ویسٹ پاکستان کمپنی

ہندوستان میں قریباً نوسو سال حکومت بابر غوری اور اس کے خاندان نے کی جسے تاریخ میں مغیلہ دور حکومت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ، اسی مغیلہ خاندان کے آخری چشم و چراغ بہادر شاہ ظفر تھے، بہادر شاہ ظفر کے دور حکومت میںایسٹ انڈیا کمپنی کوسن سولہ سو عیسوی میں ملکہ الزبتھ اول کے عہد میں ہندوستان میں تجارت کا پروانہ ملا اور سن سولہ سو تیرہ عیسوی میںکمپنی نے سورٹھ کے مقام پر پہلی کوٹھی قائم کی اس زمانے میں اس کی تجارت زیادہ تر جاوا اور سماٹرا وغیرہ سے تھا۔سن سولہ سو تئیس عیسوی میں جب ولندیزیوں نے انگریزوں کو جزائر شرق الہند سے نکال باہر کیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنی تمام تر توجہ ہندوستان پر مرکوز کر دی،سن سولہ سوباسٹھ عیسوی میں بمبئی بھی اس کے حلقہ اثر میں آگیا اور کچھ عرصہ بعد شہر ایک اہم تجارتی بندرگاہ بن گیا،سن سولہ سو نواسی عیسوی میں کمپنی نے علاقائی تسخیر بھی شروع کردی جس کے باعث بالآخر ہندوستان میں برطانوی طاقت کو سربلندی حاصل ہوئی، سن اٹھارہ سو اٹھاون عیسوی میں یہ کمپنی ختم کردی گئی اور اس کے تمام اختیارات تاج برطانیہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیے تاہم سن اٹھارہ سوچوہتر عیسوی تک کچھ اختیارات کمپنی کے ہاتھ میں رہے،تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ سلطنت برطانیہ نے اپنے جاسوسوں کو تاجروں کی شکل میں بھارت کی جانب بھیجا، یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مسلمان اور ہندو اپنی اپنی رسم و رواج آزادانہ کیا کرتے تھے بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ مذہبی رسم و روایات میں ایک دوسرے کا احترام اور باہمی تعاون کیا کرتے تھے، ان ادوار میں صوفیائے کرام کا بھی خاص اہم مثبت کردار رہا ہے، صوفیائے کرام کی اسلامی تعلیمات اس طرح تھیں کہ جن سے تصادم کبھی بھی پیش نہ آیا بلکہ غیر مسلم خوش دلی سے دائرہ اسلام میں داخل ہوتے تھے، حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ، حضرت نظام الدین اولیا رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم روحانی شخصیات بھی انہیں ادوار میں رہیں۔۔!! مغلیہ دور کے حکمران بہادر شاہ ظفر سے ہندوستان میں تجارت کی اجازت طلب کی ، بہادر شاہ ظفر اور ان کے درباری کیونکہ منفی سوچ اور مکاری پن سےخالی تھے اور وہ اپنی طرح دوروں کو بھی اچھا سمجھتے تھے یا یوں سمجھ لیجئے کہ شائد ان میں سیاسی وہ بصیرت نہ تھی جو کہ غیر ملکیوں کی نیت بھانپ سکیں اس کی ایک بڑی وجہ پشت در پشت خاندانی حکومت تھی بحرکیف سلطنت برطانیہ نے اپنے تاجر کے ذریعے مشرق الہند پر اٹھارہ سو ستاون عیسوی میں مغلیہ خاندان کے چشم و چراخ بہادر شاہ ظفر کو قید کرکے سلطنت مغلیہ پر قابض ہوگئے،انگریزوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کو غلام بنالیا لیکن ان ہندوؤں اور مسلمانوں کو خوب نواز گیا جنہوں نے سلطنت برطانیہ کی جاسوسی اور غلامی کا حق ادا کیا اور اپنی قوم سے غداری کرتے رہے، ایسی شخصیات کو سر کے خطاب سے بھی نوازا گیا چند ایک ایسی شخصیات تھیں جنہیں خالصتاً ایمانداری اور اپنے پیشہ میں انفرادی حیثیت کے حامل رہے جن میں سر سید احمد خان بھی شامل ہیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی جب سلطنت برطانیہ نےکمان سنبھالی تو ہندوستان میں جہاں جہاں اپنی حکمرانی کے قدم جمائے وہیں کئی جدید نظام سے استور بھی کیا جن میں کمیونیکیشن کےنظام شامل تھے ، رابطہ کیلئے ٹیلیفون، ٹیلی گرافی جیسی سہولیات اور مسافت کو بہتر بنانے کیلئے ریل کے نظام کو پھیلایا تاکہ کم وقت میں تجارتی ترسیلات زیادہ سے زیادہ کی جاسکے ، یہ حقیقت ہے کہ انگریزوں کے آنے کے بعد اس خطے میں سائنسی ترقی کا دور شروع ہوا اور ہندوستان دنیا کے دیگر ممالک سے رابطہ کیساتھ منسلک ہوا۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی تاریخی حیثیت اس نقطہ سے بھی خاص جانی پہچانی جاتی ہے کہ اس کمپنی کے پس پردہ سلطنت برطانیہ نے شرق الہند پر اپنا قبضہ کرلیا اور یہاں کی تمام معدنیات سے لیکر دیگر وسائل کو اپنے استعمال کیلئے انگلستان برآمد کیا پھر کیا تھا کہ شرق الہند کے معدنیات، اجناس اور دیگر اشیا کو انگلستان منتقل کرنا شروع کیا جس پر وطن پرست ہنو اور مسلمان سیسہ پلائی دیوار کی طرح سامنے کھڑے ہوگئے، اس ضمن میں مسلم سپہ سالاروں کا بہت بڑا کردار تاریخ میں ملتا ہے لیکن وہیں کچھ ایسی شخصیات بھی سامنے آتی ہیں جو اپنے وطن اور قوم سے غداری کرتے ہیں ،ایسی شخصیات کو اپنی ذات، اپنے مفادات سب سے زیادہ عزیز تھے۔۔۔۔!! معزز قائرین! آج میں نے جو اپنے کالم کیلئے عنوان منتخب کیا تھا اس کا نام ویسٹ پاکستان کمپنی رکھا اس کی وجہ یہی ہے کہ جس طرح سن سولہ سو مین سلطنت برطانیہ کی قائم کردہ جاسوس کمپنی ایسٹ انڈیا نے برطانوی حکومت کیلئے راہ ہموار کی اور ان کی وفاداری کرکے سلطنت برطانیہ کو مالی و جغرافیائی سطح پر بلند کیا آج بھی اس کے اثرات ختم نہ ہوئے، پاکستان یوں تو آزادی ملک کہلاتا ہے مگر پاکستان کی قسمت اور مستقبل کے فیصلے امریکہ اور برطانیہ کے حکم پر ہوتے ہیں دوسرے لفظوں میں پاکستان آج بھی برطانوی نو آبادی کالونی میں سے ایک کالونی ہے، یہاں کی عسکری ، جمہوری اور دیگر سطح کے مالی اموراور فیصلے باہر ہی ہوتے ہیں ،آج پاکستان پر اگر نظر دوڑائی جائے تو ہم یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں گے کہ پاکستان اب ایسٹ اینڈیا کمپنی کی طرح اسی حالت میں کھڑا ہے بس نام بدل گیا ہے یعنی اب ویسٹ پاکستان کمپنی بن گیا ہے کیونکہ آزادی کا سانس لینے والے عوام اپنے لیڈران کی غلط پالیسیوں، غلط اقدامات، غلطی در غلطی کی سزا بھگتنے کیلئے ویسٹ پاکستان کمپنی بننے پر مجبور ہوگئے ہیں۔!! امریکہ ہو یا برطانیہ یہ دونوں ممالک پاکستانی سیاست، معاشرت، اقتصادیت اور عسکریت کو جگڑے ہوئے ہے، ہم اپنے اخبارات و ٹی وی چینلز میں خبروں سے آگاہ ہوتے ہیں کہ ہمارے ذمہ داران مشاورت کیلئے کبھی امریکہ تو کبھی برطانیہ کی جانب دوڑیں لگا رہے ہیں ، ان سب کی دوڑ کا مقصد عوامی مسائل کا حل ہر گز نہیں ہوگا اور نہ ہی ریاست کی بہتری کیلئے!! ان کا مقصد اپنے اقتدار کی بقا و سلامتی اور اپنی کابینہ کے تحفظ شامل ہوتا ہے ، افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک جماعت ایسی نہیں جو قومی بنیاد پر قائم ہو اور اسے صرف اور صرف ریاست پاکستان اور پاکستانی عوام کا خیال ہو ! پی پی پی سندھ کارڈ، پی ایم ایل نون و قاف پنجاب کارڈ، پی ٹی آئی، اے این پی پختون کارڈ، ایم کیو ایم مہاجر کارڈ۔۔۔!! دینی سیاسی جماعتوں نے بہت ہی زیادہ مایوس کیا ہے ،ان کی منافقت اور ریاکاری کے سبب پاکستانی عوام ان پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں ، عوام جائیں تو کہاں جائیں ؟؟؟ برصغیر پاک و ہند میں انگریز ہندو و مسلم کے حریف تھے لیکن یہاں تو ہر جگہ حریف نظر آتے ہیں ، پاکستان لسانیت، مسلک کی جنگ مین اس قدر ڈوب چکا ہے کہ اسے بیرونی قوتوں کے چنگل سے فی الفور نکلنا ہوگا بصورت پاکستان کی ترقی حقیقت میں نطڑ نہیں آسکے گی یوں تو پاکستان کو اللہ نے ہر نعمت سے نوازا ہے مگر ہماری کوتاہی، لاپروائی، بد دیانتی، خود غرضی، اقربہ پروری، بغض و عناد، نفرت اور مفادات کے سبب پاکستان بربادی کی جانب بڑھ رہا ہے ، کسی بھی ملک کی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں ہوسکتی جب تک کہ وہاں امن و امان مستقل بنیادوں پر قائم نہ کیا گیا ہو!! کے پی کے حکومت کو چاہیئے یہ تھا کہ فی الفور افغان مہاجروں کو واپس افغانستان روانہ کیا جاتا لیکن عمران خان اس سنگین مسلہ کو بہت معمولی لے رہے ہیں دوسری جانب میاں شہباز شریف پنجاب میں کالعدم تنظیموں کے خلاف آپریشن کرنے پر تیار نہیں، سندھ اور بلوچستان مین پاکستان بھر سے زیادہ مجرم موجود ہیں اور جرائم کی شرح یہاں حد سے زیادہ پائی جاتی ہے ، مجرموں کو جب تک سزا کے عمل سے گزار نہیں جاتا جرم کنٹرول ہر گز نہیں ہونگے۔!! ویسٹ پاکستان کمپنی کو ختم کرنے کا ایک ہی راستہ ہے وہ عوام اور اداروں کے پاس ہےیعنی ادارے پاکستان اور عوام کیلئے آئین کے مطابق کاروائی کریں بلا تفریق اور عوام اپنے ووٹوں سے نا اہل ، غدار، منافق، جھوٹے، لٹیرے سیاستدانوں کو ووٹ نہ دیکر ان کا مکمل بائیکاٹ کردیں اور نئے لوگوں کا انتخاب کریں آزاد امیدواروں کا کہ شائد ان میں بہتر لوگ منتخب ہوجائیں اور پاکستان اپنے قرض سے آزاد ہوکر ویسٹ پاکستان کمپنی کا خاتمہ بھی ممکن بناسکیں گے۔۔!! جب تک ہم بھیک لیتے رہیں گے اُس وقت تک بیرون قوتیں ہمیں اپنےمقاصد کیلئے استعمال کرتی رہیں گی اور ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے محروم رہیں گے ، ہمیں قائد اعظم محمد علی جناح کا پاکستان اس وقت ممکن نظر آئے گا جب ریاست پاکستان میں قابلیت و اہلیت کو فوقیت دی جائے، اقربہ پروری اوراداروں سے سیاسی مداخلت مکمل ختم کردی جائے، بین الصوبائی سطح پر روزگار کا اہتمام کیا جائے، بین الصوبائی سطح پر متوازن بجٹ کی تقسیم اور ترقیاتی امور طے کیئے جائیں، اداروں سے رشوت، کرپشن، لوٹ مار کا خاتمہ کیا جائے، انصاف پر مبنی ترقی دی جائے، مورثی سیاست کا خاتمہ یقینی بنایاجائے، میڈیا کو آزاد مگر اخلاقیات پر پابند کیا جائے۔۔۔۔!!

کسی بھی ملک کی ترقی کا پنامہ اس کی تعلیم و صحت اور بینادی ضروریات پر ہوگا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں انسانی بنیادی ضروریات حکومت وقت پر ہوتی ہے اور حکومت عوام سے لیئے گئے ٹیکس کی مد میں تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی ممکن بناتی ہے لیکن پاکستان میں لیئے گئے ٹیکس ذاتی جیبوں کی نذر ہوجاتے ہیں جو عدم توازن کا سبب بنتے ہیں جس کی وجہ سے پاکستان مشکل در مشکل حالات سے دوچار ہوتا ہے ، اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کب ویسٹ پاکستان کمپنی سے اپنی جان چھڑاتا ہے ، اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ایماندار و مخلص لیڈران عطا کرے اور عوام میں شعور بیدار کرنے کی صلاحیت پیدا کرے تاکہ عوام سے غلطی در غلطی کا سلسلہ ختم ہوسکے اور ووٹنگ کے وقت وہ عدل و انصاف کیساتھ صحیح لوگوں کا انتخاب کریں۔الیکشن کمیشن کی بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ انتخابات کے موقع پر انصاف کے تفاضوں کو بروکار لائے ہوئے ووٹوں کے سلسلے بہتر شفاف ترین بنائے۔۔!! پاکستان زندہ باد ، پاکستان پائندہ باد۔۔۔!!
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 273575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.