اقوامِ متحدہ : ذمہ داریا ں اور مسئلہ کشمیر

اقوام ِ متحدہ کا آغاز دوسر ی جنگ ِ عظیم دوران یکم جنوری 1942 ء کو ہوا ، جب چھبیس ممالک کے حکمرانوں نے ایک عہدے نامے پر دستخط کیا جس میں لکھا گیا تھا کہ وہ دوسری طاقتوں کے خلاف متحد ہوں گے ۔ یہ ادارہ امریکہ کے صدر روز ولٹ کی کوششوں سییہ تمام اقوام ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوئی اور اس معاہدے پر دستخط ہوئے ۔1943 ء کی ماسکو کانفرنس اور تہران کانفرنس میں اقوامِ متحدہ کو باقاعدہ ایک ادارہ بنانے کی تجویز پیش کی گئی ۔1945ء میں یالٹا کانفرنس میں اقوام متحدہ کی ممبر شپ ان ممالک کے لیے بھی کھول دی گئی جو پہلی جنگ عظیم میں لیگ آف نیشنز کا حصہ تھے ۔ 25 اپریل 1945ء میں اقوام ِمتحدہ کو باقاعدہ ایک ادارہ بنانے کی تجویز پیش کی گئی ۔1945ء ہی میں لیگ آف نیشنز باقاعدہ طور پر یونائیٹیڈ نیشنز میں تحلیل کر دی گئی ۔ 1946 ء اپریل 25یونائیٹیڈٖ نیشنز آن انٹرنل آرگنائزیشن کی کانفرنس سان فرانسسکو میں ہوئی ۔ اس اجلا س کے بعد چارٹر آف یو این پر دستخط کیئے گئے ۔

اگرچہ اقوام ِ متحدہ کا آغاز صرف اور صرف جنگ میں مختلف اقوام کا اشتراک تھا تاہم جنگ کے خاتمے کے بعد اقوام ِ متحدہ کے دائرہ کاروسیع ہوتا چلا گیا ۔ اس ادارے کے دائرہ کا رمیں پوری دنیا میں انسانی حقوق ، معاشی ترقی ،بنیادی صحت ، تعلیم وغیرہ کو شامل کر دیا گیا ۔ اقوام ِمتحدہ کے مختلف سیکشنز پوری دنیا میں کام کر رہے ہیں ۔ دنیا کے مختلف ممالک میں امن کے قیام کے لیے اقوام ِ متحدہ کی افواج اپنی خدمات سر انجام دی رہی ہیں ۔ اقوام ِ متحدہ کے ہیڈ کوارٹر ، امریکہ کے شہر نیو یارک میں ہیں جبکہ U.N building وییانہ میں ہے ۔

اقوام ِ متحدہ کے سلامتی ادارے بیاہ شدہ ریاستوں ، مشکل معاشرتی ماحول کا شکار علاقوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ جنگ سے متاثرہ ، غذائی قلت کا شکار، یا آسمانی آفات سے متاثرہ علاقوں میں اقوام ِ متحدہ کی افواج عملی طور پرخدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔ اقوام ِ متحدہ میں شامل ممالک کی افواج دنیا کے مختلف ممالک میں نہ صرف امن مشن کے لیے تعینات کی جاتی ہیں بلکہ اقوام ِ متحدہ انسانی فلاح و بہبود اور انسانی حقوق کے لیے سر گرم ِعمل ہے ۔ جن میں فوجی ، پولیس ، سول اداروں کی بحالی ، ترقیاتی کاموں کا آغاز ، شہریوں کی حفاظت اور بہبود، انسانی حقوق شامل ہیں ۔اقوام ِمتحدہ کی بنیادی ذمہ داریوں میں امن و امان کی بحالی ایک اہم ترین ذمہ داری ہے جس میں یہ ادارہ کا میاب نہیں ہو سکا ۔

