پرویز مشرف بمقابلہ نواز شریف۔۔۔!!

آج میرے کالم کا عنوان ہے پرویز مشرف بمقابلہ نواز شریف یہ عنوان اس لیئے منتخب کیا کہ ہماری افواج پر پے در پے سازش کے تحت بدنام کرنے کی ناکام کوششیں کی گئیں ہیں۔۔ ۔!!پاکستان میں ہمیشہ سے سیاست دانوں نے فوجی حکومتوں کو نا پسند کیا ہے اور ہر مارشلا اور ایمرجنسی کو آمردور قرار دیا، سیاستدانوں نے پاکستانی قوم کو ہمیشہ اپنے جلسے جلسوں میں آمر اور جمہوری دور کا موازنہ کرتے رہے، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون ان دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے پاکستانی افواج کے جنرلز، اسٹبلشمنٹ کو کوئی موقع جانے نہ دیا جس میں سخت سے سخت تنقید نہ کی ہو لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی ہو یا پاکستان مسلم لیگ نون یہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں ہی آمر کی آشیر وار سے اپنا وجود بناسکی ہیں ،ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل یحییٰ اور جنرل ایوب خان کی معاونت کے طفیل ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی سیاست چمکائی،اگر ایسا نہ ہوتا تو کبھی بھی ذوالفقار علی بھٹو پاکستان میں پہلی بار سول ہوتے ہوئے بھی فیلڈ مارشل لا کے عہدت پر فائز نہ ہوتا،ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کے حصول کیلئے ہر راہ اپنائی تھی مجھ سے زیادہ میرے قائرین اچھی طرح جانتے ہیں ،اگر واقعی سربراہ اپنےعوام سے خالصتاً خلوص کیساتھ عمل پیرا ہوتا ہے تو اس کی مدد اللہ خود کرتا ہے لیکن جو بہترین الفاظ، لاجواب تقریر کرکے کبھی بھی اچھے نتائج حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ تقریر نہیں تقدیر بدلنی پڑتی ہے اور تقدیر کے بدلنے کیلئے سب سے پہلے خود کو بدلنا پڑتا ہےاور بھٹو نے ہمیشہ عوام کے درمیان جاکر تقریر ہی کی تھیں اور اپنے رفقائے کاروں کیلئے خذانے کھول دیئے تھے کسی بھی اچھی ریاست کیلئے نظام کی بہتری کیلئے خود اپنا کردار مثالی بنانا پڑتا ہے ،بہترین سربراہ وہ ہتا ہے جو عزت نفس، مدبر، تحمل،انکساری و عاجزی، پرہیزگاری، ایمانداری،عدل و مساوات سے بہرہ مند ہو یہ کوئی خواب نہیں بلکہ حقیقت ہے کیونکہ ہمیں خلفائے راشدین کا نظام ریاست ہمارے لیئے مشعل راہ ہے لیکن ہم اچھی نظام ریاست سے از خود دور رہنا چاہتے ہیں اور ہمارے سربراہوں نے کافروں کی غلامی کو اسلامی اصولوں سے زیادہ پسند کیا یہی وجہ ہےکہ آج تک پاکستان کافروں کے چنگل سے محفوظ نہ رہ سکا،بھٹو ازم سے اب زرداری ازم ہے اور پی پی پی کے جیالے عوام کو دھوکہ دے رہے ہیں بہتر یہی ہے کہ آصف علی زرداری کو اپنی شناخت کیساتھ پی پی پی زیڈ رکھ لینی چاہیئے کیونکہ زرداری زیادہ عرصہ تک عوام کو بیوقوف نہیں بناسکتا، ذوالفقار علی بھٹو کے چاہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ آصف علی زرداری نے پی پی پی کو ہائی جیک کیا ہے ۔۔۔!! اب ذکر کرتے ہیں موجودہ حکمران میاں نواز شریف کی ، میاں نواز شریف بھی جنرل ضیا الحق کے دور میں سیاست میں آئے اور ان کی ترویج و ترقی خود آمروں کی تھی لیکن تیسری بار اقتدار میں آنے کے باوجود اپنی بےہودہ اور بے وقوف حرکتوں سے باز نہ آئے، آخر تھے نہ تاجر کس طرح دولت کی چمک کو برداشت کرتے جس بےدردی سے قومی خذانے کو لوٹا اس کی مثال نہیں ملتی ، بین الاقومی سطح پر وکی لیکس اور پاناما لیکس اسکینڈل ان دونوں میاں نواز شریف اور آصف زرداری دونوں اس ملک کے قومی خذانے کے لٹیرے ان دونوں لیکس کی وجہ سے سامنے آگئے ہیں ،یہ جمہوری آلاپ لگاتے ہوئے سربراہاں اور رہنما ؤں میں ذرا سی بھی شرم نہیں کہ پاکستانی عوام کی دولت واپس لوٹادیں بلکہ الٹا غنڈہ گردی پر اتر آئیں ہیں، یہ بھی حقیقت ہے کہ اسٹبلشمنٹ کی بہت ساری خامیاں ہیں جن کی وجہ سے پاکستان میں نظام اور ادارے تباہ ہوکر رہ گئے ہیں یہ بات اس لیئے لکھ رہا ہوں کہ تین سے زائد بار فوجی حکومتوں کے باوجود سول حکومتوں میں ڈسپلین کیوں نہیں پیدا ہوا کیا جنرلز بھی اقردار کے نشے میں بہک گئے تھے، اکثر وہ سیاسی جماعتیں یہ بات کرتے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہونے کی کوشش کرتی ہے کہ افواج پاکستان کے جنرلوں نے نظام کو بہتر کیوں نہیں کیا۔۔۔!! اس بات کو وضاحت ہم وفاقی وزیر اطلاعات کے اس بیان سے بھی سمجھ سکتے ہیں پرویز رشید نے کہا ہے کہ " پاکستان کو تباہ و برباد کریں جرنیل اور ٹھیک کرے نواز شریف !!اگر یہ اشارہ پرویز مشرف کی طرف ہے تو ایک ذرا سرسری سا موازنہ کرتے ہیں کہ مشرف کے دور میں پاکستان کتنا برباد ہوا اور نواز شریف نے اسکو کتنا ٹھیک کیا!!1999ء پرویز مشرف جب اقتدار میں آیا تو قومی خزانے میں صرف 0.4 ارب ڈالر تھے اور ملک دیوالیہ ہونے کے قریب تھا جب 2007 میں مشرف چھوڑ کر جا رہا تھا تب قومی خزانے میں 18 ارب ڈالر تھے، 1999ء میں مشرف اقتدار میں آیا تو پاکستان پر کل قرضہ 38.5 ارب ڈالر تھا، مشرف یہ قرضہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کم کروا کر 34 ارب ڈالر پر لے آیا تھا اور آئی ایم ایف کا تمام قرضہ چکتا کر دیا تھا، آجکل یہ قرضہ 80 ارب ڈالر ہے، 1999ء میں جب مشرف کو اقتدار ملا تو ڈالر کی قمیت 55 روپے تھی، 8 سال بعد جب وہ چھوڑ کر جا رہا تھا تو 60 روپے تھی، مشرف کے جانے کے 8 سال بعد آج ڈالر کی قیمت 104.70 روپے ہے، 1988 سے 99 کے درمیان پاکستان میں کل بیرونی سرمایہ کاری 4 ارب ڈالر رہی، پرویز مشرف کے دور میں یہ سرمایہ کاری 13 ارب ڈالر ہوگئی تھی، آجکل پاکستان میں کل بیرونی سرمایہ کاری بمشکل 1 ارب ڈالر سے اوپر ہے، 1999 میں نواز شریف کے دور میں پاکستان میں شرح غربت 34 فیصد تھی، مشرف کے دور میں یہ کم ہوکر 23 فیصد رہ گئی تھی، نواز شریف کے موجودہ دور میں اب یہ دوبارہ 39 فیصد ہو چکی ہے، 2007 میں پاکستان کی برآمدات 18.5 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی جن میں سے 11 ارب ڈالر صرف ٹیکسٹائلز کی تھیں،1999 میں اسٹاک مارکیٹ کا حجم 334 ارب روپے تھا، پرویز مشرف نے 2007 تک اسکو 3980 ارب روپے تک پہنچا دیا تھا، مشرف کو اقتدار ملا تو پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 4 فیصد تھی، مشرف کے دور میں 2004/5 میں پاکستان کی معاشی ترقی کی شرح 9 فیصد کو چھو رہی تھی، آجکل یہ شرح دوبارہ 4.5 فیصد پر آگئی ہے،1999ء صنعتی ترقی کی شرح 3.6تھی، جو اس کے دور میں 2004/5ء میں ریکارڈ 19.9 فیصد ہوگئ، 1999 میں پاکستان اپنی کل جی ڈی پی کا 64٪ قرضوں اور اس کی سود کی ادائیگی میں صرف کرتا تھا، مشرف کے دور میں یہ رقم 28٪ رہ گئی، آجکل یہ دوبارہ 50 فیصد کا ہندسہ کراس کر چکی ہے، قومی اداروں کی بات کی جائے توا سٹیل مل 1999ء میں کئی