انصاف کا جنازہ
(Shahzad Hussain Bhatti, Attock)
خطہ پوٹھوہار کے علاقے سہالہ کے رہائشی
مظہر حسین کو انیس سال بعد سپریم کورٹ سے انصاف اسوقت ملا جب زنجییر ِعدل
ہلاتے ہاتھوں کو بے دَم ہوئے، حصول انصاف کے لیے ترستی آنکھوں کو بے نور
ہوئے اور سچائی کا ارمان بسائے آرزؤں اور اُمنگوں کے مَن کو دھڑکن بند کئے
دو برس ہوچکے تھے۔اُنیس سال قبل علاقائی دُشمنی کا شاخسانہ مظہر حسین کو
قتل کیس میں اڈیالہ کی بند دیواروں کے پیچھے لے گیا۔ بااثر لوگوں نے پولیس
سے ملی بھگت کر کے جب مظہر حسین کوقتل کیس میں پھنسایا تو کون جانتا تھا کہ
یہ کیس ہماری عدالتوں اور انصاف کے مُنہ پر ایک ایسا تمانچہ بن جائے گا۔
جسکی گونج برسوں ہر ذی شعور کو خون کے آنسورُلائے گی۔
مشرف دور میں جب سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ چوہدری افتخار سمیت بعض جج
صاحبان کو معزول کیا گیا تو خیبر سے کراچی تک یہ قوم بحالی عدلیہ کے لیے
سٹرکوں پر نکلی اور اس تحریک کو اپنے خون سے سینچنے والے سینکڑوں نوجوانوں
نے یہ قربانیاں چوہدری افتخار یا کسی اور معزز جج کی محبت میں نہیں دیں
تھیں بلکہ وہ اس فرسودہ، گلے سٹرے اور بدبودار نظام سے اپنے آنے والی نسلوں
کی جان چھٹرانا چاہتے تھے۔لیکن مظہر حسین کے کیس نے ایک بار پھر یہ ثابت کر
دیا کہ اس ارض پاک میں ظلم کا نظام اپنی پوری آن ،بان اور شان کے ساتھ قائم
و دائم ہے۔ اور انصاف کی کوئی بھولی بھٹکی کرن اگر کسی آنگن میں اُترتی بھی
ہے تو وہ پھبتی بن جاتی ہے۔ یہ زخموں کا مرہم نہیں بلکہ اُن پر نمک چھٹرکنے
کے مترادف نتائج دیتی ہے۔
نوجوان مظہر حسین پر جب جعلی الزام لگا ہو گا ! پولیس کی ملی بھگت سے جب وہ
ملزم قرار دیا گیا ہوگا تو اسنے یقینا یہ ضرور سوچا ہو گا کہ جھوٹ کا مُنہ
کالا ہوتا ہے اور چونکہ وہ بے گناہ ہے تو ایک دن باعزت بری ہو گا اور
الزمات کی کالک عدلیہ اسکے چہرے سے دھو دے گی۔ نظام انصاف پر اس کے مستحکم
یقین کا اندازہ اس امر سے بھی بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے انصاف کے ہر
دَر پر دستک دی ۔ سول، سیشن، ہائی کورٹ اور بعد ازاں اسکا یقین سپریم کورٹ
میں بھی زنجیر عدل ہلاتا رہالیکن تَّف ہے اس نظام پر کہ جس نے اُسے انصاف
دیا مگر اُس وقت جب وہ خاک کا کفن اُوڑھ چکا تھا۔ مظہر حسین کی بَریّت کی
خبر اُسکے گھر پہنچی تو دو سال قبل اپنے پیارے کو رو پیٹ کر صبر کرجانے
والی آنکھیں ایک بار پھر ساون بھادوں کی طرح برسی ہونگی۔ اُسکے بیٹے بیٹیوں
کے دل ایک بار پھر دَرد سے پھٹے ہونگے۔ بین کرتی زبانوں نے اس نظام کی
فرسودگی کو کتنی صلواتیں سُنائی ہونگی۔ کون ہے جو اس دَرد کا احاطہ کر سکے۔
شاید کوئی بھی نہیں۔
یہ ایک مظہر حسین کی کہانی نہیں۔ ہر روز نہ جانے کتنے مظہر حسین اس نظام کی
بھینٹ چڑھتے ہیں۔ اُنکی گُٹھی گھٹی چیخیں شاید کسی کو سُنائی نہیں دیتیں یا
ممکن ہے کہ ہم اس قدر بے حّس ہو چکے ہیں کہ ایسے واقعات ہمارے ضمیر کو
جھنجوڑتے تک نہیں۔ مظہر حسین ایک چابک ہے بلند و بالا دعوئے کرنے والے
حکمرانوں ، انصاف کے دعوئیداروں اور جمہوریت کے پاسداروں کے لیے لیکن افسوس
صدافسوس ہم دوچار دن ٹسوئے بہا لیں گے۔ کچھ مداری نما سیاستدان اور سوشل
ورکر اپنی دکان بھی ضرور چمکائیں گے۔ اس حوالے سے جذباتی بیانات بھی آپکی
