بسم اللہ الرحمن الرحیم
سولہویں اور سترہویں صدی عیسویں میں ہندوستان کا امن و خوشحالی، دولت ،تعلیم
،ہنرمندی اور کاریگری کے افسانے اقالیم دنیا میں مشہور تھے ،پرتگالیوں کی
آمد کے بعدیورپ کے تاجروں نے بھی یہاں کا رخ کیا، 24ستمبر 1599 ء کو لندن
کے 200سے زائد تاجروں اور امراء نے مشرقی ممالک میں تجارت کی غرض سے کمپنی
بنائی ،21دسمبر 1600 ء کو ملکہ الزبتھ نے اس کمپنی کو شاہی منشور کے ذریعے
بلا شرکت غیرے مشرقی ممالک میں تجارت ے پورے حقوق دئیے، 1612 ء میں
ہندوستان کے مغربی ساحل سورت سے ایسٹ انڈیا کمپنی نے کاروبار شروع کیا،
انگلستان کے نووارد تاجروں کو ہندوستان کے فرمانرواؤں نے نیک نیتی اور دریا
دلی سے ہر طرح کی رعایات اور مراعات دیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ احسان فراموش
اور خود غرض قوم کے ساتھ بھلائی اپنے حق میں برائی ثابت ہوتی ہے۔شکر گزاری
اور ممنون احسان ہوکر قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے تجارت کرنے کے بجائے
انگریز نے انتہائی چالاکی ،تخریب اورفریب کے ساتھ برصغیر کی معیشت کو تباہ
کیا ،تمام معاہدات کو توڑ کرمنصوبہ بندی کے ساتھ ایسٹ انڈیا کمپنی مختلف
شہروں پر اپنا کنٹرول قائم کرتے ہوئے 1857 ء میں پورے برصغیر پر قابض
ہوگئی ، نتیجتاًخوشحالی کی جگہ بھوک و افلاس،تعلیم کی جگہ جہالت،اتفاق و
اتحاد کی جگہ فرقہ واریت ،تعصب اور گروہ بندیاں ،بدیسی زبان اور غلامانہ
نظام تعلیم اہل ہند کا مقدر بنا۔برطانوی سامراج نے ظلم وستم ،درندگی و
سفاگی کی ایسی بدترین روایات قائم کیں جو انسانیت کے لیے بدنما داغ ہیں۔
تاریخ پر نظر رکھنے والے علماء کرام اور مسلم قائدین آزادی ہند کے لیے ہر
اول دستے کے طور پر جدو جہد کر رہے تھے، جن کے سرخیل معرکہ شاملی کے قائدین
مولانا محمدقاسم نانوتوی ؒ ،مولانا رشید احمد گنگوہی ؒ اور حاجی امداداللہ
مہاجر مکیؒ کے تربیت یافتہ شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ تھے،انگریزی
اقتدار کو فنا کردینا آپ کی زندگی کا اولین مقصد تھا،تدریسی مشغولیت کے
ساتھ ساتھ 1877 ء "ثمرۃالتربیت "کے نام سے ایک تنظیم بنائی ،جس کا مقصد
برطانوی سامراج کے خلاف مسلح بغاوت کی تیاری کرنا تھی ،یہ تنظیم 30سال تک
قائم رہی ۔ 1909 ء میں حضرت شیخ الھندؒ تحریک آزادی کے ان جانثاروں کو "
جمیعۃ الانصار"کے پلیٹ فارم پہ جمع کیا ،اس نئی تنظیم کے امور کو سنبھالنے
کے لیے مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کو دیوبند طلب کیا گیا ۔(مولانا عبیداللہ
سندھی کی ذاتی ڈائری)1911 ء کو دارلعلوم دیوبند کے سالانہ اجلاس میں
تقریباً 30ہزار علماء کرام کی موجودگی میں " جمیعۃ الانصار"کا اعلان کیا
گیا ،تحریک آزادی کے لیے اس کی ضرورت اور اعراض و مقاصد بیان کئے گے،بھر
پور عوامی حمایت کے ساتھ " جمیعۃ الانصار"نے 1911 ء میں پہلی حکومت مخالف
ریلی مرادآباد میں نکالی،ان سرگرمیوں کی وجہ سے حکو متی حلقوں میں شدید
اضطراب پیداہو چکا تھا، بوکھلاٹ کا شکار انگریزی سامراج نے 1913میں " جمیعۃ
