آج پاکستان پر پانی، پانی اور
پانی، تباہی، تباہی بس تباہی اور موت، موت اور بس موت کا راج ہے
سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو دیکھ کر سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہیٰ چکرا
کر گر گئے...یہ اِن کا قومی احساس تھا یا بیماری...؟؟
حکمران ایک دوسرے پر لعن طعن کرنے کے بجائے قوم کو مصیبت سے نکالیں
کوئی اِسے کچھ بھی کہے مگر میں اِس سے انکار نہیں کرسکتا کہ صدرمملکت آصف
علی زرداری کے سینے میں پاکستان اور پاکستانیوں سے بے پناہ محبت کرنے اور
اِن کے دکھ درد کو شدت سے محسوس کرنے والا ایک انتہائی نرم دل دھڑک رہا ہے
اِسی لئے تو اُنہوں نے سیلاب سے متاثرین کی امداد کے لئے پاکستان پیپلز
پارٹی کی طرف سے سب سے پہلے50لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا ہے لیکن پھر بھی
اِن کی جانب سے متاثرین سیلاب کو دیئے جانے والی امداد کی یہ رقم بہت کم ہے
اِن سے اچھے تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر اسحق ڈار ہی رہے جنہوں نے
اپنی جیب سے ایک ہی جھٹکے میں متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے ایک کروڑ روپے
دینے کا اعلان کرکے جہاں وہ صدر مملکت آصف علی زرداری سے سبقت لے گئے تو
وہیں اسحق ڈار اپنی پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف اور اِن کے بھائی
وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے بھی جیت گئے ہیں جو آج کل سیلاب سے متاثرین
کے امدادی کیمپوں کا دورہ تو روزانہ کررہے ہیں مگر میاں صاحبان ابتک اپنی
جیبوں سے متاثرین سیلاب کے لئے امداد کی مد میں ایک ڈھیلا بھی دینے کا
اعلان نہیں کرسکے ہیں۔اِن کی پارٹی کے اہم رکن اسحق ڈار کی جانب سے متاثرین
سیلاب کے لئے دی جانے والی اتنی بڑی رقم کا اعلان اب شائد میاں صاحبان ! کے
لئے باعث ........؟؟؟ہو اور اَب وہ اسحق ڈار کو دیکھتے ہوئے اِن سے بڑھ کر
رقم دینے کا علیحدہ علیحدہ اعلان کردیں۔
جبکہ اِسی طرح دوسری طرف یہ خیال کیاجارہاہے کہ 18فروری 2008کے عام
انتخابات میں شکست سے دوچار ہونے والے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے اہم رکن اور
سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہٰی ملک میں آنے والے بدترین سیلاب
کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں اور بے شمار انسانوں کی ہلاکتوں سے
شدید غم میں مبتلا رہنے کے سبب بہاول پور میں اپنی پارٹی کے کارکن اور
عہدیداروں سے ملاقات کے دوران اچانک چکرا کر گر پڑے .....اِن کے گرنے کی
وجہ اِن کی حب الوطنی تھی ...... یا کوئی ....؟؟؟ بہرکیف! ڈاکٹروں نے اِن
کا چیک اَپ کرنے کے بعد بتایا کہ اِنہیں شوگر یا بلڈ پریشر کم ہونے کے باعث
اِس صُورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ جبکہ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اِن کی
جانب سے بھی اَب تک متاثرین سیلاب کے لئے امداد کی مد میں رقم کی صورت میں
کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان میں آنے والے اپنی تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں پر اپنے
خدشات سے پاکستانی حکمرانوں اور عوام کو آگاہی دیتے ہوئے اقوام متحدہ کے
ادارے ”ورلڈ میڑولوجیکل آرگنائزیشن“نے کہا ہے کہ پاکستان میں80سال بعد آنے
والے بدترین سیلاب سے 1600افراد کی ہلاکت اور اِسی طرح روس میں بدترین گرمی
کی لہر سے سینکڑوں لوگوں کی ہلاکتوں کا اصل سبب گلوبل وارمنگ ہے اِس حوالے
سے ڈبلیو ایم او میں ماحولیاتی ڈیٹا مینجمنٹ کے چیف عمر بدر کا کہنا ہے
اگرچہ آئندہ بھی دنیا میں شدید نوعیت کے ماحولیاتی واقعات ہوتے رہیں گے مگر
