سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان

الیکشن کمیشن آف پاکستان کے قوانین کے تحت تمام سیاسی جماعتوں کو اپنے پارٹی انتخابات لازمی منعقد کرانا ہوتے ہیں اور اس حوالے سے اپنی رپورٹ پاکستان الیکشن کمیشن میں جمع کرانا لازمی ہوتی ہے۔
پاکستانی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کی بجائے آمریت کی بیشمار مثالیں موجود ھیں جبکہ بظاھر آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے حق میں تقریباً تمام سیاسی جماعتیں ایک ھی نقطے پر نظر آتی ہیں لیکن ان جماعتوں کے اندر کتنی جمہوریت ہے اس حوالے سے ہمیشہ سے سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
ابھی گزشتہ چند روز قبل ھمارے ملک کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کی جنرل کونسل نے ایک بار پھر وزیراعظم نواز شریف کو پارٹی کا صدر بلامقابلہ صدر منتخب کیا ہے۔

اس پر مختلف صحافتی حلقوں میں ان انتخابات میں شفافیت اور غیر جمہوری ہونے کے بارے میں تذکرے ہو رہے ہیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور پارٹی انتخابات کیلئے مقرر کردہ الیکشن کمشنر چوہدری جعفر اقبال نے ایسی کسی بھی رائے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی کی جانب سے ورکرز کو کسی قسم کی رکاؤٹ کا سامنا نہیں بلکہ ان انتحابات سے پہلے سب کو میڈیا کے ذریعے بھی آگاہ کیا گیا تھا کہ کوئی بھی عہدے کے لیے امیدوار بن سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کوئی ایسا طریقہ نہیں اسی لیے ہم نے میڈیا کے ذریعے سب کو آگاہ کیا اگر کوئی بھی الیکشن لڑنا چاہتا تو لڑے لیکن اگر کوئی کاغذاتِ نامزدگی جمع نہیں کراتا تو ہم کیسے کسی ورکر کو گھر سے نکال کر کہا جائے کہ وہ آئیں۔

پارٹی انتخابات کیلئے مقرر الیکشن کمشنر چوہدری جعفر اقبال کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں نواز شریف کے مقابلے میں صرف ایک امیدوار سامنے آیا لیکن کاغذات کی جانچ پڑتال میں وہ اس وجہ سے نااہل قرار پایا کہ وہ پارٹی کی جنرل کونسل کا رکن ہی نہیں تھا اور اس کے بعد کونسل کے 19 سو سےزائد ممبران نے میاں نواز شریف کو بلامقابلہ منتخب کر لیا۔

پارٹی میں جمہوریت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں چیئرمین چوہدری جعفر اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن میں اس وقت کچھ ناراض ارکان موجود ہیں اور یہ کافی سینئیر سیاست دان ہیں اور ان کے پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ قیادت سے اختلافات بھی ہیں اور وہ بھی میدان میں آ جاتے انھیں کسے نے روکا نہیں تھا لیکن وہ سامنے نہیں آئے۔'

تاہم انھوں نے تسلیم کیا ہے کہ ورکرز میں شعور کی وجہ سے جماعتوں میں انتخابات کا حقیقی ماحول نہیں بن پاتا ہے۔

انکا مزید یہ کہنا تھا کہ ' جماعت کے جنرل سیکریٹری کے طور پر میں لوگوں کو کہتا رہا کہ وہ پارٹی انتخابات میں آگے آئیں لیکن وہ آتے نہیں تھے اور بدقسمتی سے جب لوگ آگے آتے نہیں ہیں تو وہ لوگ جو رہ جاتے ہیں تو ان میں سے ہی چناؤ کر لیا جاتا ہے کہ آپ صدر ہوں گے اور آپ جنرل سیکریٹری ہوں گے۔'

پاکستان کے الیکشن کمیشن کے قوانین کے تحت سیاسی جماعتوں کو انتخابات لازمی منعقد کرانا ہوتے ہیں اور اس حوالے سے اپنی رپورٹ جمع کرانا ہوتی ہے۔

