ایک درویش صفت انقلابی مفکر۔۔۔مولانا عبید اللہ سندھی
(Dr. Muhammad Javed, Karachi)
|
بیسویں صدی کے سیاسی، معاشی، سماجی اور
فکری انقلابات کے دور میں جو اہل علم ودانش پیدا ہوئے ان میں ایک نام عبید
اللہ سندھی کا بھی ہے،جو مذہبی عالم ہونے کے ساتھ ساتھ ،عصری سیاسی ،سماجی
و اقتصادی علم وفن میں نہ صرف دستگاہ رکھتے تھے بلکہ انہوں نے عملی تجربات
کے ذریعے اپنے افکار کو جلا بخشی۔عبید اللہ سندھی برصغیر میں انگریز سامراج
کے خلاف تحریک آزادی کے اہم رہنما اوررکن تھے۔ آپ ۱۰مارچ ۱۸۷۲ء کو سیالکوٹ
کے ایک گاؤں چیا نوالی (تحصیل ڈسکہ) میں پیدا ہوئے۔ خوب سے خوب تر کی تلاش
نے انہیں سکھ مذہب سے زیادہ ترقی پسند دین اسلام کو قبول کرنے پہ آمادہ کیا۔
آپ نے صوفیاء اکرام کی انسان دوست اورتزکیہ واخلاق پر مبنی ماحول میں تربیت
پائی۔پھر برصغیر کے مشہور دینی علمی اداروں سے قرآن ،حدیث،،فقہ وتفسیر و
غیرہ کے علوم سے بہرہ مند ہو نے کے بعد مدرس کے فرائض بھی انجام دئیے۔یہ وہ
زمانہ تھا جب ہندوستان سامراجی غلامی میں جکڑا ہوا تھااور سامراج کے خلاف
آزادی کی تحریکات زوروں پہ تھیں۔لہذا وہ اپنے وطن کی آزادی کی اس جدو جہد
میں شریک ہو گئے۔ان کو تحریک آزادی میں شریک بڑے اور قابل رہنماؤں سے
استفادہ کا موقع ملا، انہوں نے ہندوستان کوآزادی دلانے کے لئے دیگر ممالک
کی حمایت اور مدد کے لئے ایک منصوبے کے تحت اپنے عالمی سفرکا آغاز
افغانستان سے کیا ، پھر روس کا سفر کیا ،پھر ترکی سے ہوتے ہوئے حجاز(سعودی
عرب) پہنچے۔ اور اس طرح انہوں نے اپنی زندگی کے کئی سال جلاوطنی میں
گذارے۔اس پورے سفر کے دوران انہوں نے ان گنت مصائب اٹھائے اور بے تحاشہ
علمی و سیاسی تجربات ہوئے، جب وہ اپنے وطن سے چلے تھے تو وہ ایک محدود سوچ
کے ساتھ چلے تھے اور جب اس سفر کا اختتام ہوا تو وہ کئی سالوں کے تجربات
میں پکی ہوئی ایک وسعت پذیراور ترقی پسند فکر کے ساتھ وطن واپس لوٹے ۔
مولانا سندھی جب ہندوستان سے چلے تو اس آزادی کی تحریک کا ایک مضبوط حصہ
تھے جسے انگریز ریشمی رومال کہتے ہیں۔مولانا کا نظریہ اسلامی
اتحاد،مسلمانوں کے ممالک کی مدد سے ہندوستان کو آزادی دلانا تھا۔لیکن
افغانستان،روس اور ترکی اور اس کے بعد حجاز میں بارہ سالہ قیام نے مولانا
سندھی کو اپنے گذشتہ نظریات اور عمل پہ نظر ثانی کرنے پہ مجبور کر
دیا۔انہوں نے اپنے اس سفرمیں خاص طور پہ اس حقیقت کا مشاہدہ کیا کہ جب وقت
کے تقاضے بدلتے ہیں تو اس کے ساتھ ساتھ اقوام کو اپنی روش بھی بدلنی
چاہئے۔انہوں نے اپنی آنکھوں سے پرانے اور فرسودہ دستوروں اور نظاموں کو
ملیا میٹ ہوتے ہوئے دیکھا۔
انہوں نے سلطنت عثمانیہ کو ٹوٹتے اور بکھرتے دیکھا، انہوں نے ایک حقیقت
پسندمفکر کی طرح ،کھلے دل سے اپنی ناکامیوں کو تسلیم کیا،اور ان کی وجوہات
کو جاننے کی کوشش کی۔ انہوں نے اسلامی علوم کا عصری تقاضوں کی روشنی میں
انقلابی نقطہ نظر سے مطالعہ کیا ۔اور اس سے نتائج اخذ کئے۔اور بر ملا اپنی
نئی اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ سماجی،سیاسی اور معاشی فکر پیش کی۔آپ نے یہ
سمجھایا کہ اب شاہی نظام کی جگہ جمہوری نظام ہی چلے گا۔شاہیت چاہے جس قدر
مقدس ہو اب باطل ہے۔مذہب کے نام پہ عالمی اتحاد اب ناممکن ہے۔ ہر قوم کا
