لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیراعظم
تھے۔ آپ ہندوستان کے علاقے کرنال میں 2اکتوبر 1896کو پیدا ہوئے۔آپ کے والد
کا نام نواب رستم علی خان تھا آپ کی والدہ کانام محمودہ بیگم تھا۔آپ نے
دینی تعلیم اپنے گھر پر حاصل کی۔ 1918 میں گریجویشن کرنے کے بعد آپ کی شادی
جہانگیر بیگم سے کردی گئی۔ شادی کے بعد آپ برطانیہ چلے گئے جہاں سے آپ نے
آکسفورڈ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ 1922 میں انگلینڈ بار میں
شمولیت اختیار کی۔ ہندوستان واپس آنے کے بعد آپ نے مسلم لیگ میں شمولیت
اختیار کرلی۔ 1936 میں آپ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل بنے۔ آپ قائد اعظم محمد
علی جناح کے دست راست تھے۔یاد رہے 1932 میں آپ نے دوسری شادی کی۔ آپ کی
دوسری بیگم کا نام رعنا لیاقت علی خان تھا۔بیگم رعنا لیاقت آپ کی سیاسی
زندگی کی ایک بہتر معاون ثابت ہوئیں۔
آپ نے قائداعظم کے شانہ بشانہ مسلمانوں کے لیے انتھک محنت کی۔1926 میں آپ
اتر پردیش سے قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1940 میں مرکزی قانون
ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہونے تک آپ یو پی اسمبلی کے رکن رہے۔
قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستانی سیاست میں سیاستدانوں نے اپنا رنگ دکھانا
شروع کردیا۔ جس دن سے سیاستدانوں نے قیام پاکستان کے مقصد اور اسلام سے ہٹ
کر سیاست کی اس دن سے پاکستان کی جڑیں کمزور ہونا شروع ہوگئیں۔ سیاستدانوں
کی اپنی انا کی لڑائی کی وجہ سے پاکستان کے دوٹکڑے ہوئے۔وہ پاکستان جس کی
بنیاد اسلام کے نام پرہے اس کی بنیاد کو انگریزوں کی غلامی میں گروی رکھا
جارہا ہے۔
ذکر ہورہا ہے کہ لیاقت علی خان کا جو پاکستان کے پہلے وزیراعظم تھے ان کو
بھی اس سیاست کی بھنیٹ چڑھا یا گیا۔ 16 اکتوبر1951 وہ منحوس دن تھاجب ملک
کے پہلے وزیراعظم کو جلسہ عام میں گولی مار کر شہید کیا گیا۔ لیاقت علی خان
نے کمپنی باغ راولپنڈی میں مسلم لیگ کے جلسہ عام سے خطاب کرنا تھا۔
نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے تو ان کے ستقبال
کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی راہنما موجود نہیں تھاالبتہ مسلم
لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنما کے خطبہ
استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔ و زیر اعظم نے ابھی ’برادران ملت‘
کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ لیاقت علی خان پر
یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی ان کے سینے اور دوسری پیٹ میں
لگی۔جس کے بعد وہ زمین پرگر پڑے۔ پھر پشتو میں جملہ سنائی دیا۔ یہ آواز ایس
پی نجف خان کی تھی جس نے پشتو میں حکم دیا تھا کہ ’گولی کس نے چلائی؟ مارو
اسے!‘ پھر کیا تھا چند سیکنڈ بعد فائرز کی آواز شروع ہوگئی ۔ اس وقت تک
قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اسکا پستول چھین لیا
گیا تھا مگر ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری
پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔
لیاقت علی خان کو زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لایا گیااس وقت وزیر
برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی اپنی گاڑی میں جلسہ گاہ میں داخل ہو
رہے تھے۔ وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ان کی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا
گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔لیاقت علی خان کا قتل آج
معمہ بنا ہوا ہے۔حکومتیں آتی رہیں اور جاتی رہیں یہ مگر یہ معمہ آج تک حل
نہ ہوسکا۔یاقت علی خان کے قتل کے بعد جو نئی کابینہ بنی تھی اس میں نواب
مشتاق احمد گورمانی کو جو اس سے پہلے وزیر برائے امورِ کشمیر تھے وزیرِ
داخلہ کا عہدہ مل گیا تھا۔ قتل کے متعلق تفتیش بے نتیجہ رہی تو لامحالہ
گورمانی صاحب کو اعتراضات کا نشانہ بننا پڑا۔ ان اعتراضات سے بچنے کے لیے
انہوں نے بہت دیر بعد ایک مرحلے پر انگلستان کے اسکاٹ لینڈ یارڈ کی مدد
حاصل کی اور وہاں سے ایک ماہر سراغ رساں کو بلا کر تفتیش پر مامور کیا۔
لیکن یہ اقدام بھی بس خانہ پوری ثابت ہوا۔ اس سے لیاقت علی خان کے قتل کے
اسباب پر کوئی روشنی نہ پڑ سکی۔
کمپنی باغ کے نام کو لیاقت علی خان کے قتل کے بعد لیاقت باغ کا نام دے دیا
گیا۔ اسی لیاقت باغ میں ٹھیک 56 سال بعد ایک اور وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو
کو قتل کردیا گیا۔جس طرح لیاقت علی خان کے قاتل پکڑے جانے کے باوجود
مروادیا گیا اسی طرح بے نظیر کی شہادت فوری بعد اس جگہ کو صاف کروا دیا گیا
تاکہ کوئی پروف نہ مل سکے۔
قاتلوں اور قتلوں کی یہ کہانی کب تک جاری رہیے گی؟ کب تک ہمارے آستین کے
سانپ ہمیں ڈستے رہیں گے۔کب تک کرائے کے لوگ ہمیں آپس میں لڑواتے رہیں گے؟
کب ہم اپنے پرائے کی پہچان کریں گے؟ کب تک ہم محبت کے کھیت میں دشمنی کے
بیج بوتے رہیں گے۔ وہ سورج کب طلوع ہوگا جس سے ہمارے آنگن میں خوشیوں کے
پھول کھلیں گے؟ لیاقت علی خان کی روح آج ہمارے حکمرانوں سے پوچھ رہی ہے کہ
کب میرے قاتل پکڑے جائیں گے؟ |