کیسی آزادی .... کیسا جشن....؟

پاکستان کو آزاد ہوئے پورے تریسٹھ برس ہو چکے ہیں، ہم ایک تسلسل کے ساتھ آزادی کی حدوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے ”مادر پدر “ آزادی کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہیں، ایک ”قوم“ تو ابھی تک نہیں بن پائے لیکن ”قومیت“ کے چکر میں ایسی ایسی منزلیں سر کر چکے ہیں کہ آنے والی نسلیں یقیناً ہم پر فخر و غرور کریں گی۔ غریب اور لاچار عوام سے لے کر امیر و کبیر اور حکمران طبقہ، سب ہی اپنے لئے ایسی منزل چاہتے ہیں جہاں انہیں کوئی پوچھنے والا نہ ہو، کوئی روکنے والا نہ ہو اور نہ کوئی ٹوکنے والا....! ایک وقت تھا کہ ہمارے بزرگوں پر ایک دھن سوار تھی ”لے کے رہیں گے پاکستان، بن کے رہے گا پاکستان“ اور اس سے بھی بڑھ کر ”پاکستان کا مطلب کیا، لا الٰہ الا اللہ“ ۔ قیام پاکستان کے وقت دنیا کی شائد سب سے بڑی ہجرت ہوئی، لاکھوں لوگوں نے جانوں کے نذرانے پیش کئے، لاکھوں عفت مآب بیٹیاں کہ جن کو آسمان فلک نے کبھی ننگے سر بھی نہیں دیکھا تھا، اس وطن پر اپنی عزتوں کو لٹا بیٹھیں، اس قوم کی کتنی بچیاں تھیں جن کو ہندوﺅں اور سکھوں نے ہم سے چھین لیا کہ وہ اس وقت اس لاچار اور بے کس قوم کو سزا دینے پر قادر تھے۔ بے شمار عظیم الشان قربانیوں کے بعد اللہ نے ہمیں ہماری خواہشات اور آرزوﺅں سے بھی بڑھ کر وطن عطا کردیا۔ پاکستان بنتے ہی سازشوں کا ایک ایسا جال تھا جو ہمارے سابقہ و موجودہ آقاﺅں نے اس ہوشیاری اور چالاکی سے بنا کہ بانیان پاکستان بھی پوری طرح سمجھ نہ پائے۔ پاکستان بنتے ہی ”اردو“ کو قومی زبان کا بلند رتبہ مل گیا حالانکہ یہ حقیقت کسی سے چھپی ہوئی ہرگز نہ تھی کہ تقریباً نصف سے بھی زیادہ آبادی بنگال میں تھی جہاں کے باسی کسی سے کم محب وطن نہ تھے لیکن وہ اردو نہیں بولتے تھے اور انہیں اردو بولنے والوں سے ”حب الوطنی“کا سرٹیفکیٹ لینے کا پابند کردیا گیا، یہی لسانی لڑائی ایسی بڑھی کہ ہم دیکھتے رہ گئے اور دشمن، وہ دشمن جو چالاک بھی تھا، ہوشیار بھی تھا، اس کی جلائی ہوئی آگ کو ہم نے اپنے ذاتی مفادات کے ناگوں کے ذریعہ ایسی ہوا اور آکسیجن فراہم کی جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہم اپنا ایک بازو گنوا بیٹھے، بالآخر بنگلہ دیش بن گیا، ہمیں پھر بھی سمجھ نہ آئی، عقل شائد پہلے ہی کہیں رخصت ہوچکی تھی۔

