احتجاجی سیاست بمقابلہ روایتی سیاست
(abdul razzaq choudhri, lahore)
ان دنوں احتجاج کو نیا رنگ دینے کی موجد
سیاسی جماعت تحریک انصاف اور روایتی سیاسی جماعت مسلم لیگ ن کے درمیان
سیاسی داو پیچ کا کھیل پورے جوش و خروش سے جاری ہے ۔ عمران خان ہر حال میں
اس بات کو ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ نواز شریف کرپشن کے کندھوں کا سہارا لے
کر دولت کے مینا ر تعمیر کرتے رہے اور انھیں بیرون ملک منتقل کرتے رہے جبکہ
ن لیگ کا موقف ہے کہ خان صاحب الزامات لگانے کے چیمپین ہیں اور وہ سیاست کی
ابجد ہی سے ناواقف ہیں ۔کیا عجب کھیل ہے جو معصوم عوام کے سینوں پر کھیلا
جا رہا ہے ۔ایک جانب ن لیگ ہے جو روایتی سیاست کے فروغ کو ہی اپنی بقا کا
ذریعہ سمجھتی ہے اور دوسری جانب تحریک انصاف خیبر پختونخواہ میں انقلاب
برپا کرنے کی بجائے احتجاج کے نئے نئے طریقے تخلیق کرنے میں مصروف ہے اور
نواز شریف حکومت کے خاتمہ کے لیے اپنی توانائی صرف کر رہی ہے ۔
اس ساری صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوے کسی بھی باشعور پاکستانی کے ذہن کے
گوشوں میں تشویش کا جنم لینا فطری بات ہے اور وہ محو خیال ہے کہ آخر اس
احتجاج کا نتیجہ کیا برآمد ہو گا ۔ کیا اس احتجاج کا تحریک انصاف کو کوئی
خاطر خواہ فائدہ ہو گا ۔ کیا یہ احتجاج تحریک انصاف کے لیے اقتدار کی راہ
ہموار کر دے گا ۔ کیا یہ احتجاج نواز شریف حکومت کے خاتمہ کا سبب بن سکے
گایا پھر اس احتجاج کے دباو کے نتیجے میں نواز شریف مستعفی ہو جائیں گے ۔
میری دانست میں ایک بات تو طے ہے کہ یہ احتجاج خواہ کتنا ہی جاندار کیوں نہ
ہو ۔ لوگوں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہی اسلام آباد میں رواں دواں کیوں نہ ہو
۔ نواز شریف از خود مستعفی نہیں ہوں گے ۔تو سوچ طلب بات یہ ہے کہ پھر آخر
کیا ہو گا؟
ان حالات میں دو صورتیں جنم لے سکتی ہیں ۔ ایک یہ کہ تیسری قوت اقتدار پر
قابض ہو جائے اور سیاستدان اک لمبے عرصہ تک جمہوریت کو ترستے رہیں یا پھر
دوسری صورت میں نئے الیکشن کا طبل بج جائے ۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ان
دونوں صورتوں میں تحریک انصاف کو کیا فائدہ ہو گا ۔ کیا خان صاحب الیکشن کے
لیے تیار ہیں ۔ کیا عمران خان کی جماعت خیبر پختونخواہ میں اس قدر تبدیلی
لا چکی ہے جو اس کی آئندہ ہونے والے انتخابات میں کامیابی کی راہ ہموار کر
سکے ۔کیا خان صاحب کی جماعت پہلے سے زیادہ مقبول ہے، متحد ہے، فعال ہے ۔
عام خیال ہے کہ ن لیگ کی مقبولیت کو ابھی اتنی ضرب نہیں لگی کہ عوامی سطح
پر تحریک انصاف اس کو زیر کر سکے اور اس کو اقتدار سے محروم کر دے ۔نہ جانے
خان صاحب اس کھلی حقیقت کے باوجود ایسے فیصلے کیوں کرتے ہیں جو بند گلی کی
جانب جاتے ہیں ۔ ایسے عجیب و غریب فیصلوں پر انہیں یو ٹرن لینا پڑتا ہے اور
یا پھر ان فیصلوں پر عمل درآمد کی صورت میں حسب منشا نتائج برآمد نہیں ہوتے
۔ بے موقع اور بے ثمر احتجاج کا فیصلہ بھی ایسے فیصلوں میں سے ہی ایک ایسا
فیصلہ ہے جو خان صاحب کو اقتدار سے مذید دور کر دے گا ۔اس بات سے قطع نظر
کہ خان صاحب کی باتوں میں وزن ہے ۔ ان کے ارادے نیک ہیں وہ وطن کے لیے درد