مسئلہ کشمیر اقوام ِ متحدہ میں پیش ہونے والا قدیم ترین تنازعہ ہے ۔ مقبوضہ جموں وکشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک ایسا تنازعہ ہے جس کے حل کے لیے دونوں ممالک اقوام متحدہ سے رجوع کر چکے ہیں ، لیکن بھارت کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے ابھی تک یہ تنازعہ حل نہیں ہو سکا ۔ یہ مسئلہ پاکستان اور بھارت کے مابین پہلی جنگ کا آغاز تھا جب 1948ء کو اس وقت ہوا جب کشمیر کے ہندو راجہ نے کشمیر کا الحاق بھارت سے کرتے ہوئے ، بھارت سے فوجی امداد طلب کی ۔ کشمیری مجاہدین کا ساتھ دینے کے لیے پاکستان کی جانب سے قبائلی کشمیر میں داخل ہو گئے اور باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا ۔ بھارت نے پہلی بار 1949ء میں یہ معاملہ اقوام ِ متحدہ میں پیش کیا اور اقوام ِ متحدہ سے ثالثی اور جنگ بندی کی درخواست کی ۔ اقوام ِمتحدہ کی جانب سے جنگ بندی کے لیے متعدد قراردادیں پیش کی جن کے نتیجے میں دونوں جانب سے جنگ بندی کا اعلان ہوا اور دونوں افواج جس مقام پر تھیں انھیں وہاں ہی روک دیا گیا ۔ بین اقوامی طور اس جگہ کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا جس کی دونوں جانب آج بھی دونوں ممالک کی افواج موجود ہیں ۔جنگ بندی کے بعد اقوام ِ متحدہ کی جانب سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا گیا تاہم یہ کوششیں بار آور ثابت نہ ہو سکی ۔ یہ پاک بھارت پہلا تنازعہ تھا جس میں اقوام ِ متحدہ میں ثالثی کے لیے پیش کیا گیا ۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلے کے حل کے لیے پانچ ممالک پر مشتمل ایک کمشن بنایا ۔ اس کمشن نے ایک رپورٹ پیش کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس علاقہ میں ایک اقوام ِ متحدہ کے اداروں کی موجودگی میں ایک آزاد ریفرنڈ م کروایا جائے گا اور کشمیر کے عوام کو حق حاصل ہے کہ وہ اس بات کا فیصلہ کریں کہ انھیں کس ریاست کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا الگ رہنا چاہیے ۔ لیکن بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کشمیر سے اپنی افواج میں کمی نہیں کی بلکہ ان افواج میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا ۔بھارت نے اپنی روایتی ہٹ دھرمی کی وجہ سے کشمیر میں رفرنڈم نہیں کروایا تاہم کشمیر میں دنیاکی نظروں میں دھول جھونکنے کے لیے الیکشن کروائے گئے جن کا کشمیری عوام نے بائی کاٹ کیا ۔ بھارت نہتے کشمیریوں کی تحریک ِ آزادی کو دبانے کے لیے اس علاقہ میں موجود افواج میں اضافہ کرتا جا رہا ہے یہا ں تک کہ آج مقبوضہ جموں و کشمیر میں سات لاکھ کے قریب بھارتی افواج تعینات ہیں ۔ ان افواج کو کشمیری عوام کومظاہروں سے روکنے اور کشمیر کی تحریک آزادی دبانے کے لیے ہر طرح کی چھوٹ دی گئی ہے ۔ بھارتی افواج کے مظالم سے نہ تو کوئی بچہ محفوظ ہے ، نہ مرد و عورت ، نہ جوان نہ بوڑھا ۔ حال ہی میں بھارت نے کم و بیش تین ماہ سے اس علاقہ میں کرفیو لگا رکھا اس کرفیو میں بھارتی افواج نے ظلم و ستم کی انتہا کر رکھی ہے ۔

حال ہی میں اڑی سیکٹر میں بھارتی افواج کے ہیڈ کوارٹر پر بھارتی حملہ کے بعد بھارت کی ان ظالمانہ کاروائیوں میں بے انتہا اضافہ کر دیا ہے بھارت کی جانب سے اس حملہ کو پاکستان کے سر تھوپنے کی ناکام کو شش بھی کی گئی ہے ۔ دنیا کے سامنے مسئلہ کشمیر کی بین الاقوامی حیثیت کو ختم کر کے اس مسئلہ کو علاقائی تنازعہ بنانے کی کو شش شروع کر دی ہے ۔بھارت اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا کر کشمیر کے مسئلہ کو دنیا کی نظروں سے اوجھل کرنا چاہتا ہیاور اپنا اٹوٹ انگ قرارددینا شروع کر دیا ہے ۔ اڑی سیکڑ پر حملہ کے بعد بھارت نے کشمیر پر مظالم کی انتہا کر دی ہے ۔ جگہ جگہ چھاپے مارنے ، بے گناہ عورتوں کی عصمت دری ، بے گناہ کشمیریوں کو گولیوں کا نشانہ بنانے ، بے گناہ نوجوانوں کو ان کے گھروں سے نکال کر لے جانے کا سلسلہ جاری ہے یہاں تک کہ یہ نوجوان یا تو لاپتہ ہو جاتے ہیں یا ان نوجوانوں کی لاشیں کسی اور علاقہ میں ملتی ہیں ۔ بھارت نے حال ہی میں کشمیر کو متنازعہ علاقہ ماننے سے ہی انکار کردیا ہے ۔بھارتی میڈیا بھی اپنی حکومت کے ساتھ دے رہا ہے اوردن رات دنیا کے سامنے بھارت کے اس مذموم پراپگنڈے کاکا پر چار کر رہا ہے ۔

بھارت کے ان تمام مظالم کے باوجود اقوام ِ متحدہ اپنی قرارداروں پر عملدرآمد کروانے کے لیے عملی طور پر بھارت پر دباؤ ڈالنے ، اس مسئلہ کے حل کے لیے عملی کوشش نہیں کی ۔ اس مسئلہ کے حل کے لیے اقوام ِ متحدہ کو قراردادوں سے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164536 views i write what i feel .. View More