اگر ضلع چکوال کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو اس
میں ہمیں ایک نام خان سرفراز خان کا نظر آتا ہے جو کہ قیام پاکستان سے پہلے
ممبر منتخب ہوئے اور ایک بہترین سیاست کی بنیاد ڈالی۔ اُن کا شمار چکوال کے
خالص خاندانی چوہدریوں میں ہوتا ہے۔ وہ صرف نام کے چوہدری نہیں تھے بلکہ
اُنہوں نے اُس زمانے میں کروڑوں کی جائیداد مفادِ عامہ کے لئے وقف کی جب
کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ اُن کی دی ہوئی زمین پر گورنمنٹ کالج اور
ہسپتال قائم کئے گئے۔ اُن کی نسل میں پھر شاہ جہان سرفراز راجہ سیاست میں
آئے اور پیپلز پارٹی کو جوائن کیا اور اب راجہ یاسر ہمایوں سرفراز نے
پاکستان تحریک انصاف کو جوائن کیا ہے اور اس میں ایک نئی رُوح پھونک دی ہے۔
اُن سے ایک تفصیلی نشست ہوئی اور قارئین کے لئے چند ایسی باتیں اُن سے
پوچھی گئیں جو کہ شاید عوام کے لئے ضروری تھیں۔ سیاست میں آنے کے حوالے سے
اُنہوں نے کہا کہ میں بنیادی طور پر زمیندار ہوں۔ سیاست کو میں پسند نہیں
کرتا تھا بلکہ یہاں تک کہ مجھے عمران خان کا سیاست میں آنا بھی پسند نہیں
تھا۔ مجھے عمران خان شروع سے بہت پسند تھے۔ لیکن جب اُنہوں نے شوکت خانم
ہسپتال مکمل کیا تو اُن کی اہمیت اور بھی زیادہ ہو گئی۔ میری ذاتی ملاقات
عمران خان سے ہوئی اور اُنہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں سیاست میں
آؤں تو پھر عمران خان میرے گھر تشریف لائے اور میں نے باضابطہ پاکستان
تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کیا، یہ فروری 2013ء کی بات ہے، اُس کے 3
ماہ بعد عام انتخابات تھے۔ میں نے الیکشن کی تیاری بھی نہیں کی تھی اور نہ
ہی میرے پاس کوئی تجربہ تھا لیکن اس کے باوجود 48 ہزار ووٹ لینے میں کامیاب
ہوا۔ ان 48 ہزار ووٹوں نے مجھے ایک نیا جوش اور ولولہ دیا۔ جب میں نے سوال
کیا کہ آپ کے والد خان سرفراز خان بھی سیاست میں تھے اور آپ کے فرسٹ کزن
شاہ جہان سرفراز راجہ بھی سیاست میں ہیں اور اب آپ بھی سیاست میں آگئے ہیں
کیا یہ موروثی سیاست کا فروغ نہیں؟ تو اس کا جواب دیا کہ ساری دُنیا میں
ایسا ہوتا ہے، امریکا میں بھی ایسا ہوتا ہے۔ اگر ایک اچھی چیز آگے بڑھ رہی
ہے تو اُس کو بڑھنا چاہئے۔ جب میں نے سوال کیا کہ اگر آپ منتخب ہو گئے تو
چکوال کے کون سے مسائل ہیں جن کو آپ بہتر کریں گے؟ تو اس کا بھرپور جواب
دیا کہ چکوال کا سب سے بڑا مسئلہ تعلیم ہے، چکوال میں ایک عالمی سطح کی
یونیورسٹی ہونی چاہئے، اس سے روزگار کے مواقع بھی نکلیں گے، صحت کا مسئلہ
بھی بہت بڑا مسئلہ ہے، ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے،
ہر تحصیل میں تحصیل لیول کے ہسپتال ہونے چاہئیں جبکہ بڑے دیہات میں ہیلتھ
یونٹ قائم ہونے چاہئیں۔ انہوں نے کہا کہ سیمنٹ فیکٹریوں سے وادی کہون کا