بنگلہ دیش بنانے میں جہاں سیاسی نا عاقبت اندیشوں اور غیروں کے ٹکڑوں پر پلنے والوں نے انتہائی گھناﺅنا کردار ادا کیا تھا وہیں ”پاک فوج“ کے ناپاک عزائم رکھنے والے اور اقتدار کے عاشق جرنیلوں نے بھی اس ملک کے ساتھ کوئی کم دشمنی نہ کی۔ انگریزوں کے بوٹ پالش کر کے جاگیریں حاصل کرنے والوں کے ہاتھ جب اس ملک کی بھاگ دوڑ تھما دی گئی تو انہوں نے وہی کیا جو ان کے آقاﺅں نے چاہا۔ ایک بڑے مختصر وقت میں پورے ملک کے عوام و خواص اس نظرئے کو یکسر بھول گئے جس کی بنیاد پر اس وطن کی عمارت تعمیر کی جانی تھی۔ خواص کا تو چلیں اپنا ایک مخصوص ایجنڈا تھا لیکن چند ایک واقعات کے علاوہ اس ملک کے عوام نے بھی اپنا کردار نبھانے کی کبھی کوشش نہ کی۔ ہم اس آگ کو خطرناک سمجھتے ہیں جو ہمارا گھر جلانے کے لیے لپک رہی ہو، اس آگ سے ہمیں کوئی سروکار نہیں ہوتا جو ہمارے ہمسائے اور بھائی کے گھر کو جلانے کے لئے اپنے شعلے بلند کررہی ہو۔ پرانی باتوں کو چھوڑئے، ماضی قریب کے حالیہ واقعات پر ایک نظر ڈالیں تو کبھی سپریم کورٹ جعلی ڈگری والوں کو اس لئے استعفیٰ کا مشورہ نما حکم دیتی ہے کہ اگر استعفیٰ نہ دیا تو ”نا اہل“ ہوجاﺅ گے اور چشم فلک نے کیا نظارہ دیکھا کہ جوق در جوق جعلی ڈگریاں نکل آئیں، اولین جعلساز کو حکمران پارٹی نے نہ صرف دوبارہ ٹکٹ سے نوازا بلکہ ”شاہ صاحب“ نے خود اس کی انتخابی مہم چلانی شروع کردی، اخلاقی پستی اور زوال کا ایسا عروج شائد کسی اور قوم اور ملک کے حصہ میں نہ آیا ہوگا۔ عوام کے شعور کو بھی داد دینی چاہئے کہ جہاں جمشید دستی جیسے جعلسازوں کے حق میں ایک ووٹ بھی نکلنا اخلاق کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہونا چاہئے تھا وہاں اس کو پچاس ہزار سے بھی زائد ووٹوں سے تمغہ حسن جعلسازی سے نوازا گیا اور وہ مکے لہراتا ہوا دوبارہ وہاں پوری شان، عزت و احترام سے براجمان ہوگیا جہاں سے سہما سہما اور بے آبرو ہوکر نکلا تھا.... یقیناً عوام کے شعور اور آگہی کو داد دینی چاہئے، سلیوٹ کرنا چاہئے۔ اگر آج کی بات کریں تو ایک طرف تین صوبے سیلاب کے بے رحم پانیوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ”نیرو“ اپنے آقاﺅں کے سامنے بانسری کے سر بکھیر رہا ہے۔ برمنگھم کے ”ناخوشگوار“ واقعہ کو حکومت اور صدر کے خلاف اچھالتے ہوئے اتنا بھی نہ سوچا گیا کہ اس سے ملک کے وقار کو کتنا دھچکہ پہنچ رہا ہے، کتنا نقصان ہورہا ہے، صرف دو میڈیا گروپس کہ جن کے ذاتی مفاد کچھ اور ہیں اور کچھ شخصیات سے عناد بھی ہے، انہوں نے پورے ملک کے عوام کو ذہنی طور پر یرغمال بنا رکھا ہے۔ اکثر و بیشتر میڈیا گروپس حکومت اور ریاست کے مابین فرق کو یکسر بھلا دیتے ہیں اور معاشرے میں بگاڑ کے لئے ماشاءاللہ اس طرح کمربستہ رہتے ہیں کہ ان کو ہر روز بلکہ ہر گھنٹے کے ساتھ ”آزادی صحافت“ کے ایوارڈز دینے چاہئیں، ایک ”مبینہ“ جوتا ماری کی اس طرح تشہیر کی جارہی ہے کہ جیسے باقی تمام مسائل ختم ہوچکے اور بس جوتوں میں دال بٹنے کا نظارہ ہی دلفریب اور رعنائیوں سے بھرپور ہے۔ اس ”جوتا ماری“ مہم نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے پوری دنیا کی توجہ ہٹا کر غیر ضروری امور کی جانب توجہ مبذول کرا رکھی ہے۔ ایک طرف ملک پاکستان کے غریب عوام چنگاڑتے ہوئے پانی کی لہروں کے رحم و کرم پر ہیں تو دوسری طرف کہیں ایک بے حمیت اور شیطان صفت سابقہ آمر کے ساتھ محبت کی پینگیں بڑھائی جا رہی ہیں اور اس کے نام کے ”دن“ منائے جا رہے ہیں حالانکہ سب کو پتہ ہے کہ اس ”ڈائن“ پر اصل روپ تو ”راتوں“ کو چڑھتا تھا۔ الف لیلیٰ کے اتنے قصے ہیں کہ کسی کو بھی سننے سنانے بیٹھیں تو مہینے بیت جائیں، ہزاروں صفحات سیاہ ہوجائیں لیکن ان واقعات کی تیرگی ختم نہ ہو۔ قصہ مختصر کہ ہم آزاد ہوکر بھی اپنی خواہشوں کے اسیر ہیں، کہیں مسلکی جھگڑے ہیں تو کہیں مذہبی، کہیں لسانی فتنے ہیں تو کہیں قومیت کے، کوئی بھارت نواز ہے ، کوئی ایران نواز تو کوئی افغان نواز، اور اگر دیکھا جائے تو سب کا مشترکہ آقا امریکہ....! ہم تو ایسے بھنور میں آن پھنسے ہیں، ہمیں ایسے ایسے زاوئے سے گھیرا گیا ہے کہ ہم اس نظرئے، اس اساس کو ہی بھول گئے جس کو بنیاد بنا کر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔ نہ ذہن آزاد، نہ فکر آزاد، نہ لب آزاد.... تو پھر کیسی آزادی؟ کیسا جشن آزادی؟ پہلے آپس میں پیار، محبت اور اخوت تو پیدا کرلیں، اپنے ذہنوں کے بنجر پن کا علاج تو کرلیں، مشکل وقت میں بھائیوں کے کام آنے کا سلیقہ تو سیکھ لیں، اپنے نفس سے آزادی حاصل کرلیں، اس ملک و قوم میں ناسور کی طرح سرایت کرنے والی ان فرسودہ رسومات سے آزادی تو حاصل کرلیں جس نے ہمیں غلام بنا رکھا ہے، وڈیروں سے آزادی، جاگیرداروں سے آزادی اور سب سے بڑھ کر اللہ اور اس کے رسول کے دشمنوں کے پنجہ استبداد سے آزادی.... تب مزا آئے گا جشن آزادی کا بھی جس دن حقیقت میں آزادی نصیب ہوگی، اور وہ آزادی ایسے نہیں ملے گی، شائد بلکہ یقیناً پاکستان کو معرض وجود میں لانے سے بھی زیادہ محنت، مشقت اور قربانیاں دینی پڑیں، ہمیں تیاری کر لینی چاہئے کیونکہ اب وقت نہیں ہے، طبل جنگ بجا دیا گیا ہے۔ ہمیں تیار ہونا پڑے گا، ابھی ہمیں ایک لمبی جنگ لڑنی ہے، بہت لمبی....!

آخر میں ایک نہایت پیارے دوست رفیق صاحب کے چند اشعار کراچی کے حالات پر
اب درندوں سے نہ حیوانوں سے ڈر لگتا ہے
کیا زمانہ ہے کہ انسانوں سے ڈر لگتا ہے
عزت نفس کسی شخص کی محفوظ نہیں
اب تو اپنے ہی نگہبانوں سے ڈر لگتا ہے
خون ریزی کا یہ عالم ہے خدا خیر کرے
اب مسلمانوں کو مسلمانوں سے ڈر لگتا ہے
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222433 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.