الانصار"پر پابندی لگا دی۔شیخ الھندؒ اور مولانا عبیداللہ سندھی کی قیادت
میںآزادی کے متوالے "نظارۃ المعارف"کے پلیٹ فارم پہ جمع ہوئے،یہ درسگاہ اور
تربیت گا ہ ہونے کے ساتھ ساتھ خفیہ مشورہ گاہ بھی تھی،ڈاکٹر انصاریؒ ،مولانامحمدعلیؒ
،مولانا شوکت علیؒ اورمولاناابولکلام آزاد ؒ اسی دور میں حضرت شیخ الھند ؒ
کے ہمنوابنے۔
حضرت شیخ الھندمحمود حسن ؒ نے محسوس کر لیا تھا کہ ہندوستانی عوام اور مشرق
وسطی کے ممالک خصوصاًافغانستان،ایران اور خلافت عثمانیہ کو متحد کئے بغیر
برطانوی حکومت سے برصغیر کو آزاد نہیں کرایا جا سکتا ہے،آپ یہ سمجھتے تھے
کہ بغیر تشدد کے انگریز کو ہندوستان سے نکالنا ممکن نہیں ہے،آپ کی سرگرمیاں
جنگ عظیم سے پہلے دو حصوں پر مشتمل تھیں ،اندرون ہنداور بیرون ہند۔جنگ عظیم
کے دوران ان سرگرمیوں کووسیع کرنے کا موقع ملا ،ہندوستان میں داخلی بغاوت
اور خارجی حملہ کے ذریعے انگریز کو نکالنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ 1915 ء
کوحضرت شیخ الھندؒ نے مولانا عبیداللہ سندھی ؒ کو افغانستان جانے کا حکم
دیا اور خود خلافت عثمانیہ کے حکام سے رابطہ کے لیے حجاز کے سفر پر روانہ
ہوگئے۔
مولانا عبیداللہ سندھی نے سات سال تک امیر امان اللہ کے تعاون سے جدوجہد کو
جاری رکھا ،1922 ء میں کانگرس کمیٹی کابل بنائی گئی جس کے آپ پہلے صدر
منتخب ہوئے۔شیخ الہند ؒ 17اکتوبر1915 ء کو مکہ پہنچے ،ترک گورنر غالب پاشا
سے ملاقات کی،آپ کی درخواست پرخلافت عثمانیہ کے گورنر نے برطانوی سامراج کے
خلاف تعاون کا وعدہ کیا۔مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے حجاز میں مقیم حضرت شیخ
الھندؒ کے نام ایک خط لکھا جس میں کابل میں جاری سرگرمیوں اور آزادی کی
جدوجہد کا تفصیلی خاکہ تحریر تھا ،ریشمی کپڑے کے تین ٹکڑوں میں تحریر یہ
خطوط 9جولائی 1916 ء کو عبدالحق کو دیئے کہ وہ شیخ عبدالرحیم سندھی تک
پہنچا دے،بدقسمتی سے یہ خطوط رب نواز نامی نومسلم کے ہاتھ لگے جو درحقیقت
انگریز کا جاسوس تھا،کمشنر ملتان کی تفتیش کے بعد تحریک کے قائدین کی
گرفتاریاں شروع ہوئیں اور 23صفر 1335 ھ کو حضرت شیخ الھند ؒ اور آپ کے
رفقاء مولانا وحید احمدؒ ،حکیم سیدنصرت حسین ؒ ،مولانا عزیر گلؒ اور مولانا
حسین احمد مدنیؒ کو مکہ سے گرفتار کر لیا گیا اور 29 ربیع الثانی 1335 ھ
بمطابق 1917 ء کو مالٹا پہنچا دیا گیا ۔
آزادی ہند کا عظیم قائد 3سال اور 2ماہ مالٹا کی بدنام زمانہ جیل سے جب رہا
ہوا توالوداع کہنے صدراعظم ترکی ،شیخ الاسلام خیرالدین آفندی اور دیگر قیدی
ترکی حکومت کے عہدیداران سمیت تمام قیدی جمع ہوئے اور شیخ الاسلام نے
باآواز بلند آپ کے لیے دعا کی اور رخصت فرمایا۔20جون 1920 ء بمطابق
20رمضان المبارک 1338 ھ کو 3سال اور 7ماہ بعد بمبئی پہنچا کر آپ اور آپ
کے رفقاء کو رہا کردیا گیا ۔حکومت کی منصوبہ بندی یہ تھی کہ خلافت کمیٹی سے
شیخ الھند کی ملاقات نہ ہو مگر ان کی تدبیر ناکام ہوئی اور 21رمضان المبارک
کو حضرت شیخ الھند ؒ اسٹیمر سے اترے تو انسانوں کا ایک سمند رتھا جو مولانا
شوکت علی ؒ کی قیادت میں آپ کے استقبال کا منتظر تھا ، آپ کا آمد کے ساتھ