حسن تباہ ہوا ہے، یہ فیکٹریاں کسی اور جگہ لگنی چاہئے تھیں۔ جب میں نے
پوچھا کہ آپ باتیں تو غریب لوگوں کی کرتے ہیں مگر آپ کے اپنے سکول اور کالج
میں غریب کا بچہ داخل نہیں ہو سکتا تو بھرپور جواب دیا کہ میں امریکا سے
تعلیمی کا وژن لے کر آیا تھا، میرے دادا کا جو تعلیمی مشن تھا وہ بھی میرے
ذہن میں تھا، میں نے اپنے سکول اور کالج میں غریب بچوں کے لئے کچھ فنڈز
مختص کر رکھے ہیں اور جو باصلاحیت بچے ہوتے ہیں اُن کو اعلیٰ تعلیم کے لئے
باہر بھیجا جاتا ہے لیکن تمام طلباء و طالبات کے لئے تعلیم کو فری کرنا
میرے بس کی بات نہیں۔ میرے اس سوال پر کہ کیا ایک ایم این اے، ایم پی اے کو
اداروں کے معاملات میں دلچسپی لینی چاہئے، تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر
اداروں کو بہتر کرنا ہو تو ضروری دلچسپی لیں لیکن جس طرح تھانے کچہری کے
معاملات میں پڑنا کسی طرح بھی ٹھیک نہیں ہے، اگر میں منتخب ہوا تو میرے
ڈیرے سے کوئی پرچی کسی ادارے کو نہیں جائے گی۔ جب میں نے پوچھا کہ عمران
خان بار بار احتجاج کر کے اپنی اہمیت کھو رہے ہیں تو جواب دیا کہ وہ کرپشن
کے خلاف لڑ رہے ہیں، احتجاج کرنا اور اُس کو ریکارڈ کرانا اُن کا حق ہے، ہم
اُن کی ہر کال پر لبیک کہیں گے۔ جب میں نے سوال کیا کہ سردار غلام عباس کے
مسلم لیگ (ن) میں جانے سے پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ ہوا یا نقصان ہوا،
تو جواب دیا کہ اس سے پاکستان تحریک انصاف کو فائدہ ہوا، اُن کا چلے جانا
ہی بہتر تھا۔ وہ جب تحریک انصاف میں شامل ہوئے تھے تو اُن کو کور کمیٹی میں
شامل کیا گیا تھا اور کور کمیٹی میں صرف 10 ممبران ہوتے ہیں لیکن اس کے
باوجود وہ کچھ نہیں تھے۔ اب اُن کے جانے کا یہ مطلب نہیں کہ سارے ووٹ اُن
کو پڑ جائیں گے، چکوال میں ہمیشہ سردار اور اینٹی سردار ووٹ رہا ہے اور
اینٹی سردار ووٹ ہمیں ملے گا۔ جب میں نے یہ سوال کیا کہ کیا مسلم لیگ (ن)
چکوال کے انتخابی وعدے پورے ہو چکے ہیں، تو جواب دیا کہ آپ کے سامنے ہے کہ
انہوں نے یونیورسٹی بنانے کا وعدہ کیا، کیا وہ پورا ہو چکا؟ انہوں نے ایک
بہترین ہسپتال بنانے کا وعدہ کیا، کیا وہ پورا ہو چکا؟ انہوں نے واٹر
سپلائی کا وعدہ کیا، کیا وہ پورا ہو گیا؟ مندرہ چکوال اور سوہاوہ چکوال
روڈز آپ کے سامنے ہے؟ آخر میں جب میں نے پوچھا کہ 2018ء کے انتخابات میں آپ
چکوال کی عوام سے کیا توقع کرتے ہیں؟ تو جواب دیا کہ چکوال تعلیم میں سب سے
آگے ہے اور اس کا اب عوام کو ثبوت بھی دینا چاہئے، ووٹ میرٹ پر دیں تو
یقینا پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو گی۔ جب انٹرویو ختم ہوا تو میرے بار
بار منع کرنے کے باوجود وہ مجھے گاڑی تک چھوڑنے آئے، اُن کی اس بات نے میرے
دل میں بہت بڑی جگہ بنا لی۔ اﷲ تعالیٰ پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
|