سماعتوں سے ٹکرائیں گے لیکن پھر ہم سب بھول بھال کر پھر اُسی نظام کی بھول
بھلّیوں میں اُلجھ کر رہ جائیں گے۔
ہماری جیلوں میں ایک محتاط اندازے کے مطابق پچاس فیصد سے زائد قیدی بے جرم
و خطا پابند سلاسل ہیں۔ ہمارے تھانوں میں دَرج مقدمات میں سے ستر فیصد سے
زائد ملزمان باعزت بری ہو جاتے ہیں لیکن بے گناہ ہونے کے باوجود سالوں اس
نظام کی چکی میں پَسنے والوں کی سوالیہ آنکھیں یہ پوچھتی ہیں کہ جھوٹے مقدے
اندراج کرانے والوں ، بھاری رشوتیں لے کر اُن کا ساتھ دینے والوں اور پولیس
کی وردی میں چُھپی کالی بھیٹروں کا کیا بگڑا؟ مقدمات کو سنجیدگی سے نہ
دیکھنے والوں اُنکی تہہ میں اُتر کر حقیقی فیصلے تک نہ پہنچنے والوں کو
منصف کہلوانے کا حق کس نے دیا اور کون ہے جو اُن کے گریباں پکڑ سکے گا؟
اس نظام کے چرنوں میں ہم کتنی جوانیاں لُٹائیں گے؟ کتنے گھروں کی مَسرتیں
قربان کرینگے؟ کیوں نہ یہ فیصلہ کر لیا جائے کہ غربت جرم ہے ۔ غریب کا کوئی
پُرسان حال نہیں ۔اگر آپ تگڑی فیس دے سکتے ہیں تو وکلاء، ججوں کے دست و
گریباں بھی ہو جائیں گے۔ لاہور اور اسلام آباد میں وکلاء اور جج صاحبان کے
مابین ہونے والی چپقلش کی خبریں شاید ہمارے اسی معاشرے پر صادق آتی ہیں۔
میں ہاتھ باندھ کر ارباب اختیار سے ملتمس ہوں کہ خدا کے لیے آغاز
کیجیے۔کہیں سے تو تبدیلی کی شروعات کیجیے۔اس قوم کو غلامانہ نظام کے گھن
چکر سے باہر نکالیے، آزادی کی قدوقیمت پر لمبے چوڑے لیکچر دینا بندکیجیے۔
آزادی اور جمہوریت کے ثمرات کے خالی خولی قصّے کہانیاں بہت سُنائی جا چکی
ہیں اب اسکی جھلک کروانے کا وقت آگیا ہے۔
انصاف میں تاخیر انصاف چھیننے کے مترادف ہے۔ اس ملک میں 39 فیصد لوگ خط
غربت سے نیچے زندگی بسر کرر ہے ہیں۔ یعنی ہر تیسرا آدمی خط غربت سے نیچے
ہے۔اتنا تکلیف دہ اور مہنگا انصاف انکے ساتھ بدترین مذاق کے مترادف ہے۔ سنا
ہے کہ ہر چیز کی کوئی حد ہوتی ہے ۔ اس سفاکیت کی بھی کوئی تو حد ہوگی؟ مظہر
حسین جیسے واقعات کے بعد ایک بار یہ ضرور سوچنا پڑے گا کہ کہیں ہم ظلم و
جبر، اقرباٗ پروری اور نا انصافی کی ساری حدیں پھلانگ تو نہیں چکے۔اس دھرتی
پر آزادی کا سورج طلوع ہوئے ستر برس بیت چکے ہیں اوران ستر سالوں میں عوام
نے نت نئے تماشے دیکھے۔ یہاں توہین عدالت ہے ، توہین سرکار ہے ،توہین مذہب
ہے۔ نہیں ہے تو غریب کی توہین کا کوئی قانون نہیں ہے۔
میں تاریخ کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں اور جتنا میں نے پڑھا ہے،۔ دور جہالت
میں جب غلام منڈیوں میں بیچے جاتے تھے تو تب بھی اُن زر خرید غلاموں کے بھی
کچھ حقوق ہوتے تھے۔ میں اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اس دیس کے غریب طبقہ جسے
آزادی، جمہوریت اور انصاف کا مثردہ سنایا جاتا ہے لیکن درحقیقت وہ غلاموں
سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس قوم کو آئے دن نان ایشوز میں
مت اُلجھائیے، ان کا مسئلہ پانامہ لیکس ہے نہ دھرنے ان کا مسئلہ ہے۔ انصاف
اور بروقت انصاف۔۔۔ خدا کے لیے انکے حقیقی مسائل پر توجہ دیجیئے۔ ان کے خون
پسینے کے ٹیکسوں سے مداریاں مت لگائیے۔ اس قوم کے صبر کا امتحان کب تک لیا
جائے گا۔ اب تو پانی سر سے اُوپر گزر چکا ہے اور اگر اب بھی مسخریاں بند نہ
ہوئیں تو اس کا انجام انتہائی بھیانک ہو گا۔ |
|