وزیر اعظم نریندر مودی نے جس
روز(18اکتوبرکو) پاکستان کے خلاف ہندوستان کے سرجیکل اسٹرائک کو (فلسطین کے
خلاف)اسرائیل کے ٹارگیٹ حملوں سے تعبیر کیااسی روز مجھے ’مشرق وسطی اور
ہندوستان‘ کے موضوع پر منعقد ہونے والے ایک ’ہائی لیول‘گروپ ڈسکشن
(مذاکرہ)میں حصہ لینے کا موقعہ ملاتھا۔میں نے اس مذاکرہ کو ’ ہائی لیول
گروپ ‘کامذاکرہ اس لئے کہا کہ اس میں بی جے پی کے کم سے کم دوممبران
پارلیمنٹ‘وزارت خارجہ کے ایک افسر اعلی‘لندن اور جرمنی سے تعلق رکھنے والے
بین الاقوامی امور کے دوماہرین‘کئی مسلم دانشور‘ایک دوصحافی اور صوفی پیس
فاؤنڈیشن کے ایک اعلی عہدیدارنے شرکت کی تھی۔اس کے علاوہ اس مذاکرہ میں اور
بھی بہت سے نامانوس سے چہرے تھے اور ممکن ہے کہ ان میں کچھ ’خبریں‘اکٹھا
کرنے والے لوگ بھی ہوں۔
میں اس مذاکرہ میں مشرق وسطی اور ہندوستان جیسے موضوع پرانگریزی میں ہونے
والی زورداربحثوں کے تانے بانے تلاش کرنے اور زلف گرہ گیر کو سلجھانے کی
کوشش کر ہی رہا تھا کہ وزیر اعظم نے میرا یہ کام آسان کردیا۔انہوں نے
پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کو اسرائیل کے حملوں کے مماثل قرار دے کر
یہ واضح کردیا کہ فلسطین کے تعلق سے ہندوستان کی اب وہ پالیسی نہیں رہی
جوگاندھی اور نہرو کے زمانے سے چلی آرہی تھی اور جس پر کم سے کم کانگریس کے
اقتدار والی حکومتیں قائم تھیں۔ہندوستان ناوابستہ تحریک کا ایک ممبر ہے۔اس
نے اسرائیل کے مقابلے خانماں برباد فلسطینیوں کا ساتھ دیااوراسرائیل کو
ظالم تصور کیا۔اسرائیل نوازوزراء اعظم چندر شیکھراور نرسمہاراؤگوکہ اسرائیل
سے سفارتی تعلقات قائم کرنے کی بدعت کے مرتکب ہوئے تھے لیکن فلسطینیوں سے
تھوڑا بہت ناطہ انہوں نے ضرور باقی رکھا تھا۔مگر اب ایسا لگتا ہے کہ
ہندوستان نے یہ ناطہ عملاً توڑ لیا ہے۔زیر نظر موضوع ٹیڑھا ضرور ہے لیکن
ناقابل فہم نہیں ہے۔میں نے ان دوپیراگراف میں جو دونکات بیان کئے ہیں ان کے
ساتھ اگر ایک تیسرا نکتہ اور جوڑ لیا جائے تو بات اور زیادہ واضح اور آسان
فہم ہوجائے گی۔
15اکتوبرکوامریکہ میں صدارتی الیکشن کے اسلام دشمن امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ نے
نیوجرسی میں ریپبلکن ہندواتحادکی کانفرنس میں شرکت کرکے جو اشارہ دینا تھا
وہ دیدیا۔میری معلومات کے مطابق امریکہ کی ماضی قریب کی تاریخ میں یہ پہلی
بار ہوا ہے کہ صدارتی الیکشن کا کوئی امیدوارانتخابی مہم کے دوران فرقہ
وارانہ بنیادوں پرمنعقد ہونے والی کسی کانفرنس میں شریک ہوا ہو۔یہ بھی پہلی
ہی بار ہوا ہے کہ ہندوستان کے غیر مقیم ہندوؤں نے فرقہ وارانہ خطوط
پرصدارتی امیدوارکی حمایت کا اعلان کیا۔اس اتحاد کے صدرشلبھ کمار شلی کا پس
منظر آر ایس ایس سے وابستہ ہے۔اب ان نکات کی بنیاد پر آئیے آگے بڑھتے
ہیں۔میں 18اکتوبر کو دہلی کے ’ڈپلومیٹ‘ہوٹل میں منعقد ہونے والی اس کانفرنس
میں موضوع کی اہمیت کو ذہن میں رکھتے ہوئے شریک ہوا تھا۔میرا خیال تھا کہ
جب مشرق وسطی کا ذکر آئے گا توفلسطین کا ذکر بھی ضرور آئے گا۔مجھے یہ جاننے
میں دلچسپی تھی کہ غیر ملکی مبصرین کے ساتھ ساتھ خود ہمارا ملک اب اس مسئلہ
پر کیا سوچتا ہے۔
کانفرنس کے آغازمیں اوول آبزرورفاؤنڈیشن کے نائب صدرسنمت آہوجہ نے کہا کہ
اس وقت مشرق وسطی جن مسائل سے دوچار ہے ان میں اقتصادیات‘تارکین وطن‘پیٹرول