ارب روپے خسارے میں تھی، مشرف کے دور میںا سٹیل مل بتدریج منافع میں چلی گئی اور سالانہ ایک ارب روپے منافع دینے لگی، آج اسٹیل مل دوبارہ پہلے سے زیادہ بڑے خسارے میں جا رہی ہے جو سالانہ کئی ارب روپے ہے یہی حال ریلوے اور پی آئی اے کا بھی ہے، مشرف کے دور میں پاکستان کی زرعی پیداوار تاریخ کی بلند ترین سطح پر رہی جبکہ کچھ دن پہلے اسحاق ڈار کے مطابق اس وقت پاکستان کی زرعی پیدوار تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے،جنرل ضیاء کے بعد ( جس نے پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ چھوٹے اور درمیانے درجے کے ڈیم بنائے تھے) ایک طویل وقفے بعد پہلی بار مشرف کے آٹھ سالہ دور میں کل 5 درمیانے ڈیم بنائے گئے جن میں میرانی ڈیم، گومل زم ڈیم، سبک زئی ڈیم، تنگی ڈیم اور خرم ڈیم شامل ہیں،منگلا ڈیم کی پیدواری استطاعت بڑھائی گئی جبکہ ستیارا ڈیم جیسے درجنوں چھوٹے ڈیم بھی بنائے گئے، مشرف نے ایوب خان کے بعد پہلی بار دیا میر بھاشا اور نیلم جہلم پراجیکٹ جیسے بڑے آبی منصوبوں پر کام کا آغاز کیا، مشرف ہی نے کالاباغ ڈیم پر دوبارہ کام کرنے کا اعلان کیا تھا جو جنرل ضیاء کی شہادت کے بعد روک دیا گیا تھا، مشرف کے جانے کے بعد کالاباغ ڈیم دوبارہ جمہوریت کی نظر ہوگیا، دیا میر بھاشا ڈیم پر کام روکا جا چکا ہےجبکہ نیلم جہلم پراجیکٹ بند ہونے کے قریب ہے،1988ء سے 99ء تک نئی نہروں کی تعمیر پر کام رکا رہا، مشرف کے دور میں کچی کنال، ریانی کنال، گریٹر تھر کنال اور سب سے بڑھ کر غازی بھروتہ پراجیکٹ جیسے منصوبے مکمل کیے گئے ان کے علاوہ ہر کھیت تک پانی پہنچانے کے لیے 41000 واٹر کورسز کی تعمیر نو کی گئی جبکہ پورے پاکستان میں کل واٹر کورسز 86000 ہیں، مشرف دور میں 5000 نئے دیہاتوں کو بجلی پہنچائی گئی، دیہاتوں میں اوسط لوڈ شیڈنگ 3 گھنٹے جبکہ شہروں میں 1 گھنٹہ تھی، آج دیہاتوں میں اوسط لوڈ شیڈنگ 12 گھنٹے اور شہروں میں4 سے 6 گھنٹے ہے، اس معاملے میں کوئی جھوٹ نہیں بولا جا سکتا کیوںکہ دونوں ادوار کا مشاہدہ کرنے والوں کی اکثریت موجود ہے،1999ء میں نواز شریف کے دور میں صحت کے لیے کل بجٹ 20 ارب روپے تھا، مشرف کے دور میں یہ بجٹ 50 ارب روپے سے تجاوز کر گیا، آجکل یہ بجٹ 15 ارب روپے ہے، 1999 میں پاکستان میں پی ایچ ڈی کرنے والوں کی تعداد سالانہ 20 تھی، مشرف کے دور یہ تعداد سالانہ 300 ہوگئی، مشرف کے دور میں کل 5000 طلباء سرکاری خرچے پر پاکستان سے باہر پی ایچ ڈی کر رہے تھے، ملک بھر میں 81 نئی یونیورسٹیاں قائم کی گئیں جبکہ کل 99319 نئے تعلیمی اداروں کا اضافہ کیا گیا، پرویز مشرف نے 7 نئی موٹرویز تعمیر کیں اور پہلے سے موجود موٹرویز کو تین گنا وسعت دی ان کے علاوہ مکران کوسٹل ھائی وے، کراچی نادرن بائی پاس، مانسہرہ، ناران جلخاد روڈ، خضدار تک 600 کلومیٹر روڈ ، ڈیرہ اللہ یار سے دادر روڈ، اسلام آباد سے مظفرآباد روڈ جیسی اہم شاہراہیں شامل ہیں، کل 6378 کلومیٹر کے نئی سڑکیں تعمیر کی گئیںان کے علاوہ لواری ٹنل، پشاور کوہاٹ ٹنل، اور لکپاس ٹنل جیسے اہم منصوبے مکمل کیے گئے جبکہ آج نواز شریف ان موٹرویز کو گروی رکھ کر قرضے لے رہا ہےاور ان سب سے بڑھ کر پرویز مشرف نے چین کے ساتھ ملکر گودار پراجیکٹ کا آغآز کیا اور اسکا پہلا فیز مکمل کیا آج اسی گوادر پراجیکٹ کے لیے چین سڑک بنا رہا ہے اور اسی