علامہ سید شاہ تراب الحق قادری: علم و فضل کی ایک انجمن
(Ghulam Mustafa Rizvi, India)
جو آفتاب ۱۹۴۶ء میں دکن ہند میں طلوع ہوا
تھا وہ ۶؍اکتوبر کوعروس البلاد کراچی میں غروب ہو گیا۔ یہ روح فرسا اطلاع
سوہانِ روح بنی کہ علامہ سید شاہ تراب الحق قادری رحلت فرما گئے۔ انا ﷲ
واناالیہ راجعون۔ قبلہ شاہ صاحب کی ذات بڑی ہمہ جہت، ہمہ وصف اور گوناگوں
خوبیوں کی حامل تھی۔ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے،ایک تحریک تھے، ایک
تنظیم تھے، پوری بزم تھے، جن کا چلا جانا بزم کا سوٗنی ہو جانا ہے، جن کی
رحلت لاکھوں دلوں کو تڑپا گئی۔رہتے تھے کراچی میں لیکن دُنیائے سنیت کے
دلوں میں دھڑکتے تھے۔ دوری و قرب سے ان کی ذات ورا تھی۔ رب نے ان کے فیضان
سے دور و نزدیک کو سیراب کیا۔
علامہ سید شاہ تراب الحق قادری علیہ الرحمہ ہند کی زمیں سے اُٹھے اور عالم
پر چھا گئے۔۱۹۵۱ء میں ہجرت کر کے ہند سے سندھ جا پہنچے، کراچی جا بسے۔
سیادت کا جمال تھا ہی، علم و فضل کے کمال نے چمکا دیا۔ روحانی تشنگی بریلی
شریف میں بجھی۔ حضور مفتی اعظم کے دستِ مبارک پر بیعت ہوئے۔ خلافت سے بھی
نوازے گئے۔ کئی چشموں سے سیرابی کی۔ لاکھوں تشنہ کاموں کی پیاس بجھائی۔
سلسلۂ قادریہ رضویہ کے عظیم شیخ تھے۔ ارادت مندوں کا حلقہ کئی ملکوں میں
پھیلا ہوا ہے۔ جن میں علما و مدبر بھی ہیں، دانش ور اور اہلِ قلم بھی اور
سرکردہ شخصیات و صاحبِ فکر و فن بھی۔
قبلہ شاہ صاحب کو رب قدیر نے حکمت و تدبر اور دانش و تدبیر سے نوازا تھا۔
آپ کے دم قدم سے کئی شعبوں میں خدمتِ دینِ متین کا سلسلہ وسیع ہوا۔ گستاخانِ
بارگاہِ رسالت کے مقابل آپ نے کئی تحریکوں کو دوام بخشا۔ مختلف محاذوں پر
علم و حکمت کے ساتھ ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لیے خدمات پیش کیں۔ قادیانی و
اس نوع کے دیگر گستاخوں کی سازشوں کا دنداں شکن جواب دیا۔ آپ کے ایستادہ
خطوط پر کثیر تنظیمیں فعال ہیں اور مختلف شعبوں میں خدمات کا سلسلہ جاری ہے۔
قادرِ مطلق نے خطابت کے جوہر سے نوازا تھا۔اچھوتا انداز۔ راقم جیسے لاکھوں
نوجوان آپ کے اسلوبِ خطابت کے باعث متاثر ہوئے۔ بلاشبہہ ہزاروں عنوانات پر
آپ نے خطبے ارشاد فرمائے۔ موضوع کا حق ادا کر دیا۔ سلاستِ زبان و بیان،
نکھرا انداز، صاف و شستہ لہجہ، غیر ضروری الفاظ سے اجتناب، صرف کام کی
باتیں، استدلال کی زبردست قوت۔ کتاب و سنت سے جب دلائل پیش کرتے تو زورِ
بیاں دیدنی و شنیدنی ہوتا۔ سادگی و متانت لفظ لفظ سے ٹپکتی۔سمجھانے کا
انداز اِس قدر عام فہم کہ کم علم بھی مفہوم تک رسائی حاصل کر لیتا۔ اسی لیے
انٹرنیٹ پر بھی آپ کی خطابت کی مقبولیت ہے۔رہتے کراچی میں تھے لیکن فیضانِ
علمی سے ہند کیا افریقہ و امریکہ، یورپ و عرب سبھی مستنیر ہوئے۔
ایک درجن سے زائد کتابیں یادگار ہیں جن میں علم و وسعت مطالعہ کی جھلک
محسوس کی جاسکتی ہے۔ تصنیف و تالیف کا نکھرا ذوق آپ کے اخلاصِ عمل پر دال
ہے۔ تحریر میں تاثیر ہے۔ فکر کا جوہرِ تاباں سطر سطر سے ظاہر ہے۔ ہند و پاک
سے آپ کی تصانیف کے بہ کثرت ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ چند تصانیف کے نام اس طرح
ہیں:
۱-ضیاء الحدیث
۲- جمالِ مصطفی صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
۳-تصوف و طریقت
۴-دعوت و تنظیم
۵-فلاحِ دارین