دل رکھتے ہیں سوچنے کی بات یہ ہے کہ سیاست جذبات کی رو میں بہہ کر نہیں
بلکہ زمینی حقائق کا ادراک رکھ کر کی جاتی ہے ۔خان صاحب اپنے جذباتی انداز
سیاست کی بدولت ن لیگ کو مذید کمک مہیا کر رہے ہیں ۔ وہ ن لیگ کی غلطیوں سے
فائدہ اٹھانے کی بجائے خود غلطی در غلطی کر رہے ہیں ۔دھرنے اور احتجاج کے
موقع پر دوسری سیاسی جماعتوں کو اور بالخصوص مسلم لیگ ن کو سنہری موقع مل
جاتا ہے اور اس کے وزرا کی تنقید ی توپوں کا رخ خان صاحب کی جانب مڑ جاتا
ہے ۔اور بعد ازاں پیپلز پارٹی بھی اس عمل میں شریک ہو جاتی ہے ۔ اس ضمن میں
خورشید شاہ کا تازہ بیان ملاحظہ کیا جا سکتا ہے وہ فرماتے ہیں عمران خان کو
سیاست کرنا نہیں آتی اور نواز شریف کو حکومت کرنی نہیں آتی ۔ خورشید شاہ
صاحب کی یہ بات درست ہے کہ پیپلز پارٹی کو حکومت کرنے کا ہنر تو آتا ہے
لیکن اضافہ کرتا چلوں ساتھ کرپشن کرنا بھی خوب آتا ہے ۔ غور طلب بات یہ ہے
کہ کیا خان صاحب نے اس پہلو پر غور کیاہے کہ ان کے اسلام آباد کو بند کرنے
کے عمل کے نتیجے میں اگرملک میں غیر آئینی تبدیلی آ گئی تو ملک عالمی سطح
پر کہاں کھڑا ہو گا ۔ ہم کس قدر مذید پیچھے چلے جائیں گے ۔ ملک پہلے ہی
چاروں اطراف سے دشمن کے نشانے پر ہے دشمن تو موقع کی تلاش میں ہے ۔ حقیقت
تو یہ ہے کہ اس موقع پر ملک کسی صورت بھی نئے ایڈونچر کا متحمل نہیں ہو
سکتا ۔
دوسری جانب حکمران جماعت بھی تحریک انصاف کے ساتھ مناسب طرز عمل کو اپنانے
میں ناکام رہی ہے مسلم لیگ کو چاہیے تھے کہ وہ تحریک انصاف کو مناسب حکمت
عملی اپنا کر دھرنانہ دینے کے عمل پر قائل کرتی ۔ لیکن مسلہ انانیت اور خود
پرستی کا بھی ہے اور وہ اس قدر شدید ہے کہ چاہے ملک کا نقصان ہی کیوں نہ ہو
جائے بس ان کی شان میں کوئی کسر نہ لگے ۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ن لیگ
نے خان صاحب کے احتجاج کو کبھی سنجیدہ لیا ہی نہیں اور ہمیشہ ان مواقعوں پر
ڈنگ ٹپاو پالیسی کو ہی اپنایا اور اسی پالیسی کا شاخسانہ ہے کہ آج نوبت یہ
آن پہنچی ہے کہ عمران خان اپنی سیاست کو داو پر لگانے پر مجبور ہو گئے ہیں
اور ن لیگ کے پاس بھی اس صورتحال کو قابو کرنے کے محدود آپشن موجود ہیں
۔جوں جوں اسلام آباد کو بند کرنے کا دن قریب آ رہا ہے افواہ ساز فیکٹریوں
کی پیداوار میں بھی بڑی تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔کوئی اس دن کو
عمران خان کی سیاست دفن ہونے کا دن قرار دے رہا ہے تو کوئی اس دن کوحکومت
گرنے کا دن ثابت کرنے پر تلا ہوا ہے ۔کیا اس بات کا بھی کسی کو خیال ہے کہ
ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان جاری رسہ کشی کا نقصان لامحالہ ملک کو ہو
رہا ہے ۔ ن لیگ روایتی طریقہ اختیار کر کے ہی ملک کی خدمت کرنا چاہتی ہے
اور تحریک انصاف بھی میاں نواز شریف کی چھٹی کروا کر ہی نیا پاکستان تخلیق
کرنے کی متمنی ہے ۔ دونوں جماعتوں کو ملک کے وسیع تر مفاد میں اپنی اپنی
روش کو ترک کرنا ہو گا ۔ ایک دوسرے سے مخاصمت کے عمل کو اس درجہ پر جانے سے
روکنا ہو گا جہاں سے ملک کا نقصان شروع ہو جائے کیونکہ دونوں جماعتیں اس
بات کی دعویدار ہیں کہ وہ ملک کی خیر خواہ ہیں لہٰذا یہ خیرخواہی عملی طور
پر بھی نظر آنی چاہیے ۔ |
|