاروں میں استعمال ہونے والے اضافی پلوٹونیم کو تلف کرنے کا معاہدہ معطل کردیاہے۔ روس اور امریکہ کے درمیان تعلقات بگڑتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن روس اور شام کے خلاف امریکہ جو دنیاکا سب سے سوپر پاور ملک کہلایا جاتا ہے کسی قسم کی کارروائی کرے گا یا پھر صرف بیان بازی کے ذریعہ اپنے آپ کو شام سے الگ کرنے کی کوشش کرے گااگر امریکہ اور اتحادی ممالک صرف شام میں داعش کا خاتمہ چاہتے ہیں اور انہیں عام شہریوں کی کوئی فکر نہیں ہے تو وہ صرف روس اور شامی فوجیوں کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرے گا۔

شام میں انسانی صحت و نگہداشت کے لئے خدمات انجام دینے والے اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ دہشت گردوں اور دہشت گردوں کو ختم کرنے کے نام پر مزید دہشت گردی پھیلانے والوں کے بیچ وہ کس طرح پھنس کر رہ گئے ہیں، انہیں خود اپنی جانوں کی فکر لاحق ہوگئی ہے کیونکہ شامی اور روسی فوج نے ہاسپٹلوں پر حملے کرکے انہیں بھی دہشت زدہ کردیا ہے ۔ ملک شام میں گذشتہ پانچ سال سے خانہ جنگی جاری ہے۔ صدر بشارالاسد کی فوج جس درندگی کا مظاہرہ کررہی ہے اور اس کے ساتھ روس جس طرح شامی اپوزیشن کے خلاف کارروائی کرنے کے نام پر عام شہری علاقوں پر خطرناک فضائی حملے کررہے ہیں اس کا مشاہدہ ساری دنیا کررہی ہے ۔ مذہبی و عوامی مقامات ، اسکلوں اور طبی مراکز پر جس درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شام میں معصوم اور بے قصور مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے ۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شام میں جاری تشدد میں اب تک ڈھائی لاکھ افراد ہلاک ہونے کی رپورٹ ہے جبکہ برطانیہ میں قائم ایک ادارے کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی اصل تعداد چار لاکھ تیس ہزار ہے۔ جن میں معصوم بچے، مرد و خواتین سب ہی شامل ہیں۔ ایک طرف شامی فوج ، روس کے تعاون سے سنی مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں تو دوسری جانب شدت پسند تنظیمیں دہشت گردی کے ذریعہ شام میں قبضہ حاصل کرنے کوشاں ہے۔ شام میں شدت پسند تنظیمیں دولت اسلامیہ ، النصرہ فرنٹ و دیگر شدت پسند تنظیموں کو ختم کرنے کے نام پر امریکہ اور اتحادی ممالکمتحدہ طور پر فضائی کارروائیاں انجام دے رہے ہیں اس طرح شام میں ایک طرف بشارالاسد اور روس کی فوج ہے تو دوسری جانب امریکہ و اتحادی ممالک اور تیسری جانب داعش، النصرہ فرنٹ وغیرہ ۔ ان تینوں کے درمیان عام شامی عوام کو غذائی اشیاء، ادویات یہاں تک کہ پینے کے پانی کیلئے بھی تڑپنا پڑرہا ہے۔ درندہ صفت شامی و روسی فوجیوں نے 12؍ ستمبر کوامریکہ اور روس کے درمیان طئے پائے جنگ بندی معاہدہ کو نظر انداز کرتے ہوئے حلب پر حملے کردیئے یہی نہیں بلکہ حلب میں اقوام متحدہ کی جانب سے لے جائے جانے والی امدادی رسد کے قافلے پر بھی حملہ کرکے اسے ناقابلِ استعمال بناکراسے لے جانے سے روک دیا گیا۔ امدادی قافلہ میں شامل ٹرکس تو جل گئے ساتھ میں عملے کے کئی اراکین بھی ہلاک ہوگئے ۔ ایک طرف طبی مراکز پر حملے تو دوسری جانب رسد لیجائے جانے والے قافلوں پر حملے کرکے روس اور شامی فوج دنیا کو بتانا چارہی ہے کہ ان کے پاس انسانوں کی خدمت کرنے والوں کی بھی قدر نہیں اسی لئے وہ طبی مراکز اور رسد لیجانے والے قافلوں پر حملے کرکے شامی مسلمانوں کو تڑپتا چھوڑدینے پر مجبور کررہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے امدادی ادارے کے اعلیٰ افسر کے مطابق حلب کے باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں بسنے والے عام شہری زندگی میں ہی ’’جہنم‘‘ کی صعوبتوں سے دوچار ہیں۔ اسٹیفن اوبرائن نے متحارب فریقین سے کہا کہ وہ سینکڑوں زخمیوں اور بیماروں کے انخلا کی اجازت دیں جن کو فوری طبی امداد کی ضرورت ہے۔روسی جنگی جہازوں نے شامی فوج کو باغیوں کے علاقے میں کنٹرول دینے کے لئے درجنوں حملے کئے جس سے شامی فوج کو حلب کے شامی علاقوں میں کنٹرول کا موقع مل رہا ہے۔اقوام متحدہ کے مطابق 48لاکھ افراد ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں جبکہ 65لاکھ ملک کے اندر نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔لاکھوں بچوں کی تعلیم پر بُرا اثر پڑا ہے اور یہی بچے مستقبل میں اس خطے کے لئے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر نقصاندہ ثابت ہوسکتے ہیں اسی لئے اقوام متحدہ اور امریکہ و عالمی طاقتوں کو چاہیے کہ وہ روس اور شامی فوج کی درندگی کو بند کرائیں ورنہ شام کی خانہ جنگی دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لے گی ۰۰۰
***
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 209344 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.