گزشتہ دنوں سندھ حکومت نے ایک نو ٹی فیکیشن
کے ذریعے کے ایم سی کو کے ڈی سے الگ کر دیا۔ کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو
سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا دیا گیا۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو
سندھ حکومت نے براہ راست اپنے کنٹرول میں لے لیا۔ سندھ اسمبلی میں قانون
سازی کر کے میئر کراچی کے اختیارات محدود کر دیا گیا اور میئر کراچی کے
اختیارات کو صرف سوئپرز اور کچرا اٹھانے والی چند گاڑیوں تک محدود کر دیا
گیا۔ کراچی سے جمع ہونے والا اربوں روپے کے سیلز ٹیکس میں کراچی کے اوپر
ایک دھیلہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا ۔ یہ شکوے اتوار کو ڈاکٹر فاروق ستار نے
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کئے اور سو دنوں میں کراچی کے شہریوں کے
مسائل حل کرنے کی ذمہ داری اٹھائی ہے۔ بقول ڈاکٹر فاروق ستار سو دنوں میں
ایم کیو ایم پاکستان، کراچی کے پانی ، سیوریج اور سڑکوں کے مسائل حل کرنے
کی بھر پور کوشش کی جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ یہ مسائل ایم کیوایم کے منتخب
ایم پی ایز، ایم این ایز او رڈپٹی میئر کراچی سمیت بلدیاتی نمائندے اپنے
فنڈز سے حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ ساتھ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہا کہ وہ
وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ مسائل حل کرنے کے
لئے فنڈز فراہم کریں۔ یہاں افسوس ناک بات یہ ہے کہ ایک مرتبہ پھر ایم
کیوایم شہرمیں عوامی مسائل کی بنیاد پر سیاست کرنے نکلی ہے۔ کراچی میں
سیوریج اورتباہ حال سڑکوں کے مرمتی کاموں کے لئے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں
روپے چاہئیں جو ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ٹیم کے پاس نہیں ہیں لہذا یہ طے
ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار اور ایم کیوایم پاکستان کے رہنما اور منتخب نمائندے
سو دن کے بعد ایک اور پریس کانفرنس کریں گے اور یہ شکوہ کریں گے کہ فنڈز کی
عدم دستیابی کی وجہ سے وہ چاہنے اور تمام تر کوششوں کے باوجود عوامی مسائل
حل نہیں کر سکے۔ ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ٹیم کو عوامی مسائل حل کرنے کا
خیال اس وقت آیا کہ جب ایم کیو ایم پاکستان کے کسی کے ساتھ معاملات طے ہونے
کے بعد ایم کیو ایم لندن کی عبوری رابطہ کمیٹی کے ارکان کو ایک ماہ کے لئے
جیل بھیج دیا گیا ہے قوی امکان ہے کہ بعد میں اس مدت میں اضافہ بھی کر دیا
جائے گا ۔دوسری طرف اندرون سندھ سمیت تمام شہری علاقوں میں ایم کیو ایم
لندن کے ورکرز کی گرفتاریاں شروع ہو گئیں تاکہ خوف ہراس پھیلا کر ایم کیو
ایم لندن کے ورکرز کو سیاسی سرگرمیوں اور عوامی رابطوں سے دور رکھا جائے۔
گویا کسی کی طر ف سے ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کی ٹیم کو کام کرنے کے لئے
کھلا میدان دیا گیا ہے ۔ اس دوران اصل ٹارگٹ عوامی مسائل حل کرنا نہیں بلکہ
کراچی سمیت سندھ بھر میں ایم کیو ایم پاکستان کے جٹریں مضبوط کرنا لگتا
ہے۔یہاں بہت اہم سوال یہ ہے کہ آج کراچی کے مسائل حل کرنے کے دعویدار یہی
ڈاکٹر فاروق ستار اور سندھ اسمبلی میں موجود خواجہ اظہار الحسن جیسے لوگ اس
وقت کیوں خاموش تھے کہ جب سندھ اسمبلی میں قانون سازی کے تحت میئر کے
اختیارات کو ختم کیا جا رہا تھا، جب کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ
بلڈنگ کنڑول اتھارٹی بنایا جارہا تھا، جب کے ڈی اے کے بارے میں بار بار یہ
شکوک اٹھائے جارہے تھے کہ یہ ادارہ باقی بھی رہے گا یا نہیں ؟ اس وقت
موجودہ ایم کیو ایم پاکستان کی پوری ٹیم خاموش بیٹھی رہی اور انھوں نے
اسمبلی میں زبانی جمع خرچ سے زیادہ کوئی بات نہیں کی، کوئی بھوک ہڑتال نہیں
کی ، کوئی متاثر کن احتجاج نہیں کیا۔ تقریبا ً پانچ سال یا اس سے کچھ عرصہ
کم ایم کیو ایم کی یہی قیادت پیپلزپارٹی کے ساتھ شریک اقتدار رہی اور
پیپلزپارٹی بلدیاتی اداروں کے سارے اختیارات سمیت کے بی سی اے اور دیگر
اداروں کو ان کی ناک کے نیچے بیٹھ کر ختم کرتی رہی لیکن ایم کیو ایم
پاکستان کی اس قیادت نے اپنی آنکھوں پر پٹیاں باندھ لیں اور زبانوں کو تالے
لگا لئے اور اقتدار کے مزے لوٹے رہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنی ابتدا سے آج تک
اس ایم کیو ایم نے جن مسائل اور ایشوز کی بنیاد پر کراچی اور سندھ کے شہری
عوام سے ووٹ لیا ، وہ مسائل کبھی حل کرنے کی کوشش تک نہیں کی۔ ہمیشہ نان
ایشوز کی سیاست کی۔ مثال کے طور پر الطاف حسین کو کسی مخالف سیاسی رہنما نے
کچھ کہہ دیا تو اس کے خلاف مہم شروع کردی، کسی کارکن کو گرفتار کر لیا گیا
تو اس پر شہر بند کر دیا گیا، کسی نے ایم کیو ایم کے رہنما کو گھور کر دیکھ
لیا تو شہر میں جلاؤ گھراؤ شروع کر دیا گیا وغیرہ وغیرہ ۔ ایم کیو ایم قومی
و صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ میں جانے کے بعد صرف اس بات پر خوشیوں کے ڈھول
پیٹی رہی کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں حکومت بنانے کے لئے، وزیراعظم اور
صدر کے انتخابات کے وقت نائن زیرو کے چکر لگاتی ہیں۔ ایم کیو ایم کی ان
خوشیوں کے دوران کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے عوام لٹے رہے ، پٹے رہے
، مرتے رہے ، کراچی کے باہر سے آئے لوگ کراچی کی زمینوں پر قبضہ کرتے رہے
اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں اور کارکنوں کو بھتے دیتے رہے مگر ایم کیو ایم
کی مرکزی قیادت خاموش رہی۔ آج جب ایم کیو ایم لندن یا ایم کیو ایم پاکستان
کی قیادت سے جڑے وہی لوگ یا گورنر سندھ اور مصطفی کمال کراچی کے مسائل حل
کی بات کرتے ہیں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔
|