اب ہوگا دمادم مست قلندر

گزشتہ سے پیوستہ 20 اکتوبرجمعرات کے روز سپریم کورٹ آف پاکستان نے ’’پانامہ لیکس‘‘ تحقیقات کے معاملے پر پاکستان تحریک انصاف ، جماعت اسلامی ، عوامی مسلم لیگ اور طارق اسد ایڈوکیٹ کی وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی نااہلی سے متعلق 4 درخواستیں باقاعدہ سماعت کے لئے منظور کرتے ہوئے وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف ، وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار ، وزیر اعظم کی صاحب زادی مریم نواز ، داماد کیپٹن (ر) صفدر ، حسن نواز ، حسین نواز ، D.G.F.I.A ، چیئرمین F.B.R(فیڈرل بورڈ آف ریو نیو)، چیئرمین نیب اور اٹارنی جزل اشتر اوصاف سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کردیئے ہیں اور ان درخواستوں کی سماعت یکم نومبر بروز منگل کو مقرر کرکے وزیر اعظم سمیت تمام فریقین کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کردی ہے ، تاکہ پانامہ لیکس پر کار روائی کو آگے بڑھایا جاسکیاور ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاسکے ۔ کیس کی سماعت چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں تین رکنی بینچ کرے گا۔

یاد رہے کہ پانامہ دستاویزات 11.5 ملین خفیہ کاغذات پر مشتمل ہیں ٗ جو قانونی مشاورت کے لئے قائم کی گئی کمپنی ’’موساک فونسکا ‘‘ نے تیار کی تھیں ۔ اور چوں کہ’’موساک فونسکا‘‘ کمپنی ’’پانامہ‘‘ میں قائم ہے اس لئے ان دستاویزات کو ’’پانامہ لیکس‘‘ کا نام دیا گیا ہے ۔ ’’موساک فونسکا‘‘ کمپنی کے پوری دنیا میں 40 دفاتر قائم ہیں اور یہ دنیا کی چوتھی بڑی قانونی مشاورتی فرم(Firm) تسلیم کی جاتی ہے ۔ یہ فرم دنیا بھر میں اہم شخصیات کے اثاثے چھپانے اور انہیں ٹیکس چوری میں مدد دینے کے حوالے سے بدنام زمانہ ہے ۔

اطلاعات کے مطابق 2015 ء میں ایک جرمن اخبار نے اس کی متعدد دستاویزات ’’ انٹر نیشنل کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس ‘‘ کے حوالے کردیں جو اس سے قبل اسی اخبار کے ساتھ آف شور لیکس ، لکس لیکس اور سوئس لیکس پر کام کرچکا تھا ۔ ان پیپرز کی تحقیق کی گئی تو اس میں بھی کچھ پاکستانیوں کے نام سامنے آئے ، جن میں اہم حکومتی شخصیات کے قریبی رشتہ دار بھی شامل ہیں ، چناں چہ یہ معلومات سامنے آنے کے بعد اپوزیشن نے مطالبہ کرنا شروع کردیا کہ ’’پانا مہ لیکس‘‘ کی تحقیقات ہونی چاہئیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ یہ رقوم ملک سے باہر کیسی گئیں ؟ چناں چہ مذکورہ بالا درخواستیں عدالت عظمیٰ میں اسی حوالے سے دائر کی گئی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ سپریم کورٹ کی جانب سے ’’پانامہ لیکس‘‘ کی تحقیقات کے حوالے سے دائر کی گئی آئینی درخواستوں کی سماعت اور تحقیقات کے عمل کو آگے کی طرف بڑھانے کے لئے وزیر اعظم اور ان کے دیگر ساتھیوں کو نوٹس جاری کرنے سے تحریک انصاف کا ایک بڑا مطالبہ پورا ہونے جارہا ہے ۔ اچھا ہے کہ اب اس معاملے میں فیصلہ عدالت میں ہوگا ، کیوں کہ عدالت کا فیصلہ طوعاً وکرھاً بہرحال سب ہی کوتسلیم کرنا پڑے گااور اس طرح ’’پانامہ لیکس‘‘ کا یہ مسئلہ کشمیر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے حل ہوجائے گا۔

