میڈیا اور سیاست

اخبار سامنے آئے تو خبریں سیاسی ،کالموں پر نظر ڈالو موضوعات سیاسی،T.Vکھولو توسیاست ہی سنائی دیتی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ چینلز تو بنے ہی سیاسی جھگڑوں کے لئے ہیں۔تمام دن سیاسی خبریں نشر کرتے ہیں اور شام ہوتے ہی انہیں خبروں پر نام نہاد تبصرے شروع ہوتے ہیں اور رات 12بجے تک اینکر پرسن سیاسی پارٹیوں کے پہلوانوں کو لڑاتے رہتے ہیں۔کہیں پروگرام Liveہورہے ہوتے ہیں اور کہیں ایک2گھنٹے پہلے کے ریکارڈڈ۔اکثر اوقات ایک ہی شخص کئی چینلز پر بیک وقت گنج گرانمایہ لٹاتے نظر آتا ہے۔اور یہی پروگرام دوسرے دنRepeatہورہے ہوتے ہیں۔کیا الیکٹرانک میڈیا صرف اور صرف سیاست زیر بحث لانے کے لئے ایجاد ہواتھا۔اکثر اوقات یہ بھی سنا گیا کہ جو شخص کئی چینلز پر بیک وقت نظر آرہا ہے وہ ایک ہی جیسے فقرے بول رہا ہے۔اب جب بندہ ایک ،موضوع ایک، تو اس نے فقرے بھی ایک ہی جیسے بولنے ہیں۔شیخ رشید کے فقرے تو اب لوگوں کو کافی یاد ہوگئے ہیں۔یہ موسم ،یہ مہینہ بڑا اہم ہے۔پاکستان کے تمام اہم واقعات اسی ماہ ہوئے۔اکتوبر اور نومبر تو انقلابی مہینے ہیں۔جو کچھ ہونا ہے بس انہی مہینوں میں ہونا ہے۔پرویز رشید بھی فقرے دھرانے میں کافی معروف ہوچکے ہیں۔دانیال عزیز جوابی وار کے لئے کافی تیاری کرکے آتے ہیں۔ان کے پاس کاغذات کے کافی پلندے ہوتے ہیں۔یوں الیکٹرانک میڈیا پر دن ہویا رات سیاسی دھما چوکڑی ہی نظر آتی ہے۔جب حکومت وقت کی توجہ مخالفین کے سوالوں کے جوابات کی طرف رہے گی تو دہشت گرد کوئی نہ کوئی سافٹ ٹارگٹ ڈھونڈ لیتے ہیں۔اور لاشوں اور زخمیوں کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔اور اب کپتان کا یہ کہنا کہ جب ہم کچھ کرنا چاہتے ہیں تو سرحدوں پر یا سرحدوں کے اندر کوئی بڑا واقعہ ہوجاتا ہے۔اگر لاشیں گرانے کا کام صرف آپ کے پروگراموں سے وابستہ ہے تو پھر تو دہشت گردی آسانی سے ختم ہوسکتی ہے۔آپ اپنے تمام پروگرام ختم کردیں تو نہ سرحدوں پر فائرنگ ہوگی اور نہ ملک کے اندر اداروں میں لاشوں کے ڈھیر لگیں گے۔آپ کو ملک پر اور قوم پر رحم کرنا چاہیئے۔20۔کروڑ کے اس ملک میں سیاسی مسائل اور لڑائیوں کے علاوہ اور بہت سے مسائل ہیں۔لیکن میڈیا نے تو طے کیا ہوا ہے کہ ہم نے صرف اور صرف سیاسی جھگڑے ہی دکھانے ہیں۔اب تومیڈیا کا فوکس اکثر کراچی رہتا ہے۔کیونکہ پہلے ایم ۔کیو۔ایم صرف ایک تھی اب تو کئی ٹکڑے ہوگئے ہیں۔میڈیا کو ان کے آپس کے الزامات اور جھگڑوں کو دکھانے کے لئے بے شمار مواقع ہرروز ملتے رہتے ہیں۔یہ جو زندگی ہے یا یہ جو پاکستان ہے۔کیا اس کے تمام مسائل حل ہوگئے ہیں؟۔میڈیا کے فوکس نہ کرنے سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔کہ یہاں تمام پاکستانی تعلیم یافتہ ہوگئے ہیں۔کوئی بھی بچہ سکول سے باہر نہیں ہے۔یونیورسٹیاں تحقیق وتخلیق میں مصروف ہیں۔بہت کچھ نیا پیداہورہا ہے۔شعبہ تعلیم پر کوئی سنجیدہ پروگرام ہو اور لگاتار یہ مسائل زیر بحث آئیں یہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔ابھی بین الاقوامی رپورٹ میں یہ بات بتائی گئی تھی کہ پاکستان تعلیم میں50۔سال پیچھے ہے۔600یونیورسٹیوں کی فہرست میں بھی ہماری کوئی یونیورسٹی جگہ نہ بناسکی تھی۔اور بھی بے شمار مسائل بنیادی شعبے تعلیم کو درپیش ہیں۔لیکن مجال ہے کہ تمام چینلز سنجیدہ اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو بلا کر ان مسائل کو زیر بحث لائیں اور قوم کے سامنے ان مسائل کا Accurateحل رکھیں۔صحت کے شعبے کے مسائل کا تو کبھی میڈیا پر ذکر ہی نہیں ہوا۔یہا ں قومی آمدنی کا ایک فیصد سے بھی کم حصہ حکومت خرچ کرتی ہے۔