پراجیکٹ کے لیے پاکستان میں 46 ارب ڈالر سرمایہ کاری کا اعلان کر رہا ہے، اس منصوبے پر مشرف کے جاتے ہی کام روک دیا گیا تھا تاہم راحیل شریف نے چیف آف آرمی ا سٹاف بننے کے بعد گوادر پراجیکٹ کو دوبارہ زندہ کر دیا، پرویز مشرف نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا تھا جس پر اس کے جانے کے بعد کام روک دیا گیا اور آج تک رکا ہوا ہے، یہ اسٹریٹیجک لحاظ سے انتہائی اہم نوعیت کا منصوبہ ہےمجھے بالکل سمجھ نہیں آرہی کہ جرنیلوں نے کیسے ملک برباد کیا اور نواز شریف نے اسکو کیسے ٹھیک کیا اور پرویز رشید کا اشارہ کن جرنیلوں کی طرف تھا۔۔ویسے اگر جنرل ضیاء کی طرف تھا تو ہم سب جانتے ہیں کہ اس کے آگے کون ہاتھ باندھے کھڑا رہتا تھا۔لیکن اگر پوری پاک فوج کی انکی مخاطب ہے تو ایک اور سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم آج یہ کہہ سکتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز پاکستان کی تباہی کے ذمہ دار ہیں، یقیناً ہرگز نہیں۔پاک فوج کو ہی سب کو گالیاں دینے کی اجازت کیوں ہے؟ کیا صرف اس لیے کہ پاکستان انکی قربانیوں کی بدولت اب تک بچا ہوا ہے ۔۔۔!!بھارتی انتہا پسند ہندو جماعت شیو سینا کے سربراہ ، بھارتی وزیر اعظم اور گجرات کے سابقہ وزیراعلیٰ نریندر مودی جس سے بھارت میں سیکولر کو تباہ و برباد کیا اور غیر ہندوؤں پر ظلم کت پہاڑ توڑ دیئے بھارتی حکومت کی دیدہ دلیری کہ سو ایام ہوگئے لیکن بھارتی سورما نہتے کشمیریوں پر گولیاں برسارہے ہیں حتیٰ کہ زہریلی گیس سے نوجوانوں کو اندھا اور معزور بھی بنارہے ہیں مقبوضہ جموں کشمیر میں کئی سو کشمیری اسپتالوں میں زیر علاج ہیں لیکن ایسی صورتحال پر بھی نواز حکومت کو اپنے آلو اور پیاز کے کاروبار کی فکر لاحق ہے ، پاکستان پر آئے روز بھارتی سورما لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ اور گولہ باری کرتے رہتے ہیں لیکن نواز حکومت کی جانب سے نرم رویہ تشویشناک ہے یہی نہیں 6 اکتوبر کو روزنامہ ڈان میں شائع کرانے والی خبر نے بھی موجودہ حکومت پر سوالیہ نشان پیدا کردیئے ہیں ۔۔۔!! سینئر صحافی اور مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں نے گٹھ جوڑ کرلیا ہے اور اپنے کرپشن ،جرائم کے تحفظ کیلئے یکجا کھڑے ہیں دوسری جانب پاک فوج ملک کی سلامتی و بقا کی جنگ میں مصروف ہے لیکن پے در پے سیاسی جمارتوں کے رہنماؤں کی جانب سے افواج کو بلاوجہ بدنام کرنے کی وجہ کیا ہے اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے ایک بڑے حلقے کا کہنا ہے کہ پاکستان مین سہولت کارو معاون کار نچلی سطح پر نہیں بلکہ اونچی سطح پر موجود ہیں اسی لیئے اب اونچے لوگوں کا احتساب لازم و ملزوم بن گیا ہے ،آنے والے الیکشن سے قبل سہولت کاروں و معاون کاروں پر قانونی و آہنی ہاتھ ڈالنےکی ضرورت ہے ، الیکشن اٹھارہ میں ایسے سیاسی رہنما جو اپنے مفادات کو ملک سے بالاتر سمجھتے ہیں اداروں کی ناقص کاکردگی کی وجہ سے ایک بار پھر فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ اللہ ہماری قوم میں شعور کو اجاگر کردے تاکہ وہ اپنے آستین کے سانپ کو دیکھ سکیں ۔۔۔!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! !
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 244621 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.