کیاہندستان ہندو استھا ن بننے جارہاہے؟
(nazish huma qasmi, mumbai)
کشمیر میں تقریباً 104دنوں سے آگ وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ پورا کشمیر جل رہا ہے اس پر قابو پانے کے بجائے میڈیا اور حکومت کے کارندے اپنے اوچھے بیانات اور دیگر دل آزار تبصروں سے ان کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔ خون میں لت پت بچے اپنے ہندوستانی ہونے پر شرم محسوس کررہے ہیں کہ کاش ہم ہندوستان کا حصہ نہیں ہوتے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ان کے مسائل پر دھیان دیتی ، ان کی ترقی کے بارے میں سوچتی لیکن نہیں انہیں ایسا کچھ کرنا نہیں ہے بلکہ دہشت گردی کی آڑ لے کر ان معصوم کشمیریوں کو مسلمان ہونے کی سزا دینی ہے۔ |
|
|
فی الحال ہمارا ملک مسائل کا گہوارہ بن گیا
ہے…ہر آئے دن عجیب و غریب مسئلوں سے بے بس عوام کا سامنا ہورہا ہے… حکومت
اور بکائو میڈیا ایشو کو نان ایشو اور نان ایشو کو ایشو بنا کر عوام کے
اذہان سے کھلواڑ کررہی ہے۔ اصل مسائل سے ان کے ذہنوں کو ہٹا کر دیگرمذہبی
اور عائلی مسائل میں الجھایا جارہا ہے تاکہ وہ الجھے رہیں اور ہم انہیں
مزید پچھڑا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ کشمیر میں تقریباً 104دنوں سے آگ
وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ پورا کشمیر جل رہا ہے اس پر قابو پانے کے
بجائے میڈیا اور حکومت کے کارندے اپنے اوچھے بیانات اور دیگر دل آزار
تبصروں سے ان کے زخموں پر نمک پاشی کررہے ہیں۔ خون میں لت پت بچے اپنے
ہندوستانی ہونے پر شرم محسوس کررہے ہیں کہ کاش ہم ہندوستان کا حصہ نہیں
ہوتے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ان کے مسائل پر دھیان دیتی ، ان کی
ترقی کے بارے میں سوچتی لیکن نہیں انہیں ایسا کچھ کرنا نہیں ہے بلکہ دہشت
گردی کی آڑ لے کر ان معصوم کشمیریوں کو مسلمان ہونے کی سزا دینی ہے۔ حکومت
کو سوچنا چاہئے کہ وہ آخر کیوں ہندوستان کا اٹوٹ حصہ رہتے ہوئے یہاں سے
علاحدگی کی باتیں کرتے ہیں۔ کیوں آئے دن پاکستانی پرچم لے کر اپنی جان
نچھاور کررہے ہیں۔ حالانکہ اگر کشمیر پاکستان کا حصہ ہوجائے تو جو کچھ آج
کراچی اور لاہور کی سڑکوں پر ہورہا ہے اس سے بھیانک ہی منظر شاید پونچھ اور
سری نگر کی شاہراہوں پر دیکھنے کو ملے ۔ اور شاید وہ علاحدگی کے بعد یہ
کہتے ہوئے نظر آئیں ’’نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ، نہ ادھر کے رہے نہ ادھر
کے رہے‘ ان کے لئے نہ یہاں چین ہے اور نہ علاحدگی کے بعد شاید پاکستان میں
سکون میسر ہوگا۔بہت ممکن ہے کہ وہ کشمیر میں چین وسکون کے ساتھ زندگی گزار
سکیں جس طرح دیگر صوبوں کے مسلمان اپنے وطن پر فخر کرتے ہوئے زندگی گزار
رہے ہیں اور انہوں نے آزادی کے وقت یہ ثابت کردیا تھا کہ ہم ہندوستانی ہیں