اور آئی ایس آئی ایس(داعش)کے اشوز شامل ہیں۔ان موضوعات پرکلیدی خطبہ ‘درہم
یونیورسٹی(لندن)کے پروفیسرڈیوڈہیلڈنے دیا۔انہوں نے کہا کہ نائن الیون کا
سانحہ بہت ہی برا تھا لیکن اس کی بنیاد پر امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے
دوسرے ممالک میں جو عسکری مداخلت کی اس کا کوئی جواز نہیں تھا اور تمام
مسائل اسی وجہ سے پیدا ہوئے۔انہوں نے لیبیا اور عراق کی خوفناک ترین
صورتحال کا ذمہ دار امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو قرار دیا۔پروفیسر ڈیوڈ نے
کہا کہ جب غیر ملکی مداخلت سے کسی ملک کا حکمراں تبدیل ہوتا ہے تووہاں
افراتفری مچ جاتی ہے۔اس سلسلہ میں خود میراتجزیہ یہ ہے کہ عرب ملکوں کے
عوام کا مزاج اس طرح کا ہے کہ وہ اپنے روایتی حکمراں خاندانوں کے مطیع رہتے
ہیں اور اس نظام میں کوئی تبدیلی ہوتی ہے تووہ سرکش ہوجاتے ہیں۔لہذاان کے
حکمرانوں کو تبدیل کرنامسائل کا حل نہیں۔لیکن اس اصول سے میں شام کے قاتل
بشار الاسد کو مستثنی رکھتا ہوں۔جو حکمراں اپنے عوام کے گلے کاٹے اور جو
انہیں اسلام دشمن ملکوں کی مددسے مہلک گیس کا استعمال کرکے ختم کرادے اسے
اقتدار میں رہنے کا حق ہی نہیں۔لیبیا کے حکمراں کرنل معمرالقذافی‘عراق کے
صدر صدام حسین اور مصر کے صدر حسنی مبارک کتنے ہی آمر سہی لیکن انہوں نے
اپنے ملکوں کو ترقی کی ڈگر پر ڈالااور اپنے عوام کا بے جا خون نہیں
بہایا۔اقتدارمیں رہنے کے لئے حکمراں اپنے سیاسی مخالفین پر شکنجہ ضرورکستے
ہیں لیکن عوام کی ضرورتوں کا بھی خیال رکھتے ہیں۔ایسے میں جب غیر ملکی
طاقتیں ان حکمرانوں کو اکھاڑ پھینکتی ہیں تومعاشرہ بے راہ رو ہوجاتا ہے اور
سماجی آزادی کے نام پرافراتفری مچ جاتی ہے۔پروفیسر ڈیوڈ نے میرے اسی خیال
کی تائید کی اور دہشت گردی اور دوسرے مسائل کے لئے امریکہ اور اس کے
اتحادیوں کو ذمہ دار قرار دیا۔انہوں نے ایک اور دلچسپ بات بتائی کہ امریکہ
میں دہشت گردانہ واقعات کے مقابلے گن کلچر کے سبب لوگ زیادہ مارے جاتے
ہیں۔انہوں نے یہ مشورہ بھی دیا کہ مشرق وسطی کے معاملات میں شامل ہوتے وقت
ہندوستان کو بڑی احتیاط کی ضرورت ہے۔
میں یہاں وزارت خارجہ کے اس سینئر افسر کا نام مصلحتاً نہیں لکھوں گا۔لیکن
اس افسر نے جو کچھ کہا اسے سن کر نہیں لگا کہ وہ نریندر مودی کی حکومت کا
ایک اہل کار ہے۔اس نے کہاکہ ہندوستان کثیرثقافتی مذہبی ملک ہے‘دوسرے ملکوں
کے معاملات میں اس کی مداخلت کی پالیسی نہیں ہے اور یہ کہ متنازعہ اشوز پر
ہم جنگ نہیں مذاکرات چاہتے ہیں۔مگر مشرق وسطی کا ذکر کرتے وقت اس افسر نے
بھی فلسطین کا ذکر نہیں کیا۔تاہم دہشت گردی کے تعلق سے اس نے کہا کہ اس کا
مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور یہ کہ جونوجوان گمراہ ہوگئے ہیں ان سے مذاکرات
کرکے انہیں واپس لانے کی ضرورت ہے۔اس افسر نے یہ بھی کہہ دیا کہ ناانصافی
ہی دہشت گردی کا اصل سبب ہے۔صوفی پیس فاؤنڈیشن کے صدر حفیظ الرحمن نے مشرق
وسطی کے معاملات میں ہندوستان کی شمولیت کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے مشرق
وسطی کے معاشرہ میں کشا کشی اور تصادم کے لئے سعودی عرب‘ترکی اور ایران کو
ذمہ دار قرار دیا۔میں سعودی عرب کے دفاع پر مامور نہیں ہوں لیکن مجھے حیرت
ہوئی کہ ایران کے مقابلہ میں سعودی عرب کو کیسے اس صورت حال کا ذمہ دار