مریض بے چارے سہولیات نہ ہونے سے تڑپ تڑپ کر جان دے دیتے ہیں۔ سہولتوں والے ہسپتال پرائیویٹ شعبہ میں ہیں۔جدھر غریب مریضوں کا جانا ناممکن ہے۔چینلز جانتے ہیں کہ وہ جب دوردراز ہسپتال کا ذکر کرتے ہیں تودوسرے ہی دن حکومتی کارندے وہاں پہنچے ہوئے ہوتے ہیں۔میڈیا ماثر تو ہے لیکن ضروری شعبوں کی طرف توجہ نہیں کرتا۔توجہ تو تب ہوجب سیاسی بکھیڑوں سے نجات ملے۔میڈیا کو پتہ ہے کہ انکی Rankingصرف سیاسی خبروں سے بہتر ہوتی ہے۔ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت سب سے بڑی شمار ہوتی ہے۔ہر روز خبریں آرہی ہیں کہ اس صنعت کا براحال ہے۔مصدقہ رپورٹ یہ ہے کہ 110۔ٹیکسٹائل کے یونٹ بند ہوچکے ہیں۔اور کئی بندہونے جارہے ہیں۔کسی اور صنعت میں تو ہم پاکستانیوں نے کوئی کارکردگی نہیں دکھائی۔ایک ٹیکسٹائل ہی میں ہمارا کچھ نام تھا اور زرمبادلہ بھی یہیں سے آتاتھا۔میڈیا کو اس کے مسائل زیربحث لاکر حکومت کی توجہ دلانا مقصود تھا۔کہ اس بڑی صنعت پر رحم کرو اور متعلقہ لوگوں کو سنو ۔صنعت کو بھرپور انداز سے چلنا چاہیئے۔لیکن میڈیا نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔اور پھر پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی زراعت۔کیا میڈیا والے دور دراز دیہاتوں اور کھیتوں میں جاکر کسانوں کے مسائل سنتے اور انہیں حکومتوں تک پہنچانے کی ہمت رکھتے ہیں۔کوئی زمانہ تھا کہ ہم گندم ،کپاس اور چاول برآمد کرکے کافی زرمبادلہ کمایا کرتے تھے۔لیکن یہ تو ماضی کی باتیں ہیں۔زراعت جہاں سے پاکستان کی45۔فیصد آبادی نان و نفقہ کماتی ہے۔قومی آمدنی کا21۔فیصد حاصل ہوتا ہے۔چینلز نے کبھی اس طرف توجہ بھی نہیں دی۔خوبصورت سوٹ اور ٹائیاں باندھنے والے اینکر پرسن کبھی دیہاتوں میں جائیں اور کسانوں کے مسائل سنیں اور انہیں صوبائی اور وفاقی حکومتوں اور وزارتوں تک پہنچائیں۔جھگیوں میں جاکر ذرا غربت کا اندازہ لگائیں اور اب یہ27۔فیصد تک پہنچ گئی ہے۔کیا چینلز کی ذمہ داری ایسے مسائل کے توجہ دلانے پر نہیں ہے۔حل تو وزارتوں اور حکومتوں نے کرنے ہوتے ہیں۔لیکن زراعت کو زیر بحث لانا ضروری ہے۔چینلز نے یہ عوام کو نہیں بتایا کہ گندی اور ملاوٹ والی خوراک پر چھاپے مارنے والی عائشہ ممتاز کو کیوں نکرے لگا دیاگیاہے۔اس جرأت مند خاتون کی وجہ سے پنجاب فوڈ اتھارٹی بہت کامیابی سے آگے بڑھ رہی تھی۔خوراک میں ملاوٹ پاکستان کا ایک بڑا مسٔلہ ہے۔چینلز کا ادھر دھیان ہے ہی نہیں۔اور بھی انتہائی اہم اور بنیادی مسائل پاکستان کے عوام کو درپیش ہیں۔لیکن چینلز سیاسی چکروں سے نکلیں تو ۔پورے چوبیس گھنٹے صرف اور صرف سیاست کی نظر کرنا ہرگزدانائی نہیں ہے۔دنیا کے باقی ماندہ ملکوں میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔کہ لوگوں کو صرف سیاسی بکھیڑوں میں گرفتار رکھو اور خوشحالی کی باتوں کی بھنک بھی نہ پڑنے دو۔نہ کبھی پینے کے پانی کا مسٔلہ زیر بحث آتے سنا اور نہ ہی زرعی پانی کی کمی کا ذکر ہوا۔کوئی خوبصورت اخلاقی پروگرام،کم ازکم ہم نے تو نہیں دیکھا۔اخلاقی لحاظ سے پاکستانی قوم بہت نیچے آچکی ہے۔صرف کرپشن نہیں اور بھی بہت سے شعبوں کا تعلق اخلاقیات سے ہے۔میڈیا کے پھیلاؤ کے بالمقابل ،قوم کا اخلاق انتہائی پستیوں کی طرف رواں دواں،الیکٹرانک میڈیا کے مالکوں اور صحافیوں کو پاکستانی قوم پر رحم کرنا چاہیئے۔پیمرا کو بھی چینلز کو نکیل ڈالنا چاہیئے۔
 
Prof Jamil Chohdury
About the Author: Prof Jamil Chohdury Read More Articles by Prof Jamil Chohdury: 72 Articles with 55055 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.