29 اکتوبر……یوم وفات مولانا بدرِ عالم میرٹھی رحمۃ اﷲ علیہ

حضرت مولانا بدرِ عالم میرٹھی ؒ ہمارے ماضی قریب کے ان جید اور ممتاز علماء میں سے ایک ہیں کہ جن کے دم قدم سے آج علم دین کی شمع روشن ہے ، مدارس پھل پھول رہے ہیں اور منبر و محراب کی رونقوں تازگی بحال ہے ۔ موصوف بہ یک وقت قابل مدرس ، فاضل مقرر ، مقبول مصنف ، اردو اور عربی کے بہترین ادیب وشاعر، مؤثر اسلوب تقریر و تحریر اور شگفتہ طرزِ اداء کے مالک تھے ۔

۱۳۱۶ ؁ ھ میں آپ شہر ’’بدایون‘‘ کے ایک نہایت شریف سید گھرانے میں پیدا ہوئے ، جہاں آپ کے والد ماجد حاجی تہور علی صاحب محکمہ پولیس میں انسپکٹر تھے ۔ الٰہ آباد کے ایک انگریزی سکول جب آپ اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے تھے تو اس دوران حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کا ایک وعظ آپ کے گوش گزار ہوا جس نے آپ کے دل و دماغ کی چولوں کو ہلاکر رکھ دیا ، جس کے سبب آپ نے ا سی وقت سکول کو خیر آباد کہا اور اپنے آپ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے علوم دینیہ کی خدمت کے لئے وقف کردیا۔

چنانچہ آپ کے والد ماجد نے ۱۳۳۰ ؁ھ میں آپ کو مدرسہ مظاہر العلوم سہارن پور داخل کرا دیا ٗ جہاں آپ نے حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوریؒ ، حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ ،حضرت مولانا ثابت علی ؒ اورحضرت مولانا حافظ عبد اللطیف صاحبؒ سے تمام علوم دینیہ کی تکمیل کی اور ۱۳۳۶ ؁ھ میں دورۂ حدیث پڑھ کر سند فراغت حاصل کی اور پھر وہیں ۱۳۳۷ ؁ھ میں معین مدرس مقرر ہوگئے ، مگر جلد ہی معین مدرسی چھوڑ کر مزید تعلیم حاصل کرنے اور قند مکرر کے طور پر دوبارہ دورۂ حدیث کرنے کے لئے برصغیر پاک و ہند کی عظیم دینی درس گاہ دار العلوم دیوبند میں تشریف لے گئے اور وہاں دورۂ حدیث میں شریک ہوکر ۱۳۳۹ ؁ھ میں حضرت مولانا علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ ، حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانیؒ ، حضرت مولانا علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ اور حضرت مولانا سید اصغر حسین دیوبندی ؒ جیسے اکابر علماء سے دورۂ حدیث کی کتابیں پڑھیں اور سند فراغت حاصل کی۔ اور پھر۱۳۴۰ ؁ھ میں دار العلوم دیوبند ہی میں اپنے اساتذہ کے پہلو بہ پہلو مسند تدریس پر فائز ہوگئے۔

۱۳۴۶ ؁ھ کے وسط میں اپنے استاذِ مکرم حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ کے ساتھ جامعہ اسلامیہ ڈابھیل چلے گئے اور وہاں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مسلسل پانچ (۵) سال تک حضرت علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ کے’’ درسِ صحیح بخاری ‘‘میں پورے التزام کے ساتھ شریک ہوتے رہے ۔ سترہ (۱۷) سال تک جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں علم حدیث کی تدریسی خدمات انجام دیں اورآخر میں صدر مدرس منتخب ہوئے ۔

حضرت شاہ صاحبؒ کی وفات کے بعد آپ نے اپنے استاذ کے بخاری شریف سے متعلقہ بکھرے ہوئے علوم و معارف کو ’’فیض الباری علیٰ صحیح البخاری ‘‘ کے نام سے چار (۴) جلدوں میں مرتب فرمایا، جس میں اپنے استاذ حضرت علامہ کشمیریؒ کی نادر علمی تحقیقات اور تفردات کو پیش کرکے آپ نے ایک عظیم الشان علمی کار نامہ انجام دیا۔ اس کے بعدصحت کی خرابی کی وجہ سے ڈابھیل سے بہاول پور چلے آئے اور وہیں اقامت اختیار کرلی ۔یہ زمانہ تقسیم ہند سے پہلے کا تھا۔