اپنا قومی تشخص ہے اور وہ اسی کے تحت ترقی کی منازل طے کرنا چاہتی
ہے،علم،سائنس اورٹیکنالوجی کی ترقی کے بغیر قومیں آزادی کی منزل تک نہیں
پہنچ سکتیں۔
انہوں نے انسانی ارتقاء میں سب سے بڑی رکاوٹ طبقاتی نظام کو قرار دیا،
انہوں نے نوجوانوں اور تمام عوامی طبقات کی سیاسی شعوری تربیت اور تنظیم کو
ضروری قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ مذہب کی بنیاد پہ نفرت کی بجائے محبت پھیلاؤ، اصل چیز
انسانیت ہے اور انسانی فکر ،انسان دوستی اور خدمت انسانیت کا جذبہ ہی ترقی
کا ضامن ہے۔مذہب ،فرقہ اور نسل کی بنیاد پہ تعصب غلط اور قوم کو تباہ کرنے
کی سازش ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کو تعصب،تنگ نظری،عقل دشمنی اور رجعت پسندی
کو ترک کرنے کی تلقین کی۔
ڈاکٹر تارا چند کے بقول’’مارچ ۱۹۳۹ء میں وہ ہندوستان واپس آئے اور کراچی کے
بندرگاہ پر اترے اپنے ساتھ ایک متنوع اور متحرک جذبات کا خزانہ لائے اور
ایسے اسلام پر پختہ عقیدہ جس کے مذہبی سماجی اور سیاسی اصولوں میں لچک پیدا
کر دی گئی ہو وہ اپنی عمر کے سترویں سال کے قریب پہنچ رہے تھے زندگی کے
نشیب وفراز اور متضاد مشرقی اور مغربی تصورات کی جنگ نے ان کے دماغ میں نئی
نالیوں کو کھود کر تیار کر دیا تھا اس لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ
ان کے وہ اصول جن پر ان کا پختہ عقیدہ تھا وہ مسلمانوں اور مجموعی طور پر
تمام ہندوستانیوں کو اتحاد،آزادی اور مرفہ الحالی کی جانب لے جائیں گے۔‘‘
آپ کی انفرادیت یہ ے کہ آپ نے عصر حاضر کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو وسعت نظری
اور ہمہ گیر سماجی فکر کی روشنی میں سمجھا اور ان تقاضوں کی تکمیل کے لئے
اصولی رہنمائی فرمائی۔آپ ایک زبردست انقلابی شخصیت کے مالک تھے آپ کے مد
نظر ایک ہمہ گیر سماجی انقلاب پیدا کرنا تھا۔انسانی معاشرے میں طبقاتی
کشمکش ،استحصالی نظاموں کا خاتمہ اور محنت کشوں کی ترقی اور خوشحالی کے لئے
انہوں نے ایک ایسا انقلابی پروگرام تشکیل دیا جو فی زمانہ ہمارے معاشرے کی
پسماندگی،سامراجی طاقتوں اور استحصالی قوتوں کے تسلط سے سیاسی،اقتصادی
آزادی اور قومی ترقی و ہم آہنگی کے لئے مشعل راہ ہے۔آپ کے شاگرد
رشیدپروفیسر سرور رقمطراز ہیں کہ
’’مولانا کی ذہنی اور عملی زندگی کا مرکزی نقطہ انقلاب ہے اور اسی کے گرد
ان کے افکار کی ساری کائنات گھومتی ہے ان کے نزدیک عقیدہ یا یقین بھی عمل
کی ابتدائی منزل ہے یقین پختگی کی حد کو پہنچ چکا ہے تو عملی دنیا میں
متشکل ہو کر رہتا ہے عمل کا نہ ہونا یقین کے نقص کی دلیل ہے زندگی کو عمل
کی شکل میں دیکھنا مولانا کی طبیعت کا فطری رحجان ہے قرآن مجید سے آپ کی
غیر معمولی شیفتگی اور محبت کا سبب بھی یہی ہے کہ قرآن عمل پر سب سے زیادہ
زور دیتا ہے ‘‘
مولاناعبید اللہ سندھی کے نزدیک ’’انقلاب کا جذبہ ہی فرد کی خودی کو بیدار
کرتا ہے اور جب انسان کی خودی بیدار ہو جائے تو وہ بلا خوف وخطر زندگی کی
کش مکشوں کا مردانہ وار مقابلہ کرتا ہے وہ فرسودہ اور بے کار دستوروں کو
توڑ پھوڑ دیتا ہے اور زندگی کی نئی طرح ڈال دیتا ہے یعنی عمل کا مظہر اتم
ذوق انقلاب ہے اور یہی ذوق انقلاب فکر وعمل میں تعمیر وتخلیق کا باعث بنتا