قرار دیا جاسکتا ہے۔سعودی عرب اس وقت یمن میں باغیوں پر اتحادی فوجوں کے
حملوں کی قیادت کر رہا ہے تو اس کے کچھ اسباب ہیں۔ایران ‘یمن کے باغیوں اور
حوثیوں کو کمک فراہم کرکے سعودی عرب کے لئے خطرات پیدا کر رہا ہے۔یہاں تک
کہ سعودی صوبہ قطیف میں اس کے متعددجاسوس پکڑے گئے ہیں۔سعودی عرب کے بعض
شہری ایران کی سرگرم مددپاکروہاں افراتفری پیدا کرتے رہے ہیں۔یہاں تک کہ
بعض ایرا نی مددیافتہ سعودی علماء‘مسلکی منافرت پھیلاتے رہے ہیں۔سعودی عرب
یمن کے علاوہ کہیں اور اس سرگرمی کے ساتھ ملوث نہیں ہے۔جبکہ ایران ‘لبنان
میں حزب اﷲ کی سرگرم مددکر رہا ہے‘شام میں قاتل بشار کی مددکر رہا ہے‘یہاں
تک کہ بلیک میلر روس کے ساتھ مل کر شام کے بے گناہ شہریوں پر حملے کرارہا
ہے۔اپنے یہاں ناکام بغاوت کے بعداس عمل میں ترکی بھی شامل ہوگیا ہے۔عراق
میں مسلسل سماجی افراتفری اور مسلکی منافرت کے لئے ایران کا کردار کسی سے
مخفی نہیں ہے۔ایسے میں ایران کے ساتھ سعودی عرب کو لعن طعن کا نشانہ بنانا
فہم سے بالا تر ہے۔
مذکورہ کانفرنس میں مجھ سے بھی اپنا خیال رکھنے کو کہا گیا لیکن میں اس
خیال سے خاموش رہا کہ اگر میں نے فلسطین کا ذکرکیا تو شاید اس کی بات بھی
چھڑ جائے لیکن اس صورت میں مجھے یہ علم نہیں ہوسکے گاکہ فلسطین کے تعلق سے
اب ہندوستان کیا سوچتا ہے۔لہذا وہی ہوا۔آخر تک کسی کے لب پر یہ ذکر نہیں
آیا۔ہوش سنبھالنے کے بعد سے کچھ برس پہلے تک جب بھی ہم مشرق وسطی کا ذکر
سنتے تھے تو لازمی طورپراس کا پس منظر فلسطین اسرائیل کا قضیہ ہوتا
تھا۔لیکن آج صورت حال بدل گئی ہے۔آج نہ کوئی ظالم اسرائیل کو برا کہتا ہے
اور نہ مظلوم فلسطینیوں سے اظہار ہمدردی کرتا ہے۔وزیر اعظم کے ذریعہ
پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائک کو اسرائیل کے حملوں سے تعبیر کرنا اتفاق
نہیں ہے۔یہ جملہ ان کی مکمل خارجی اور داخلی پالیسی کا عکاس ہے۔اور وہ یہ
کہ اب ہندوستان کی نظر میں فلسطینی ناپسندیدہ ہیں ۔بالکل اسی طرح جس
ہندوستان کے مسلمان اب ایک ناپسندیدہ قوم بن گئے ہیں۔سابق نائب وزیر اعظم
لال کرشن اڈوانی اپنے اقتدار کے دوران یہ جاننے کے لئے اسرائیل گئے تھے کہ
اسرائیل نے فلسطینیوں کو کس طرح کچلا۔لہذا اس کے بعداسرائیل کے سیکیورٹی
اہلکارہمارے جوانوں کو تربیت دینے کے لئے مدعو کئے گئے تھے۔ہمارے موجودہ
وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ بھی اسرائیل کا دورہ کرچکے ہیں۔اس حکومت میں جس
طرح فلسطینی ایک ناپسندیدہ اور ناقابل ذکر اکائی بن چکے ہیں اسی طرح
ہندوستانی مسلمان بھی ناپسندیدہ اور ناقابل ذکر اکائی بن چکے ہیں۔اسی لئے
اس حکومت نے ان کے سامنے مسائل کا جھرنا کھول دیا ہے۔اور ہم ہیں کہ اب بھی
اس صورت حال پر متفکر نہیں ہیں۔پچھلے دنوں طلاق ثلاثہ اور پرسنل لا کے
معاملہ پر جس طرح ہر مکتب فکر کے علما حکومت کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر آگئے
تھے کیا اس مجموعی صورت حال سے لڑنے کے لئے بھی وہ اسی طرح ایک پلیٹ فارم
پر آسکیں گے؟یہ خیال آتے ہی روح لرز جاتی ہے۔اپنے اہداف کو پانے کے لئے
دوازلی دشمن قومیں‘یہودونصاری ایک ہوجاتی ہیں لیکن اپنے اہداف کو پانے کے
لئے مسلمان ایک ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ |