بلوچستان میں خون کی ہولی

١٤ اگست پاکستان کا یوم آزادی ہے۔ ہر سال ہم لوگ بڑے جوش و خروش کے ساتھ ١٤ اگست کا دن مناتے ہیں اور خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن اس سال یہ ١٤ اگست ہمارے لیے آنسوؤں کا پیغام لائی ہے۔ ایک جانب ائر بلیو کا حادثہ دوسری جانب سیلاب کی تباہی نے پوری قوم کو اداس کردیا ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے لیکن اس سب سے زیادہ المناک اور خطرناک واقعہ بلوچستان میں ہوا ہے جہاں سولہ بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات میں ضلع بولان کے علاقے آب گم میں مسلح افراد نے لاہور سے آنے والی بس کو پہلے روکا اس کے بعد مسافروں کو اتار کر ان کی شناخت کی گئی اور شناخت کے بعد پنجاب سے تعلق رکھنے والے سولہ افراد کو ایک قطار میں کھڑا کر کے ان کو گولیوں سے بھون دیا گیا، جس سے دس افراد موقع پر ہی ہلاک ہوگئے جبکہ پانچ شدید زخمی ہوگئے۔ جبکہ دوسرا واقعہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پیش آیا جہاں مسلح افراد نے ملتان سے تعلق رکھنے والے چھے مزدوروں کو گھر میں گھس کر قتل کردیا گیا۔ بلوچ قوم پرست جماعت نے ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔

اگرچہ سیلاب سے ہزاروں ہلاکتیں ہوئی ہیں لیکن اپنی شدت اور اثرات کے لحاظ سے یہ سولہ ہلاکتیں ان ہزاروں ہلاکتوں پر بھاری ہیں۔ یہ واقعات دراصل قوم کو منتشر کرنے اور عصبیت کی آگ بھڑکانے کی ایک گہری سازش ہے۔ یہاں سب سے پہلے ہم اس پر بات کریں گے کہ اخبارات اس واقعے میں قتل ہونے والے اور اس سے پیشتر بھی بلوچستان میں ایسے واقعات میں متاثر ہونے والوں کو آباد گار لکھتے رہیں ہیں۔ ہمیں اسی لفظ پر ہی اعتراض ہے۔ کیوں کہ کسی فرد کا تعلق چاہے بلوچستان سے ہو، پنجاب سے ہو، سندھ سے ہو یا پنجاب سے ہو، وہ اپنے ملک میں کہیں بھی جاکر رہ سکتا ہے وہاں آباد ہوسکتا ہے اور کاروبار کرسکتا ہے۔ یہ اس کا حق ہے اس لئے اس کو الگ سے آباد گار یا کچھ اور نہیں کہنا چاہئے بلکہ وہ مسلمان اور پاکستانی ہے۔ (یہاں واضح رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس افتخار محمد چوہدری صاحب بھی بلوچستان میں پلے بڑھے اور یہیں سے انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے جبکہ ان کا آبائی تعلق بلوچستان سے نہیں ہے) اس لئے اخبارات کو اس بارے میں احتیاط کرنی چاہیے اور قوم پرستوں کا دیا ہوا لفظ آباد گار استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔

پھر یہاں ہمیں سیاسی جماعتوں کی دہری پالیسی پر افسوس ہوتا ہے۔ کم و بیش ڈیڑھ عشرہ قبل ایسے واقعات کراچی میں ہوتے تھے تو اردو بولنے والوں کو بلا استثنا غدار کہا جاتا رہا، کراچی میں آپریشن کیا گیا اور یہاں بلوچستان میں ایک عرصے سے دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات ہورہے ہیں لیکن تمام سیاست دان ان واقعات کو غداری کہنے کے بجائے ان کو ناراض بلوچ بھائیوں کا غصہ اور احساسِ محرومی کا رد عمل کہتے رہے اور اب بھی یہی ہو رہا ہے۔ غضب خدا کا یوم پاکستان کو یوم سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے، پاکستان کے خلاف ریلیاں نکالی جاتی ہیں، پاکستانی پرچم نذر آتش کیا جاتا ہے، دیگر قومیتوں کے لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے اور اس کے باوجود یہ لوگ معصوم ہیں اور احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ یہ دو رخی کیوں؟ (یہاں میں یہ واضح کرتا چلوں کہ میں ایم کیو ایم کی سابقہ سیاست یا دہشت گردی کی حمایت نہیں کر رہا ہوں بلکہ میں تو خود ایم کیو ایم کا ایک ناقد ہوں لیکن کیا یہ عجیب بات نہیں ہے کہ ایک چیز ایم کیو ایم کرے تو غدار اور دوسرے کریں تو معصوم؟)۔

پھر یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر بلوچ قوم احساس محرومی کا شکار ہے، اس کی حق تلفی کی گئی ہے، اس کو اس کا جائز مقام نہیں دیا گیا تو کیا اس میں پنجاب یا سندھ یا خیبر پختونخواہ والوں کا قصور ہے یا ان کے اپنے وڈیروں اور سرداروں کا قصور ہے جو خود تو کراچی میں بوٹ بیسن اور کلفٹن جیسے مہنگے علاقوں میں رہتے ہیں، ان کے کاروبار دبئی اور مسقط اور اومان میں پھیلے ہوئے ہیں، ان کے بچے اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی قوم کے ساتھ کیا کیا؟ ان سرداروں اور وڈیروں نے اپنے علاقوں میں اسکول اور کالج قائم نہیں ہونے دئے، ان لوگوں نے وہاں لوگوں کو اپنا غلام بنا کر رکھا، نواب اکبر بگٹی مرحوم اور دیگر سردار حکومت پاکستان سے اور سوئی سدرن گیس کمپنی سے کروڑوں روپے سالانہ وصول کرتے رہے اور اب بھی کرتے ہیں۔ لیکن یہ کروڑوں اور اربوں روپے سالانہ وصول کرنے والے سردار اور نوابوں نے کبھی اس بات کی کوشش نہیں کی کہ سوئی فیلڈ سے جو گیس پنجاب اور سندھ کے دور دراز علاقوں تک جارہی ہے اس گیس سے اپنے صوبے کو بھی مستفید کیا جائے۔ الغرض اگر جائزہ لیا جائے تو بلوچ قوم کی محرومی کے ذمہ دار دیگر قومیتوں کے لوگ نہیں بلکہ خود ان کے لیڈر وڈیرے، سردار اور نواب ہیں اگر بلوچ قوم کو انتقام لینا ہے تو اپنے ان لیڈروں سے لے اور قوم کو بے وقوف بنانے کے بجائے حقائق کا سامنا کریں۔

قوم پرستی کے جبر کے تحت جو بے گناہوں کا خون بہایا گیا تو اب اس کا دائرہ کار پھیل رہا ہے۔ آج کے اخبارات کی اطلاع کے مطابق ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والوں میں چھے افراد کا تعلق ضلع وہاڑی کے علاقے جہانیاں کے علاقے بستی رکن پور سے تھا اور ان مزدوروں کے لواحقین نے کوئٹہ کراچی روڈ بلاک کر کے ہنگامہ آرائی کی اور کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے ٹرکوں کو روک کر ٹرک ڈرائیوروں پر تشدد کیا گیا۔ یہ اس آگ کی ابتدا ہے اور اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو پھر یہ آگ پورے ملک میں پھیل جائے گی۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس واقعے کا فوری نوٹس لیتے ہوئے اس میں ملوث ملزمان کو قرار واقعی سزا دیں تاکہ مستقبل کسی کو ایسی حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 534 Articles with 1458950 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More