اُسوۂ شبیری ؓ ۔۔نجات کا ذریعہ

61 ہجری 10محرم الحرام ۔۔کربلا کا بے آب وگیاہ چٹیل میدان۔۔تلواریں ، نیزے ، بھالے،خنجر اور تیر کمان سنبھالے یزیدی فوج کے سپاہی ایک شخص کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے ہوئے ہیں۔ یہ وہی شخص ہے کہ جس کے نانا کے دین کا کلمہ تیر و تفنگ سے لیس یہ لشکری بھی پڑھتے ہیں اور جس کی رسالت کی گواہی نا صرف اذان بلکہ ہر نماز میں دی جاتی ہے دوشِ محمدﷺ پر سواری کرنے والے اور رسالت مآبﷺ کی بارگاہ سے نوجوانانِ جنت کے سردار کی خوشخبری پانے والے سیدنا حسینؓ، یہ وہی حسینؓ ہیں جن کے بارے میں سرور کائنات، فخرِموجودات، احمدمجتبیٰﷺ نے فرمایا تھاکہ"حسین منی وانا منہ"یعنی حسینؓ مجھ سے ہے اور میں حسینؓ سے ہوں۔آج وہی سیدنا حسینؓاپنے نانا کے دین کی لاج کی خاطر تسلیم و رضا کی تصویر بنے تن تنہا کربلا کی تپتی ریت پر کھڑے ہیں دینِ محمدیﷺ کی آبیاری،بقااور سالمیت جن کا مقصدِ عظیم ہے تین دن ہو گئے ہیں خانوادۂ رسالتﷺ کے لیے پانی کی بندش ہے یزیدی لشکر اور چرند پرند سب دریائے فرات سے پانی پی سکتے ہیں مگر خاندانِ نبوت ﷺ کے بلکتے بچوں ، مردوخواتین اور بیماروں کے لیے پانی کا ایک مشکیزہ بھی بھرنے کی اجازت نہیں۔۔۔ آہ!کیسی بے حسی و فرعونیت ہے کہ حوضِ کوثر کے والی دو گھونٹ پانی بھی حلق سے اتارنہیں سکتے۔

وانامن الحسین، فرمانِ مصطفےﷺکو عملی جامہ پہنانے کے لیے امامِ حسینؓنے اپنے اہلِ خانہ،اقربا اور رفقاء کے ہمراہ مدینہ سے رختِ سفر باندھا اورمسافتیں طے کرتے،کوفہ سے ہوتے ہوئے کربلا کے ریگزار میں ڈیرے ڈال دیے آ خر 10 محرم الحرام کا وہ دن بھی آگیا جب خاتونِ جنت سیدہ فا طمہؓ کے لختِ جگر، شیر خدا علی المرتضیٰؓ کے نورالعین اور آغوش ِ رسالتﷺ میں پرورش پانے والے سیدنا حسینؓنے اپنے نانا کے دین کو سر بلند رکھنے کا وعدہ نبھانا تھا حق کی خاطر باطل قوتوں کے سامنے ڈٹ جانے کا درس دینا تھااور یہ ثابت کرنا تھا کہ کس طرح سرکو کٹا کر بھی سربلند رہا جا تا ہے۔امامِ عالی مقامؓ اپنے پیاروں کے لاشے اپنے ہاتھوں سے اٹھاتے رہے بھائی، بھتیجے، بھانجے، اقربا اور رفقاء حتیٰ کہ ہم شکل پیغمبر،کڑیل جوان بیٹے حضرت علی اکبرؓ اور ننھے معصوم حضرت علی اصغرؓ بھی راہِ حق میں قربان ہو گئے لیکن صبر و رضا کے اس عظیم پیکر کے پایہ استقلال میں لرزش نہ آئی۔گلستا نِ نبوتﷺ کے کیسے کیسے خوشنما و خوبصورت پھول تھے جو راہ خد امیں دان کیے گئے جن کے معطر جسموں سے اْٹھنے والی مہک سے کربلا کا ریگستان کھِل اٹھا اور جن کے لہو کی ضو فشانی سے کربلا کاذرہ ذرہ آج بھی تاباں ہے۔

امامِ عالی مقامؓ خود بھی رب ذوالجلال کی رضا پر قربان ہو گئے آپ کا سر تن سے جداہوگیا مگر دائمی فتح و سرفرازی آپ کا ہی مقدر ٹھہری۔چودہ سو سال گزرنے کو ہیں اہلِبیت اطہارکی محبت ایمان والوں کے دلوں سے محو نہیں ہو سکی بلکہ نبی آخرالزماں ﷺکے فرمان کے عین مطابق حسنین کریمین ؓ سے مودّت ہر مسلمان کے گ و پے میں بسی ہوئی ہے یہ نواسہ رسول ﷺ کا احسانِ عظیم ہے کہ انھوں نے اپنا خون دے کر اسلام کی آبرو کو بچایا اسی لیے تو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اﷲ علیہ نے سیدنا حسینؓ کو لاالہ کی بنیا د قرار دیا ہے۔
شاہ است حسینؓ ، بادشاہ است حسینؓ
دیں است حسینؓ دیں پناہ است حسینؓ
سرداد، نہ داد، دست در، دست ِ یزید
حقا کہ ، بِنائے لا الہ ، است حسینؓ

کربلا کی سرزمیں سے جو سبق سیدنا حسین ؓنے دیا ہے وہ رہتی دنیا تک کے انسا نوں کے لیے مشعلِ راہ ہے آج بھی طاغوتی قوتیں حق کو دبانے کے لیے طرح طرح کی سازشوں میں مصروف ہیں جبکہ پورا عالم ِ کفریہود و ہنود کی سرکردگی میں مسلم امہ کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے لیے متحدو متفق ہو چکاہے مسلم ممالک کے غافل حکمران اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے امتِ مسلمہ کی آبرو عالمی سامراج کے ہاتھوں گروی رکھ چکے ہیں جبکہ ایمان فروش ٹولہ اپنے مفاد ات کی خاطروحدتِ اسلامیہ کو پارہ پارہ کرنے میں لگا ہوا ہے عالمی طاغوت نے جگہ جگہ کربلائیں بپا کر رکھی ہیں زمانے کوایک بارپھر حسین ؓکی ضرورت ہے جبروت کے شکنجے میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے اْسوۂ شبیری ؓ ہی نجات کا واحد ذریعہ ہے ایسے میں۔۔ آئیے ۔کربلا کی عظیم درسگاہ سے سبق حاصل کریں۔سر جھکانے کی بجائے سر کٹانا اور طاغوت کے سامنے ڈٹ جانا سیکھیں کہ یہی اسوۂ شبیریؓ ہے۔

Wakeel Sain
About the Author: Wakeel Sain Read More Articles by Wakeel Sain: 16 Articles with 13910 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.