یہاں میں یہ سمجھتا ہوں کہ عمر بدر کے اِن انکشافات کے بعد اَب یہ بہت
ضروری ہوتا جاتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں
ہونے والی تباہ کاریوں سے بچاؤ کے لئے دنیا اور بالخصوص پاکستانی حکمرانوں
اور عوام کو اپنی حفاظت کے لئے ترجیحی بنیادوں کو اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ
آئندہ موجودہ سیلاب کی طرح ہونے والی ہولناک تباہ کاریوں سے محفوظ
رہاجاسکے۔
بہرحال !آج اِس حقیقت سے کسی کے لئے انکار کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن
بھی ہوگیا ہے کہ پاکستان پر طرف پانی، پانی اور پانی، تباہی تباہی بس تباہی
اور موت، موت اور بس موت ہی منڈلا رہی ہے اور اِن حالات میں قوم اپنی تاریخ
کی سیلابی تباہ کاریوں سے نمبرد آزما ہونے میں بری طرح سے ناکام اور نامراد
ہوچکی ہے ایسے میں قوم کو متحد اور منظم ہوکر اِس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنا
ہوگا تاکہ قوم سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا ازالہ کر کے ایک بار پھر
ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کی جانب گامزن کرسکے اور ملک میں ایک ایسی
مثال قائم کردے کہ یہ آنے والی نسلوں کے لئے مشعل ِ راہ ثابت ہو۔
اِسی طرح گزشتہ دنوں ایک انٹرویو کے دوران پاکستان کی تاریخ کے بدترین
سیلاب کی تباہ کاریوں پر تبصرہ کرتے ہوئے پاکستان میں اقوام متحدہ کے
انسانی امور کے ادارے کے ترجمان مریسیوجولیانو نے بلاجھجک اِس بات کا اقرار
کیا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے حالات آئے روز بدترین ہوتے جارہے ہیں اور
اِس سیلاب سے جہاں متاثرہ افراد کی تعداد ڈیڑہ سے دو کروڑ کے قریب ہے تو
وہیں اتنی بڑی تعداد میں متاثرہ افراد نے دنیا کے ایک سب سے بڑے انسانی
المیے کو بھی جنم دے دیا ہے تو اقوام متحدہ کو بھی ایک بڑے امتحان سے دوچار
کر دیا ہے اور اُنہوں نے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں کو دنیا کا ایک
بڑا بحران قرار دیتے ہوئے یہ بھی تسلیم کرلیا ہے کہ پاکستان میں آنے والا
یہ بحران ہیٹی اور جنوبی ایشیا میں 2005 میں آنے والے زلزلوں اور2004 میں
آنے والے سونامی سے بھی بہت بڑا بحران ہے اور شائد کوئی بھی ذی شعور اِس
بات سے بھی انکار نہ کرسکے کہ اِس بحران سے پاکستان میں زراعت کو ایک ارب
سے دو ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے اور میرا یہ خیال ہے کہ اِس حقیقت کو بھی
دنیا کو تسلیم کرنا ہوگا کہ اگر ہم پاکستان میں آنے والے اِس تباہ کن سیلاب
کا انتہائی باریک بینی سے جائزہ لیں تو ایک خبر کے مطابق انسانی ہلاکتوں
اور نقصانا ت کے حساب سے پاکستان میں آنے والا یہ سیلاب دنیا کا 60واں بتاہ
کن سیلاب ہے جس سے اَب تک بے شمار انسانی ہلاکتیں عمل میں آچکی ہیں اور
اربوں کھربوں کا نقصان بھی ہوچکا ہے۔ اور اِس کے ساتھ ہی یہ بھی خدشات ظاہر
کئے جارہے ہیں کہ اگر بارشوں کا سلسلہ نہ رکا تو اِن ہلاکتوں میں مزید
اضافہ بھی ہوسکتا ہے۔اِسی طرح پاکستان کو ہر برے وقت میں سود پر قرضہ فراہم
کرنے والے دنیا کے بڑے سود خور ادارے آئی ایم ایف نے بھی پاکستان میں آنے
والے اِس کی تاریخ کے اِس تباہ کن سیلاب پر خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ
گزشتہ اسّی برس کے بعد پاکستان میں آنے والے اِس انتہائی تباہ کن سیلاب نے
پاکستانی معیشت کو تباہ و برباد کردیا ہے اگرچہ اِس منظر اور پس منظر میں
اِس سود خور ادارے آئی ایم ایف نے بھی دنیا سے اپیل کی ہے کہ وہ پاکستان کے
اِن تباہ کن حالات میں اِس کی مدد کرے۔
تو دوسری طرف اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی ایک پریس