۶۔خواتین و دینی مسائل
۷-کتاب الصلوٰۃ
۸-مسنون دُعائیں
۹-تفسیر سورۂ فاتحہ
۱۰-اسلامی عقائد
۱۱-حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی بچوں سے محبت
۱۲-مبارک راتیں
۱۳-ثنائے سرکار صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم
مسلکِ اسلاف پر سختی سے کاربند تھے۔ دین کے معاملے میں کبھی مداہنت نہیں کی۔
احقاقِ حق و ابطالِ باطل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ بلاخوفِ لومۃِ لائم
مسلکِ حق کا تحفظ کیا اور ہر سازش کا مناسب و بر وقت علمی جواب دے کر گلشنِ
اسلام کی حفاظت کی۔ مسلکِ رضا کے مخلص داعی تھے؛ شریعت کی حفاظت کو ہمیشہ
مقدم رکھا۔ ایسے دور میں جب کہ شرعی قدروں کی پامالی عام ہے حفاظتِ شریعت
کے لیے مسلسل کوشاں رہے اور اپنی تقویٰ شعار زندگی سے اسلامی احکام پر عمل
کا نمونہ پیش کرتے رہے۔
صلہ و ستائش سے بے پروا ہو کر رضاے الٰہی کی خاطر دین و سنیت کی اشاعت کی۔
اخلاصِ عمل کے جوہر سے آراستہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ فراعنۂ عصر آپ کو لرزا
براندام نہ کر سکے۔ اربابِ سیاست آپ کے ضمیر کا سودا نہ کر سکے۔ ہرمحاذ پر
باطل نا مُراد ہوا۔ جیت ہمیشہ حق کی ہوئی۔ مردِ مومن و امام دوراں تھے جن
کی بے باکی نے ایوانِ اقتدار کو بھی ہِلا کر رکھ دیا۔ اپنی درویشی میں مقامِ
رفیع کو آپ نے مستور رکھا۔ صاحبِ دل تھے، روحانی اعتبار سے مقامِ بلند پر
فائز تھے۔ مخدوم تھے لیکن خادمانہ حیات پیش کی، باکمال تھے لیکن خاکساری
اختیار کی، صاحبِ دل تھے لیکن فقر میں اسے چھپائے رکھا، صبر اختیار کیا،
ایامِ رُخصت میں بھی فرائض و واجبات کو مقدم رکھا۔آپ نے اپنی عملی زندگی سے
اسلافِ کرام کی مبارک زندگیوں کی یاد تازہ کر دی۔
فکرِ رضا، تحقیقاتِ رضا، تصانیفِ رضا، کلامِ رضا، سلسلۂ رضا کی نشرواشاعت
میں مثالی کردار پیش کیا۔ اعلیٰ حضرت سے بے پناہ عقیدت تھی۔ یہی سبب ہے کہ
نگارشاتِ رضا کی اشاعت میں بھی حصہ لیتے رہے۔نسبتوں کا احترام کرتے تھے۔
احکامِ شرع میں بریلی شریف کے محتاط فتوؤں پر عمل کرتے۔ مسلکِ عشق و عرفان
کے کامیاب مبلغ تھے۔ سچے عاشق رسول تھے۔سفیرِ مسلکِ رضا تھے۔ حضور تاج
الشریعہ سے خاص عقیدت رکھتے تھے۔ جمیع اکابرِ اہلِ سنّت کا احترام فرماتے،
سبھی سلاسلِ حقہ کی توقیر فرماتے۔
علامہ سید شاہ تراب الحق قادری نے اپنے کام کی جولان گاہ بنجر زمینوں کو
بنائی۔ کامیابی کے ساتھ انھیں گل زار فرمایا۔ مسلکِ اسلاف کی ترجمانی کی،
فکر رضا کی نمائندگی کی، حق کی ترسیل کی، کئی میادین کو اپنی خدمات سے
سیراب کیا۔ داعیانہ فہم و فراست کے ساتھ اشاعتِ اسلام کی، مسندِ تدریس سے
طلبہ میں علم و عرفان کے جوہر تقسیم کیے، تزکیہ و سلوک کے مسافروں کو منزلِ
مقصود تک پہنچایا، قادریت کے جام لُٹائے، رضویت کے روحانی دھارے سے پیاسوں
کو سیراب کیا، اُمورِ شرع میں رہبری کی، طریقت کی وادیوں کو سیراب کیا، بے
شرع صوفیا کی شناعت سے باخبر کیا، بدعات و منکرات سے خلقِ کثیر کو بچایا۔
بیک وقت کئی خوبیوں کے مالک تھے، کئی چشموں سے سیراب تھے، کئی بزرگوں کے
فیض یافتہ تھے، کئی نسبتوں کے حامل تھے۔ اﷲ کریم ان کی تربت پر رحمت و
انوار کی موسلا دھار برکھا برسائے اور ان کے مشن کو آگے بڑھانے کا جذبۂ
جنوں خیز اور عزم تازہ عطا کرے۔ آمین۔
٭٭٭ |
|