اس میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پیپلز پارٹی کے اندر انتخابات تاخیر کا شکار ہیں اور اب قیادت کی جانب سے عندیہ دیا گیا ہے کہ آئندہ برس جنوری میں یہ انتخابات منعقد کرائے جائیں گے۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی طرح پیپلز پارٹی پر بھی قیادت صرف ایک خاندان تک محدود ہونے اور پارٹی میں جمہوریت کے فقدان کی باتیں ہوتی ہیں۔

اس پر پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر تاج حیدر کے بقول'جمہوریت کے مخالف عناصر ایسی باتیں کرتے ہیں کہ ملک میں جمہوریت نہیں اگر پارٹی میں جمہوریت نہ ہو، حالانکہ دوسری طاقت اسٹبلشمنٹ کیا منتخب قیادت ہے؟ ہمارے ہاں اس وقت جمہوریت استحکام کے مراحل میں گزر رہی ہے اور اس وقت اگر دوسرا طریقہ اپنایا جائے گا تو پارٹیوں میں انتشار پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے جس میں اسٹبلمشنٹ اپنے لوگوں کو اس میں ڈال دیے جس میں نئی بحث شروع ہو گئی اور پھر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔'

انھوں نے کہا ہے کہ ملک میں مزید تین چار انتخابات ہو جائیں اور جمہوریت مستحکم ہو جائے تو اس کے بعد یہ مرحلہ بھی آئے گا۔

پیپلز پارٹی کے اندر انتخابات کے بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹر تارج حیدر نے کہا کہ صوبہ سندھ میں آرگنائزنگ کمیٹیاں بنائی گئی اور انھوں نے ہر ضلع میں پارٹی کارکنوں سے طویل مشاورت کی اور اس کے بعد صوبے میں پارٹی کی قیادت کے لیے تین نام سامنے آئے ہیں اور اس میں سے ایک نام کا انتخاب کیا جائے گا۔

انھوں نے کہا ہے کہ یہ ہی طریقہ کار ملک کے دیگر صوبوں میں ممکنہ طور پر اپنایا جائے گا اور جب نچلی سطح پر پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ مکمل ہو جائے گا تو یہ مرکزی قیادت کا انتخاب کرے گا۔

مسلم لیگ نون کی جانب سے ایک سال کی تاخیر کے بعد تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی سے پہلے پارٹی انتخابات کرانے کے فیصلے پر سینیٹر تاج حیدر نے کہا ہے کہ اس وقت وزیراعظم اس وقت جن مسائل سے گزر رہے ہیں ان میں انھوں نے اپنی جماعت کی حمایت لینا ضروری سمجھی۔'

ملک کی تسیری بڑی جماعت تحریک انصاف جو موروثی سیاست کی سب سے بڑی مخالف سمجھی جاتی ہے، اس کے سربراہ عمران خان نے اپریل میں پاناما لیکس کے بعد احتجاجی مظاہروں کے لیے جماعت میں انتخابات موخر کرنے کا اعلان کیا تھا۔

تحریک انصاف کے گذشتہ انتخابات بھی متنازع ہو گئے تھے اور نئے انتخابات میں مسلسل تاخیر کے بارے میں جماعت کے سینیئر رہمنا عارف علوی سے جب پوچھا تو انھوں نے جماعت کے اسلام آباد میں احتجاجی مظاہرے کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا:'ابھی پاناما کی منصوبہ بندی ہو رہی ہے اور انتخابات کی کوئی پلاننگ نہیں ہو رہی، ہم نے انتخابات کی پوری تیاری کر رکھی تھی لیکن درمیان میں پاناما لیکس کا مسئلہ آ گیا اور اس وجہ سے اسے ہم نے ایک طرف کر دیا۔

یوں اسطرح واضح ثابت ھوتا ھے کہ پاکستان میں موجود رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان ھے-
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 299068 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More