کانفرنس کے دوران کہا ہے کہ مجھے پاکستان کے شدید سیلاب پر بڑی تشویش ہے
اور میں پاکستان کے متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے بین الاقوامی برادری اور
ڈونر ممالک اور امداد دینے والے اداروں سے بھی اپیل کرتا ہوں کہ اِس مشکل
وقت میں ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی مدد کے لئے دل کھول کر
حصہ لیں۔
اگرچہ یہ بھی حقیقت ہے کہ آج دنیا پاکستان میں آنے والے اپنی تاریخ کے تباہ
کن سیلاب سے متاثرہ لوگوں کی فوری مدد کے لئے بے چین ہے تواِس منظر اور پس
منظر میں مجھے یہ بھی کہنے دیجئے کہ وہیںیہ کتنی افسوس کی بات ہے کہ موجودہ
حکومتی اراکین اور وزرا سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے ایک دوسرے پر
بیان بازی اور الزام تراشی کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں جس کا اندازہ اِس بات
سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جب متاثرہ صوبوں کے وزیر اعلیٰ کی جانب سے وفاق
سے امداد کی مد میں جیسے وزیراعلی ٰپنجاب کی جانب سے جب متاثرین سیلاب کی
بحالی کے لئے 25ارب روپے کی رقم کی وصولی کا مطالبہ کیا گیا ہے تو
برسرِاقتدار جماعت کے ذمہ داران نے اِسے سیاسی رنگ دے کر ایک نیا سیاسی
مسئلہ کھڑا کردیا ہے ایک خبر کے مطابق لاہور میں جھنگ کے علاقے میں متاثرین
سیلاب سے خطاب کے دوران وفاقی وزیر قانون بابر اعوان نے کہا ہے کہ
وزیراعلیٰ پنجاب سیلاب زدگان کی عملی امداد کے بجائے وفاق سے بھاری امداد
مانگ رہے اِنہیں یہ ہر صورت میں بتانا ہوگا کہ478ارب روپے کا صوبائی بجٹ
کہاں گیا....؟؟شہباز شریف کو 25ارب مانگے سے قبل بجٹ کی رقم کا حساب دنیا
ہوگا۔ اِس موقع پر ایک میں ہی کیا بلکہ سارا پاکستان ہی یہ سمجھتا ہے کہ
حکومتی اراکین کی جانب سیلاب زدگان کی مدد کرنے کے بجائے اپوزیشن اراکین کی
جانب سے آنے والی تنقیدوں اور وزیر اعلی ٰپنجاب کی جانب سے سیلاب زدگان کی
مدد کے لئے رقم کے مطالبے پر بیان بازی کا سلسلہ جاری نہیں رکھنا چاہیے اور
کوئی ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے کہ جس سے حکومتی اراکین کو بعد میں کسی
اپنے بے تکے اور غیر سیاسی رویوں کی وجہ سے سُبکی کا سامنا کرنا پڑے۔اور جب
عوام اِن کے اِس بے حس روئے پر اِن پر تنقید کریں تو یہ بغلیں جھانکتے نظر
آئیں اور عوام کے ساتھ ساتھ اپوزیشن پر بھی حکومتی اراکین لعن طعن کرتے
پھریں جس سے بعد میں اِن کے لئے خود مشکلات جنم لیں اور یہ عوام میں اپنی
صفائی کے لئے جا بھی نہ سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِن حالات میں تو ضرورت
صرف اِس آمر کی ہے کہ حکومتی اراکین اور وزرا کسی بھی معاملے کو اپنی انا
اور ناک کا مسئلہ بنانے اور سمجھنے کے بجائے خالصتاً جذبہ حب الوطنی کے تحت
تمام جماعتوں کے لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلیں کیونکہ ایسا کرنے میں اِن
ہی کی بھلائی اور اِن کا ہی سیاسی فائدہ ہے۔ ویسے بھی بقول بابر اعوان کے
صدر زرداری حالیہ بیرونِ ملک دوروں کے دوران متاثرین سیلاب کے لئے امداد کی
مد میں بہت کچھ مانگ کر لا رہے ہیں تو کیا ہے اچھا ہو کہ یہ ساری رقم ملک
کی تمام جماعتیں مل کر متاثرین سیلاب پر خرچ کریں اور اِس کا سارا کا سارا
کریڈٹ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہی لے جائے۔ ورنہ حکمران جماعت یہ
بھی یاد رکھے اگر اِس نے اپنے اِس اچھے عمل میں حزب اختلاف اور اپنے سے
ناراض لوگوں کو ساتھ نہ ملایا تو اِن کی جانب سے کئے جانے والے منفی
پروپیگنڈوں سے بھی حکمران جماعت کا سارا اچھا عمل خاک میں مل کر صفر بھی
ہوسکتا ہے۔ (ختم شد) |