اگرچہ یہ ا مر بھی خو ش آئند ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پانامہ پیپرز کے حوالے سے سپریم کورٹ کی جانب سے انہیں ، ان کے بال بچوں اور دیگر متعلقہ اداروں کے سربراہان کو نوٹس کے اجراء اور کیس شروع ہونے کا خیر مقدم کیا ہے اور کہا ہے کہ : ’’عوامی عدالتیں ہمارے حق میں فیصلہ دی چکی ہیں اب عدالتی حکم کا بھی انتظار کرلیں گے ۔ پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے حوالے سے سپریم کورٹ میں کار روائی کے آغاز کا میں کھلے دل سے خیر مقدم کرتا ہوں اور آئین کی پاس داری ، قانون کی حکمرانی اور مکمل شفافیت پر کامل یقین رکھتا ہوں ۔‘‘ لیکن ہمارے خیال میں اسی سال جب اپریل کے مہینہ میں ’’پانامہ لیکس ‘‘ کانیا نیا انکشاف ہواتھا اور وزیر اعظم کے صاحب زادوں اور دیگر لوگوں کے نام اور دستاویزات سامنے آئی تھیں تو اسی وقت یہ معاملہ وہ از خود عدالت میں لے جاتے اور اس حوالے سے اپنی صفائی پیش کردیتے، لیکن نہ ان کی طرف سے ایسا کوئی اقدام کیا گیا اور نہ ہی سپریم کورٹ نے اس حساس اور ایک اہم عوامی معاملے کا از خود نوٹس لینے کی کوئی زحمت گوارا سمجھی ۔

اُدھر دوسری طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان 2نومبر کو دھرنا دینے کے اپنے مؤقف پر بدستور ڈٹے ہوئے ہیں اور وہ اس حوالے سے ملک بھر میںP.T.I کے کار کنوں اور ووٹرز کو متحرک کرنے کے لئے دن رات ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں ، جب کہ دوسری جانب عمران خان کا یہ دھرنا روکنے کے لئے حکومت نے بھی اپنی الٹی سیدھی قلابازیاں مار نا شروع کردی ہیں ، اب ہوگا دمام دم مست قلندر ، حکومت نے دھرنا روکنے کے لئے سب سے پہلے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست دائر کرائی جسے سپریم کورٹ نے یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ : ’’ہم اس سیاسی مسئلے میں نہیں پڑیں گے۔‘‘ اور ساتھ ہی ’’پانامہ لیکس ‘‘ کے معاملے پر وزیر اعظم کو نوٹس بھی جاری کردیا ۔ جس صاف مطلب یہ ہے کہ 2 نومبر کو عمران خان کا احتجاج اور دھرنا لازمی ہوکر رہے گا۔

لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ارباب حکومت اور تحریک انصاف کے قائدین کوہوش کے ناخن لیتے ہوئے سنجیدگی و متانت سے سب سے پہلے تو عام شہریوں ، سرکاری ملازمین ، اجنبی مسافروں وغیرہ کے حقوق عامہ کا ادراک کرتے ہوئے مذاکرات کی میز پر اکٹھا ہونا چاہیے اور ان معاملات کو مثبت اور نرم انداز میں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے کہ نرمی گرمی کو کاٹتی ہے اور گرمی گرمی کو بڑھاتی ہے ۔ لیکن اگر ایسا کسی صورت نہیں ہوسکتا توپھر تحریک انصاف کی انتظامیہ سے ہماری دست بستہ یہ گزارش ہے کہ وہ کم از کم دھرنا دینے کے لئے کسی ایسی جگہ کا انتخاب کرے کہ جس کی وجہ سے عام شہریوں ، غریب مزدوروں اور اجنبی مسافروں کے روز مرہ کے معمولات اور حکومتی امور اور معاملات کے رواں دواں رہنے میں کسی بھی قسم کا کوئی حرج واقع نہ ہو اور اس کاچلتا ہوا پہیہ بدستور چلتا رہے ۔ اس لئے کہ ایسا احتجاج کرنا یاایسادھرنا دینا کہ جس سے عام شہریوں ، اجنبی مسافروں اور غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوتی ہو یا اس سے موجودہ وقت کے حکومتی رواں دواں امور کاپہیہ جام ہوتا ہو یادیگر معاملات کسی بھی طرح متاثر ہوتے ہوں اسے مہذب دنیا میں کوئی قابل قدر کار نامہ یا تاریخ ساز فتح ہر گزنہیں کہتا ، اس لئے کہ یہ شریف النسب اور اصل النسل لوگوں کی روش اور ان کا شیوہ نہیں ہے۔
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 278937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.