سرمائے کی غیر مرئی طاقت۔۔۔۔۔

روز اول سے جب سے انسانوں کے پاس سرمایہ آیا تو انسانوں نے انسانوں کو غلام بنانا بھی سیکھ لیا تھا۔۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ غلامی کے طور طریقے بھی بدلتے گئے۔۔شاید ہی معلوم تاریخ کے کسی دور میں ایسا ہوا ہو کہ انسانوں کا ایک جم غفیر ایک چھوٹے سے طبقے کے استحصال کا شکار نہ ہوا ہو۔۔۔ شاید یہ حضرت انسان کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا کہ اس نے مال بنانے۔۔۔اقتدار پہ قبضہ کرنے کے لئے ہمیشہ تگ و دو کرنی ہے اور پھر اس طاقت سے بہت سارے انسانوں کو غلام بنانا ہے یا اپنا دست نگر بنانا ہے اور ان کے وسائل چھین کر اپنے ذاتی یا گروہی وسائل کو بڑھانا ہے۔۔۔۔شروع میں یہ صورتحال معاشرے کے مختلف گروہوں تک محدود رہی۔۔۔جو اپنی ریاست پہ کنٹرول کر کے ایک بڑی آبادی کو اپنے مفادات کے تحت استعمال میں لا تے رہے۔انسانوں کی ایک بڑی آبادی کو ایک چھوٹا سا طبقہ اپنے ہوس اور حرص کی تکمیل کے لئے بے دردی سے استعمال میں لاتا رہا۔۔۔۔۔۔اقتدار، قیادت ، بادشاہت ، وغیرہ صرف اس طبقے کا حصہ اور استحقاق رہا ہے جس کے پاس طاقت یا سرمایہ تھا۔۔۔لیکن جب ریاستیں بننی شروع ہوئیں تو یہی مقتدر طبقہ اپنی ہوس اور حرص کی تکمیل کے لئے اپنی سرحدوں سے نکل کر دوسری ریاستوں پہ حملہ آور ہوا اور اس طرح سے اپنے عوام کی جانوں اور مالوں کو اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لئے استعمال میں لایا گیا۔۔۔۔اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔۔۔یہ سرمائے کی طاقت بھی عجیب ہے اس کے آگے کوئی نظریہ نہیں چلتا۔۔۔کوئی حب الوطنی کام نہیں کرتی۔۔۔۔کسی طرح کی قوم پرستی دم توڑ جاتی ہے۔۔۔۔اور کسی بھی طرح کی جمہوریت پسندی، عدل و انصاف کی مسندیں فیل ہو جاتی ہیں۔۔۔ اور نعرے دم توڑ جاتے ہیں۔۔۔۔سرمائے ہی نے جمہوریت کے ہتھکنڈوں کو آزمانے کا شعور دیا۔۔سرمائے ہی نے مذہب کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کرنے کا گر سکھایا۔۔سیاسی ، جمہوری ، مذہبی تنظیمیں بنانا سکھایا تو فنڈز لینا بھی سکھایا۔۔۔جب فنڈز آنے شروع ہوئے تو ۔۔۔فنڈز دینے والوں کا جمہوری پارٹیوں پہ قبضہ ہو گیا۔۔۔۔اور جب فنڈز کرپشن سے آنے لگے تو پھر ان جمہوری پارٹیوں پہ کرپٹ مافیا کا قبضہ ہو گیا۔۔۔۔اب سرمائے کی طاقت سے سیاسی الیکشن کے فیصلے ہوتے ہیں۔۔ریاست پہ قبضے بھی سرمائے کی طاقت سے ہی ہوتے ہیں۔۔ الیکشن ، جمہوریت کا گورکھ دھندے کی چابی بھی سرمائے کی طاقت میں پوشیدہ ہوتی ہے۔۔۔۔جو زیادہ پیسہ لگاتا ہے وہی زیادہ امیدوار خریدتا ہے۔۔۔جو زیادہ امیدوار خریدتا ہے وہی ریاست کا سربراہ بننے کا اہل قرار پاتا ہے۔۔۔۔۔