تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن اور علی گڑھ
یونیورسٹی کے طالبعلم جناب سردار حسین صدیقی صاحب مرحوم سے میں نے پوچھا کہ
آپ نے جب علی گڑھ یونیورسٹی سے گریجویشن کی ڈگری حاصل کی، پھر محکمہ پولیس
میں بحیثیت انسپکٹر تعنیات ہوئے اور اپنے منصب پر یمانداری و خلوص کیساتھ
فرائض انجام دے رہے تھے تو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سن انیس سو
چھپن میں بھارت سے پاکستان کیوں ہجرت کی جبکہ آپ کا خاندان وہیں رہا، میرے
اس سوال پر جناب سردار حسین صدیقی صاحب مرحوم نے کہا کہ انھوں نے اپنےزمانہ
تعلیمی میں قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کے رفقائے کاروں کی سرپرستی میں
تحریک پاکستان کیلئے بھارت کے کریہ کریہ شہر شہر تحریک پاکستان اور قائد
اعظم محمد علی کے مشن کو پھیلا جبکہ اس تحریک کے دوران مکمل تعلیم پر توجہ
بھی دیتے رہے کیونکہ قائد اعظم کو تعلیم یافتہ اور طالبعلم بہت پسند تھے
آپ علم کی روشنی اور قدر سے واقف تھے اسی لیئے آپ نے تحریک پاکستان کے
مشن میں شامل تمام طالبعلموں کو اپنی تعلیم پر بھرپور توجہ رکھنے کی تلقین
بھی کی تھی ، قائد اعظم چاہتے تھے کہعلی گڈھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ کی
تعلیم کا حرج نہ ہو اور وہ اپنے فارغ اوقات میں بھرپور انداز میں تحریک
پاکستان کے مشن کو آگے بڑھائیں۔۔ جناب سردار حسین صدیقی صاحب مرحوم نےمجھے
بتایا کہ سن انیس سو چھپن میں وہ بھارت سے ہجرت کرکے خیرپور میرس ریاست میں
آباد ہوئے اور انھوں نےیہاں محکمہ تعلیم کو فوقیت دی چاہتے تو وہ پولیس
میں تقرری حاصل کرسکتے تھےلیکن محکمہ تعلیم کو فوقیت دی،اس کی وجہ انھوں نے
یہ بتائی کہ وہ تعلیم کے ذریعے اپنے قوم میں شعور اجاگر کریں گے اور انھوں
بہتر تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں گے، ابتدا میں وہ خیرپور میرس کے بہت
بڑے اسکول ناز پائلٹ ہائی اسکول میں بحیثیت استاد تقرر ہوئے ، اس دور میں
تعلیمی درسگاہوں میں سیاسی مداخلت قطعی نہیں تھی ، تمام قوم کے بچے اور
اساتذہ کرام اس طرح اپنی ڈیوٹی دیتے تھے جیسے کہ وہ عبادت کررہے ہوں ،
سردار صاحب کے مطابقایمانداری کیساتھ اپنی ڈیوٹی سر انجام دینا بھی عین
عبادت ہے کیونکہ جو ذمہ داری عائد کی جائے اس کے بدل حکومت مشاہرہ بھی دے
تو لازم ہے کہ اپنے ڈیوٹی سچائی ، خلوص اور ایمانداری کیساتھ ادا کی جانے
چاہیئے، آپ نے سن انیس سو اٹھہتر میں بپریالو کے گورنمنٹ ہائی اسکول میں
پڑھایا ، سن انیس سو اکہتر میں گمبٹ کے پرنسپل گورنمنٹ ہائی اسکول میں
رہےپھر سن انیس سو تیہتر میں سکرنڈ کے ایگریکلچرل اینڈ ایلمینٹری کالج میں
پرنسپل رہے پھر سن انیس سو پچھہتر میں سکرنڈ کے سکرنڈ کے ایلمینٹری کالج
کوحکومت سے اجازت کے بعد میرپورخاص منتقل کیا، کچھ عرصہ یہاں پرنسپل رہے
پھر میرپورخاص میں بالترتیب ایس ڈی او تھرپارکر، ڈپٹی ڈی ای او، ای ڈی او
اور پھر ڈی او کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد سبکدوش ہوگئے۔۔۔!! انھوں نے
بتایا کہ جب تک ہر افسر اور ہر استاد اپنی اپنی ذمہ داری کو ایمانداری
کیساتھ ادا کرتا رہے گا ہمارے طالبعلم بہترین مستقبل بناتے رہے ہیں اور اس
ملک کیلئے بہترین سرمایہ ثابت ہونگے، جب ان سے پوچھا کہ جائز کام کیلئے
رشور دینا مجبوری بن گیا ہے تو انھوں نے کہا کہ اس عمل کی روک تھام کیلئے
اپنے افسران کو بتایا جائے کوئی نہ کوئی تو ضرور ایماندار ہوگا اس کی
مداخلت سے رشوت خور اپنی ڈیمانڈ سے باز آجائے گا ،ان کے مطابق حکومت وقت