ہی فضا نعرہ تکبیر کی صداؤں سے گونج اٹھی ۔خلافت کمیٹی کی طرف سے کہتری
مسجد بمبئی میں ایک استقبالیہ جلسہ منعقد کیا گیا اور آپ کی خدمت میں
ایڈریس پیش کیا گیا،بمبئی میں قیام کے دوران مولانا عبدالباری فرنگی محلی
اور مہاتما گاندھی ملاقات کے لیے آئے۔دو روز قیام کے بعد آپ دہلی ،میرٹھ سے
ہوتے ہوئے دیوبند پہنچے ،ہر مقام پر اہل ہند کا ہجوم تھا جو آپ کی ایک جھلک
دیکھنے کو بیتاب تھا۔
حضرت شیخ الھند ؒ طویل اسارت کے بعد پہلے سے زیادہ پرعزم دیکھائی دیتے تھے
،اور آپ نے آزادی ہند کے حکمت عملی میں تبدیلی کرتے ہوئے عدم تشدد کی
پالیسی کو مؤثر قرار دیتے ہوئے جدوجہد کا آغاز کیا،آپ نے خلافت کمیٹی میں
شرکت اور مکمل تائید کا اعلان کیا جو یقیناًاہل ہند کے لیے حوصلہ افزا
تھا،خلافت کمیٹی کی طرف سے آپ کے لیے شیخ الھند ؒ کا لقب تجویز کیا گیا جو
ہر عام و خاص میں مقبول ہوا اور آپ کی پہچان بن گیا۔
تحریک خلافت کے ساتھ ساتھ ترک موالات کی مؤثر آواز اٹھنے لگی تو حضرت شیخ
الھند ؒ سے علیگڑھ یونیورسٹی کے طلبہ نے فتویٰ حاصل کرکے اسے تحریک کا روپ
دے دیا،مہاتما گاندھی سمیت ملک کے تمام اہل رائے ہندو اور مسلمانوں کا موقف
بھی یہی تھا،کانگریس کی تائید کے بعد جمیعت علماء ہند نے پانچ سو علما ء کی
تائید کے ساتھ ترک موالات کا یہ فتویٰ شائع کیا،اور یہی فتویٰ مسلم نیشنل
یونیورسٹی
(جامعہ ملیہ )کی بنیادبنا۔شیخ الھندؒ شدید علیل ہونے کے باوجود یہ کہتے
ہوئے مسلم نیشنل یونیورسٹی کے اجلاس کی صدارت قبول فرمائی کہ "اگر میری
صدارت سے انگریز کو تکلیف ہوگی تو اس جلسہ میں ضرور شرکت کروں
گا"۔16صفر1339 ھ بمطابق29اکتوبر1920 ء کو اجلاس مقرر ہوا،آپ نے صدارت
فرمائی ،ضعف کی وجہ سے خطبہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ نے پڑھ کر سنایا۔
خلافت کمیٹی کلکتہ کے صدر مولانا ابوالکلام آزاد تھے ،آپ کی تحریک پر مدرسہ
عالیہ کلکتہ کے طلبہ نے ترک موالات کرکے مدرسہ سے لاتعلقی کا اظہارکیا ہوا
تھا،ایک آزاد نیشنل مدرسہ عالیہ ناخدا مسجد کلکتہ میں قائم کیا گیا،مولانا
عبدالرزاق ملیح آبادی اس کے ناظم مقرر ہوئے اور مولانا حسین احمد مدنی کو
شیح الحدیث کے حیثیت سے دارالعلوم دیوبند سے بلایا گیا۔
30اکتوبر 1920 ء حضرت شیخ الھند ؒ دہلی تشریف لائے مگر صحت گزرتے وقت کے
ساتھ بگڑتی جا رہی تھی،علاج جاری رہا اور 30نومبر بمطابق18ربیع الاول 1339
ھ کو اسم ذات باری "اللہ"کا ورد کرتے ہوئے خالق حقیقی سے جا ملے،آپ کا جسد
خاکی دہلی سے دیوبند لایا گیا ،مولانا حکیم محمدحسن صاحب ؒ نے تماز جنازہ
پڑھائی ،اور چاشت کے وقت آپ کو سپرد خاک کردیا گیا ۔بقول شیخ العرب والعجم
مولانا حسین احمد مدنی ؒ ،قدوۃ الواصلین،امام المحدثین و العارفین،قطب عالم
علوم و کمالات،بطل حریت، آزاد کنندہ ہندوستان،خاتم دوراں ،بخاری زماں ، کوہ
وقاروحلم ، آفتاب معرفت وعلوم،گنجینہ حکمت الہیہ ،خزینہ احادیث وسنن نبویہﷺ
کو لحد میں اتار دیا گیااور شریعت و طریقت کا آفتاب عالمتاب کو ہمیشہ کے
لیے نظروں سے اوجھل کردیا گیا۔
|