۱۹۴۷؁ء میں تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان تشریف لے آئے اور یہاں شیخ الاسلام حضرت علامہ شبیر احمد عثمانیؒ کے قائم کردہ مدرسہ دار العلوم الاسلامیہ ٹنڈو الٰہ یار میں حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کی دعوت پر استاذِ حدیث اور نائب مہتمم کے منصب پر فائز ہوئے اور درس و تدریس اور تبلیغ و ارشاد کے ساتھ ساتھ نظام اسلام کے نفاذ کے لئے ہمہ تن کوشاں رہے اور اپنے ہم عصر علماء ٗ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب ؒ ، حضرت مولانا مفتی محمد حسن صاحب ؒ ، حضرت مولانا خیر محمد جالندھری صاحبؒ ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی صاحبؒ اور حضرت مولانا احتشام الحق تھانویؒ کے شانہ بشانہ ’’ دستورِ اسلامی‘‘ کی ترتیب اور تدوین میں مصروف رہے۔ ۱۹۵۱ ؁ء میں ہر مکتب فکر کے جید علمائے کرام کے اجلاس میں شریک رہے ، جس میں بائیس (۲۲) نکات پر مشتمل ’’دستورِ اسلامی‘‘ کا خاکہ حکومت کو پیش کیا گیا تھا ۔ اسی طرح ’’تحریک ختم نبوت ‘‘ میں بھی آپ نے بھر پور حصہ لیا اور تقریر و تحریر کے ذریعے قادیانیت کا خوب سے خوب تر ردّ فرماتے رہے۔

اپنی اصلاح ظاہر و باطن کے سلسلے میں سب سے پہلے آپ نے حضرت مولانا خلیل احمد سہارن پوری ؒ کا انتخاب فرمایا ، لیکن جب حضرت سہارن پوری ؒفوت ہوگئے تو اس کے بعد حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمن عثمانی ؒ کے خلیفہ ارشد حضرت مولانا قاری محمد اسحاق صاحب قدس سرہ کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور پھر انہیں سے خلافت حاصل کی ۔

۱۳۶۲ ؁ھ میں آپ ’’ندوۃ المصنفین‘‘ سے وابستہ ہوگئے ، جہاں آپ کو ’’ترجمان السنہ‘‘ کے نام سے اردو زبان میں حدیث کی ایک جامع کتاب کی ترتیب کا کام سپرد ہوا ، جسے آپ نے بڑے شوق اور ولولے سے شروع فرمایا ، لیکن ابھی چار جلدیں ہی لکھ پائے تھے کہ آپ کی حیات مستعار کی مدت اپنے اختتام کو پہنچ گئی۔

’’فیض الباری شرح صحیح بخاری‘‘ کے نام سے عربی زبان میں اور’’ترجمان السنہ‘‘ کے نام سے اردو زبان میں یہ دونوں کتابیں خدمت احادیث نبویہ کے حوالہ سے آپ کا وہ بے نظیر شاہکار ہیں جو رہتی دنیا تک آپ کی زندہ جاوید یادگار یں اور اہل علم و دین کے طبقوں میں منبع فیض بنی رہیں گی۔

آپ کے دل؛ و دماغ میں عرصۂ دراز سے مدینہ منورہ (زادہا اﷲ شرفاً وتعظیماً ) کی سکونت کی آرزو کا بحر بے کراں موجزن تھا اور نہایت ہی والہانہ انداز میں مدینہ منورہ کی ہجرت کا شوق دل و دماغ میں سمایا ہوا تھا ۔ چنانچہ ’’البدر الساری تعلیقات فیض الباری ‘‘ میں انتہائی والہانہ اور رقت آمیز انداز میں اپنی اس دلی خواہش کے برآ ہونے کے بعد آپ لکھتے ہیں:’’رب العرش العظیم کی بارگاہ سے شرف قبولیت کے ساتھ سرفرازی ہوئی اور ’’نالہ ہائے سحری‘‘ رنگ لائے اور ’’جوارِ حبیب رب العالمین صلی اﷲ علیہ وسلم‘‘ کی تمنا نے تصور سے بالاتر طریقے پر واقعہ کی صورت اختیار کرلی ۔ عبادت و استقامت ، ادب و سکون ، اور ذکر و فکر کے ساتھ مسجد نبوی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حاضری نصیب ہوتی رہی ، یہاں تک کہ علالت نے صاحب فراش بنا دیا اور پورے چار (۴) سال تک صاحب فرش رہا ۔ اس دوران صبر و شکر ، اور رضاء بالقضاء کی جو منازل طے کیں اور جونعمتیں نصیب ہوئیں وہ قابل صد رشک ہیں ؂
ایں سعادت بزورِ بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

لیکن چونکہ دنیا کی تمام نعمتیں فانی ہیں ، کب تک آدمی ان سے متمتع ہوتا رہے ؟ اس لئے بالآخر ماہِ رجب کے مقدس مہینہ اور جمعہ کے مبارک دن میں حبیب رب العالمین کے جوار میں جنت البقیع کی خاک مقدس میں جس کا ایک ایک ذرہ آفتاب عالم تاب سے زیادہ روشن ہے ٗ اس خادم علم دین اور طالب رحمۃ رب العالمین اپنی جان ٗ جاں آفرین کے سپرد کرتے ہوئے مؤرخہ ۳/ رجب المرجب ۱۳۸۵ ؁ھ بمطابق ۲۹/ اکتوبر ۱۹۶۵ ؁ء بروز جمعۃ المبارک کو اس جہان سے بصدائے بلند رخصت ہو ا ؂
چنیں قفس نہ سزائے چو من خوش الحان است
روم بہ’’ گلشن رضواں ‘‘کہ مرغِ آں چمن ام
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 279028 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.