اب تو سیاست اور کرپشن کا چولی دامن کا ساتھ ہو گیا۔۔۔۔۔کیونکہ حرام کا مال کما کر ہی حرام کھانے والوں کو خریدا جا سکتا ہے۔۔۔۔جب حرام کا مال منہ کو لگ جائے تو اس کی عادت ہو جاتی ہے اور پھر اس عادت کی تکمیل کا ایک ایسا نشہ طاری ہو جاتا ہے۔۔جس کے سامنے قوم، وطن، انسانیت، عوام، جمہوریت کے نظریات اور نعرے سب بے معنی قرار پاتے ہیں۔۔۔۔کرپشن کرو، سیاسی جمہوری پارٹیاں بناؤ، عام لوگوں کو جانوروں کی طرح ہانکو۔۔۔میڈیا کو خرید لو۔۔۔۔اداروں کو خرید لو۔۔۔۔بلکہ اداروں میں ایسے لوگوں کو ڈال دو جنہوں نے حرام مال چکھا ہوا ہو تو پھر کسی احتساب کا خطرہ نہیں رہتا۔۔۔۔یہ سرمائے ہی کی ہوس اور حرص کی مسابقت ہوتی ہے کہ معاشرے ننگوں کے حمام بن جاتے ہیں۔۔۔یعنی ہر ادارے، ہر سطح، ہر شعبے میں چوروں کا راج ہو جاتا ہے۔۔۔چاہے اقتدار میں ہوں یا حزب اختلاف میں ۔۔۔چور ہونا ضروری ہے۔۔۔جو چور نہیں اس کو کسی ادارے میں کام کرنے اور ترقی کرنے کا حق نہیں۔۔۔اسے آگے نہیں بڑھنے دو۔۔۔جو چوری کے خلاف اٹھ کھڑا ہو تو اس کے خلاف سب چور اکٹھے ہو جاؤ۔۔۔۔اور اسے بھی چور چور کہو۔۔۔اور پھر اس کا پتہ گول کر دو۔۔۔تاریخیں ایسے ہی لکھی جاری ہیں۔۔۔سرمایہ والا عزت والا ہے۔۔الیکشن جیتنا ہے تو سرمایہ چاہئیں۔۔۔۔چوروں کا مقابلہ کرنا ہے تو ان سے زیادہ مال بنانا پڑے گا۔۔عہدہ ہے یا عزت۔۔۔حب الوطنی ہے یا قومی وقار کا سوال سب سرمائے کے محتاج ہیں۔۔سرمائے کی طاقت سے عزتیں اور عظمتیں تخلیق کی جاتی ہیں۔۔۔کیمروں کارخ اور قلم کے انداز سرمائے سے متعین ہوتے ہیں۔۔۔زبانوں سے نکلنے والے الفاظ بھی سرمائے کی حرارت سے چلتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔سرمائے
کے کرشمے ہر طرف پھیلے نظر آتے ہیں۔۔۔ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ میں بدلا جاتا ہے۔۔۔۔اور یہ سرمائے ہی کی طاقت ہے جس کی بدولت ذلیل اور کرپٹ کو معزز اور معزز کو بدنام کیا جاتا ہے۔۔۔۔
سرمائے کی اس غیر مرئی طاقت کو استعمال میں لا کر نام نہاد جمہوریت پسند ہوں یا سیکولر انقلاب پسند یا مذہبی بالا دستی کے علمبردار اپنے اپنے مفادات کے حصول کے لئے کامیابیاں سمیٹتے ہیں۔۔۔۔انسانوں کے حقوق کے نام پہ،سیکولر ازم، جمہوریت ،سوشلزم، مذہب،حقوق انسانی کے نام پہ۔۔۔آزادی و حریت کے نام پہ۔۔۔کس کس طرح سے ایک مخصوص با ثر اور مقتدر طبقات اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے معاشروں کو تہہ وبالا کرتے ہیں۔۔۔لوگوں سے روٹی اور زندگی کا حق چھینتے ہیں۔۔۔۔انسان نے جب سے سرمائے کی طاقت کو استعمال کرنا سیکھا اسی دن سے اس نے اپنے ہم جنسوں کو نیست و نابود کرنا شروع کیا۔۔۔۔نہ جانے کتنے ازم اور نظرئیے تخلیق ہوئے لیکن سب کا نقطہ آغاز و انجام آ کر کسی ایک مخصوص طبقے کے تقدس اور مفادات اور اقتدار کی تکمیل ہی پہ منتج ہوا۔۔۔۔۔