اور وزیر تعلیم کے ساتھ سیکریٹری تعلیم کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اساتذہ
کرام کے پروموشن، تقرر، بقایاجات کے عمل کو آسان بنایا جائے اور اساتزہ
کرام کے جائز کاموں کو رشوت سے پاک رکھا جائے کیونکہ استاد کا منصب بہت
حساس اور احترام کا ہوتا ہے رہی بات اے جی سندھ یعنی اکاؤنٹینٹ جنرل سندھ
کے ادارے کی جہاں کلرک اور ایڈیٹرزصاحبان رشوت کیلئے ہمہ وقت منہ کھولے
رہتے ہیں اس کی سب سے پہلے بندش ہونی چاہیئے ، تحریک پاکستان کے کارکن اور
سابق ماہر تعلیم جناب سردار حسین صدیقی صاحب مرحوم کے مطابق کسی بھی ملک کی
ترقی کا دارومدار دو محکموں پر محیط ہوتا ہے ایک محکمہ صحت دوسرامحکمہ
تعلیم۔۔!! جب قوم کے بچوں کی صحت اچھی ہوگی تو وہ غیر حاضر نہیں ہونگے اور
اپنے ذہن کو پڑھائی مین توجہ کیساتھ مرکوز رکھ سکیں گے دوسرا بہتر تعلیمی
نظام سے اچھی اور کامیاب تعلیم دی جاسکتی ہے ، سرکاری درسگاہوں میں طالبہ
کیلئے بنیادی ضروریات، روشنی ، پانی، ڈیکس اور صفائی و ستھرائی ہونا ضروری
ہے۔۔!! معزز قائرین ! جناب سردار حسین صدیقی صاحب مرحوم کے متعلق میں نے جب
تحقیق کی تو بتا چلا کہ اپنے زمانے میں شہر کے عمائدین اور سوشل لوگوں سے
ان لوگوں کی فہرست تیار کرواتے تھے جو شہر میں تعلیم یافتہ، غریب اور ضرورت
مند ہوں سردار صاحب اس فہرست کی تحقیق کے بعد ان ذہین لوگوں کےبلا معاوضہ
تقرر نامے جاری کرتے تھے، سردار صاحب کا ایک عمل یہ بھی تھا کہ مستحقین اور
نادار طالبعلموں کی فیس کیلئے ایک کمیٹی بنائی ہوئی تھی جو تحقیق کے بعد
صاحب استحقاق سے ان طالبعلوں کی فیس ، کتابیں دی جاتی تھیں۔۔!! جناب سردار
حسین صدیقی صاحب مرحوم نے بتایا تھا کہ تعلیمی اداروں میں کسی بھی قسم کی
سیاست تعلیم کو تباہ و برباد کرنے کی مترادف ہے تعلیم کا سیاست سے کوسوں
دور کوئی واسطہ نہیں۔۔۔۔ ۔۔!! معزز قائرین ! آج ہم جس طرح پستی در پستی کی
جانب بڑھتے جارہے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ وزرات تعلیم اور وزرات صحت میں
براہ راست سیاسی مداخلت ہے ، سیاسی مداخلت کی وجہ سے جہاں کرپشن، لوٹ مار،
نا اہل لوگوں کی بھریاں شامل ہیں وہیں تعلیمی اداروں کی بلڈنگ کی خستہ و
بری حالت، اسپتالوں کی ناقص ادویات اور اسٹاف کی کمی شامل ہے، ان سب سے
زیادہ وہ عوامل جو سیاسی آشیروار کے تحت ہیں ان میں گھوسٹ ملازمین کا عمل
ہے، شہروں میں تو کمیٹیاں تشکیل دیکر چھاپوں اور دوروں کے دوران کچھ بہتری
لائی گئی ہے مگر اسی سے زائد علاوہ دیہی ان چھاپوں اور تفتیشی محکمہ جاتی
افسروان کے دوروں سے محفوظ ہے کیونکہ زیادہ تر دیہی علاقوں میں خود وزرا،
مشیران اور ان کے حامیوں کے اسکولوں اور اپستالوں پر قبضے ہیں جن پر کہیں
گودام بنائے ہوئے ہیں تو کہیں بھینس و گائے کے باڑے،گویا دوسروں کو ڈانٹ
اپنوں کو بانٹ کے مترادف جو نا انصافی کا عمل جاری تھا جوں کا توں قائم ہے۔۔۔!!
سینئرٹی لسٹ کے تحت پروموشن نہیں کیئے جاتے ، چوری چھپے رشوت کے بعد مخصوص
افرادوں کا پروموشن، ایرئیرز پاس کردیئے جاتے ہیں !! صوبائی وزرا ہوں یا
وفاقی وزرا اپنے اپنے سیاسی جماعت کی ترویج، فوائد اور ترجیحات پر کام کرتے
نظر آتے ہیں سرکاری امور کی ذمہ داری لینے کے باوجود اپنی سیاسی جماعت کے
کارکنان کی طرح نظر آتے ہیں ابھی تک پاکستانی عوام کو سب کے سب دھوکہ دے
رہے ہیں ،ہم اُس وقت تک ترقی یافتہ نہیں ہوسکتے جب تک ہمارا نظام بہتر نہ
بن جائے ،اب سوال یہ ہے کہ کون بنائے گا وہ جو خود کرپٹ ہیں یا پھر عوام
خود؟؟؟ ۔۔۔!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! ! |