ہے۔۔۔۔اقبال کے الفاظ میں ’’یہ کار خدا ونداں‘‘کرنا انقلابی کا کام ہوتا
ہے۔‘‘
عبید اللہ سندھی ایک سچے انقلابی اور حکیم کی طرح معاشرے میں انقلاب کے
اسباب بیان کرتے ہیں اور فرسودہ تمدن کے خلاف تبدیلی کی سوچ پیدا کرتے
ہیں۔فرماتے ہیں’’تمدن اس وقت تک اچھا رہتا ہے جب تک یہ انسانوں کی اجتماعی
اور حیاتی ضروریات پورا کرتا ہے لیکن جب کسی قوم میں انسانوں کا ایک مخصوص
طبقہ تو تمدنی لحاظ سے بہت آگے بڑھ جائے اور دوسرے لوگ جو تعداد میں بہت
زیادہ ہوں،بہت پیچھے رہ جائیں تو پھر اس تمدن کو گھن لگ جاتا ہے اور قدرت
یا زمانے کا یہ تقاضا ہوتا ہے کہ اس تمدن کو جو فرسودہ ہو گیا،برباد کر دیا
جائے ۔قوم کے ایک محدود طبقے کی اس طرح غیر فطری ترقی کا لازمی نتیجہ یہ ہے
کہ لاکھوں اور کروڑوں انسان تو معمولی معاش کو ترستے ہیں اور چند ایک کے
پاس بہت دولت جمع ہو جاتی ہے۔ان حالات میں قوم کو روگ لگ جاتا ہے۔افراد کی
صلاحیتیں بے کار ہو جاتی ہیں۔عیش پرستی عام طور پر پھیلنے لگتی ہے عمومی
مفاد کا کسی کو خیال نہیں رہتا ،نفسی ٰنفسی کا معاملہ ہوتا ہے ہر شخص کی یہ
کوشش ہوتی ہے کہ اپنا پیٹ بھرے اپنی خواہشات کو پورا کرے خواہ ہمسایہ فاقوں
کے مارے مرتا مر جائے ۔جب کوئی قوم ادبار کے اس نرغے میں گرفتار ہو جاتی ہے
تو پھر انقلاب کا آنا ایک حتمی امر ہوتا ہے۔‘‘
عبیداللہ سندھی اپنی وفات تک جو اگست ۱۹۴۴ میں واقع ہوئی مسلسل پنی فکر کے
پرچار میں مصروف رہے۔
مولانا عبید اللہ سندھی ایک درویش صفت مفکر جنہوں نے اپنی ذات ، اپنے
خاندان کے لئے نہ کبھی مال بنایا اور نہ ہی جاہ کی طلب کی، اور نہ ہی انہوں
نے کسی تقدس یا علمی قابلیت کے نام پہ اپنے آپ یا اپنے خاندان کو مقدس
بنایا۔اور نہ ہی انہوں نے کسی ایسے سلسلے کی بنیاد رکھی جو کہ آئندہ نسلوں
کے لئے رجعت پسندی اور کسی بھی طرح کی فرقہ واریت یاگروہیت کو جنم دے۔
آپ کا کردار وافکار ہمارا قومی سر مایہ ہیں،نیز عصر حاضر میں خاص طور پہ
ہمارے سماج اور اس پورے خطے کی جو حالت زارہے۔ صوبائیت ،لسانیت کے تعصبات
قومی شناخت کو ختم کر رہے ہیں۔مذہبی فرقہ واریت اور گروہیت نے ناک میں دم
کیا ہوا ہے۔جمہوریت،سیاست اور انقلاب کے نام پہ عوام کو دھوکہ دیا جا رہا
ہے،ایسے عالم میں ایک ایسے درویش صفت مفکر کی ان باتوں کو زبان زد عام ہو
نے کی ضرورت ہے ۔جس نے ان ساری حقیقتوں کو نہایت واضح انداز سے بیان
کیا۔بلکہ آج کے قومی اور بین الاقوامی حالات خود اس امر کی گواہی دے رہے
ہیں کہ اس انسان دوست مفکر باعمل کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ کس قدر اہم
تھے اور کس قدر قوم نے اس کی ناقدری کی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ۔اکثریتی طبقہ
بنیادی ضروریات کے لئے ترس رہا ہے،اور دوسری طرف قلیل طبقہ تمام وسائل پہ
قابض ہے ۔اسی طبقاتی استحصال اور جبر کے نتیجے میں سیاسی ،اقتصادی،سماجی
زوال میں مبتلا پورا معاشرہ انتشار کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔لہذاعصر حاضر
میں مولانا عبید اللہ سندھی کے نظریات و تجربات سے استفادہ کر کے نئی نسلیں
ایک آزاد،مبنی بر انصاف، مضبوط اور مستحکم پاکستان کی تشکیل میں اہم کردار
ادا کر سکتی ہیں۔ |
|