سرمائے کے کمالات کی کرشمہ سازی معاشرے کی کچھ اس طرح کی تصویر کشی کرتی ہے۔۔۔۔ایک طرف دو وقت کی روٹی کے لئے انسان ترستا ہے۔۔۔دوسری طرف کتوں پہ لاکھوں خرچ کئے جاتے ہیں۔۔۔۔ایک طرف انسانوں کی اکثریت بغیر دوا علاج کے لئے مرنے پہ مجبور ہوتی ہے تو دوسری طرف۔۔۔کتوں کے علاج کے لئے ڈاکڑز کی ٹیمیں متعین ہوتی ہیں۔۔۔۔ایک طرف بھوک و افلاس کے ڈیرے ہوتے ہیں جہاں انسان اپنی عزت، عصمت، اخلاق قربان کر رہے ہوتے ہیں تو دوسری طرف مال و دولت کو طرح طرح کی عیاشیوں کی نذر کیا جاتا ہے۔۔۔۔سرمائے کے اس گورکھ دھندے کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔۔۔غربت و افلاس سے مارے انسانوں کی بستیاں جب ہر طرف پھیلی ہوئی ہوں، بغیر دوا و علاج کے لوگ مرنے پہ مجبور ہوں۔۔۔انصاف کے نام پہ دوکانیں تو موجود ہوں لیکن عام آدمی کی رسائی ان دوکانوں تک نہ ہو۔۔۔انصاف کے راگ الاپنے والا۔۔۔انصاف کے لئے آواز اٹھانے والاا اور مسند انصاف پہ بیٹھنے والا۔سب بکاؤ ہو چکا ہو۔۔ظلم و استحصال کے ایسے قانونی اور جائز طریقے ڈھونڈے جاتے ہوں جن کی مدد سے لوگوں کی اکثریتی آبادیوں کو جانوروں کی سی زندگی گذارنے پہ مجبور کیا جائے۔۔۔تو سمجھ لینا چاہئے کہ سرمائے کی طاقت کے کمالات معاشرے میں ظاہر ہو چکے ہیں۔۔۔۔اب کیا ہو؟کیسے ہو؟کس طرح ہو؟ آخر بھوک کا کچھ علاج ہونا چاہئے۔۔۔۔بغیر دوا کے گزارا نہیں۔۔۔عدل وانصاف ۔۔۔۔رہائش اور بنیادی ضرورتوں کے بغیر زندگی گذارنا مشکل ہے۔۔۔۔سرمائے کے ان بتوں کو گرانے کی کچھ تو تگ ودو ہو۔۔۔تاریخ میں جو کامیابیاں ہوئیں جب لٹے پٹے، بھوکے لوگ جو صدیوں سے ان سرمایہ پرستوں کو پالتے رہے بالاخر تنگ آ گئے اور وہ ان مخصوص طبقوں پہ پل پڑے اور انہیں سڑکوں، چوراہوں پہ گھسیٹا اور انہیں ان کے شہزادوں اور شہزادیوں سمیت نیست ونابود کر دیا اور ان کے بنائے ہوئے محلات کو میوزیم بنا دیا۔۔۔۔۔بھوک اور محرومی بہت سخت کیفیت کا نام ہے۔۔۔۔جب اس میں مبتلا بے بس لوگ کبھی ہوش میں آتے ہیں تو سرمائے کے بتوں کو پاش پاش کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔لیکن ان بے بس اور محروم انسانوں کو ہوش میں لانے کے لئے بھی شاید سرمائے کی ہی طاقت درکار ہے۔۔۔۔
Dr. Muhammad Javed
About the Author: Dr. Muhammad Javed Read More Articles by Dr. Muhammad Javed: 104 Articles with 151364 views I Received my PhD degree in Political Science in 2010 from University of Karachi. Research studies, Research Articles, columns writing on social scien.. View More