اور ہندستان میں ہی رہیں گے ہمیں پاکستان سے کوئی سروکار نہیں ، آج وہ
مرکزی دھارے میں گنگا جمنی کی تہذیب بنے ہوئے ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ
کشمیریوں کے درد کو سمجھیں اور کشمیر کو اپنا نہیںبلکہ کشمیریوں کو اپنا
سمجھتے ہوئے ان کی باز آبادکاری اور دیگر سہولیات کے تئیں فکر مندی
دکھائیں، فوج کو صرف اتنے ہی حق دئے جائیں جس سے وہ سرحد کی حفاظت کرسکے نہ
کہ گھروں میں محفوظ سمجھی جانے والی ہماری مائوں بہنوں کی عصمت سے کھلواڑ
کرے۔
کچھ دنوں قبل سرحد پر حالات کشیدہ ہوئے، ہمارے جانباز سپاہیوں نے دشمن کو
منہ توڑ جواب دیا اور انہیں یہ باور کرادیا کہ ہم سے ٹکرانا آسان نہیں
ہے،یہ ایک فوجی کاروائی تھی اور فوج کو بہادری کے انعامات سے نوازنا ایک
فطری عمل ہے، لیکن جس طرح سے فوج کے اس سرجیکل اسٹرائک کو فرضیکل اسٹرائیک
قرار دیتے ہوئے اس پر سیاست کی روٹی سینکی گئی وہ کسی بھی مہذب اور جمہوری
ملک کیلئے زیب نہیں دیتا۔ بات فرضیکل ہی تک رہتی تو ٹھیک لیکن اس معاملے
میں جس طرح حکومت اور اپوزیشن نے ایک دوسرے کو طعن وتشنیع اور گالیوں سے
نوازا وہ سیاست کی ایک ایسی قسم تھی جو ہندوستان کے علاوہ کہیں دیکھنے کو
نہیں ملتی۔حالانکہ مودی حکومت سے قبل بھی سرجیکل اسٹرائیک کئے گئے تھے لیکن
جس طرح سے حکومت نے خود کی پیٹھ تھپتھپائی ہے ایسا اس سے قبل کی حکومتوں نے
نہیں کیا بلکہ قومی سلامتی کے لئے ان دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو تہس نہس
کرکے ہندوستانیوں کو سکون بخشا۔ سرجیکل اسٹرائیک پر جب اپوزیش کی طرف سے
سوالات کی بوچھار ہوئی اور اسے سیاسی رنگ دینے پر طعن کیا گیا تو پھر حکومت
نے ایک نیا شوشۃ چھوڑ دیا،عوام کے ذہنوں سے کشمیر اور سرجیکل کے فرضیکل
ہونے کو بھلانے کیلئے حکومت نے مسلم اقلیتوں کے پیٹھ پر خنجر مارا اور ایک
سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کے شرعی قانون سے کھیلنے کیلئے تیار
ہوگئی،جلتی پر آگ کا کام ہمارے میڈیا اینکرز نے کردیا ہے،جنہیں دین اسلام
سے کوئی تعلق نہیں، جو مذہب اسلام کے منکر ہیں، جن کی پوری زندگی اسلام
مخالف ہے آج وہ ہمیں اسلام کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی بات کررہے
ہیں، نیور چینلز کے پرائم شو میں ایسے مسلم ناموں کا انتخاب کیا جاتا ہے جو
عید اور جمعہ کی نماز پڑھنے سے بھی گریز کرتے ہیں، اگر پڑھتے بھی ہیں تو
انہیں اتنا علم نہیں ہوتا کہ عیدین میں کتنی زائد تکبیروں کے ساتھ نماز
پڑھنا ہے۔ جو خود کو مسلم کہنے میں بغلیں جھانکنے لگتے ہیں اور شرم محسوس
کرتے ہیں، انہیں اسلام اور مسلمانوں کا نمائندہ بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔
اس معاملہ میں ایک بات جو بہت شدت سے اٹھائی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں
کے شرعی قوانین میں عورتوں کیلئے ہمدردی نہیں ہے، (حالانکہ اسلام ہی ایسا
مذہب ہے جہاں عورتوں کو وہ سہولیات اور ہمدردیوں سے نوازا گیا ہے کہ دیگر
ادیان باطلہ کو تسلیم کرنا پڑا، خود ہمارے ہندوستان میں اسلامی حکومت کے
قیام سے قبل یہاں عورتوں کو شوہروں کی چتا پر زبردستی جلنے پر مجبور کیا
جاتا رہا ہے، یہی ہندوستان ہے جہاں کے بعض علاقوں میں آج بھی پانچ بھائی
ایک ہی بیوی کے ساتھ جنسی تسکین پوری کرتے ہیں کیا یہ ظلم نہیں ہے؟ کیا یہ
عورتوں کے ساتھ ہمدردی ہے؟ ) مسلم پرسنل لاء پر چند لوگوں نے قبضہ کر رکھا
ہے، اور اسلام کے برعکس وہ اپنی باتیں منوانا چاہتے ہیں،ان میڈیا اینکرز نے
ایسے بہت سے سوالات ترتیب دے رکھے ہیں، لیکن جوابات یا تو وہ خود نہیں سننا
چاہتے ہیں یا پھر عوام تک صحیح بات نہیں پہونچنے دے رہے ہیں،بہر دو صورت
میڈیا کی بدنیتی جگ ظاہر ہے۔ انہیں مسلمانوں کی عورتوں سے کوئی ہمدردی نہیں
بلکہ ان کا استحصال مقصود ہے اور اس استحصال میں نام نہاد اسلام کے نام
لیوا لبرل طبقہ ان کا بھر پور ساتھ دے رہے ہیں۔ اب جب کہ مسلمانوں نے اس کے
خلاف آواز اٹھائی ہے اور بے شمار عورتوں نے مسلم پرسنل لاء کو خدائی قانون
کہہ کر اپنے اطمینان کا اظہار کیا ہے،اور مسلم بیداری کیلئے مسلم پرسنل لاء
نے دستخطی مہم بھی چھیڑ دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت ان دستخطی مہموں
کی پاسداری کرتی ہے یا پھر آئین کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مسلمانوں کو ان کے
شرعی قوانین پر عمل کرنے سے بے دخل کردیتی ہے،حالانکہ مسلمانوں کا معاملہ
آپسی معاملہ ہے اور اس سے کسی دوسری کمیونیٹی کا کوئی جوڑ نہیں ہے،اگر
حکومت اپنے ناپاک عزائم کے قیام کے لئے یکساں سول کوڈ کو نافذ کرکے گنگا
جمنی تہذیب کو گنگا میں بہا دیتی ہے،تو پھر ملک میں بد امنی کا پھیلنا لازم
ہے، اور جو لوگ یہ کہتے نہیں تھک رہے ہیں کہ ایک ملک ایک قانون ہونا چاہیے،
ہر کسی کیلئے یکساں قانون ہو، اب وقت آگیا ہے کہ أن سے پوچھا جائے کہ
بتاؤ وہ کون سا قانون ہے جو تمام پر نافذ ہوگا، لاء کمیشن کی بھی ذمہ داری
بنتی ہے کہ وہ اس بات کو بھی عوام کے سامنے لائے،لیکن ایسا کچھ نہیں
ہوگا،کوئی قانون عوام کے درمیان متعارف نہیں کرایا جائے گا،اگر یکساں سول
کوڈ نافذ بھی ہوگا تو وہ عوام پر تھوپا جائے گا،اور یہ ملک ہندوستان کی
اقلیتوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے۔ بات واضح ہے کہ حکومت مستقل طور پر عوام
کے اذہان کو تقسيم رکھنا چاہتی ہے، تاکہ عوام حکومت کی نااہلی سے واقف نہ
ہو سکے اور روز بروز بڑھتی مہنگائی سے چھٹکارے کی کوئی سبيل نہ پیدا کرسکے،
اس کام میں میڈیا اینکرز حکومت کے شانہ بشانہ ہیں،اور حکم کے منتظر ہیں کہ
جب موقع ملے اور جیسا بھی ملے اس سے عوام کو بہکایا جائے۔ |
|