ڈوبتا سورج

رابندر ناتھ ٹیگو رنے کہا ہے’’ڈوبتے ہوئے سورج نے پوچھا، کوئی ہے جو میری جگہ لے۔ ٹمٹماتے ہوئے دئیے نے کہا: ہاں میں کو شش کروں گا۔‘‘

ہر ایک کویہی غلط فہمی کہ جو وہ ہے کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا جو کام اس سے سرانجام ہو رہے ہیں۔ وہ کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا۔ مگر ڈوبتے سورج کا ایک وقت مقرر ہوتا ہے اسے ہر حال میں اسی وقت ڈوبنا ہوتا ہے۔ فطری طور پر ہر چیز کو فنا ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ تاریخ کے ورق اٹھا کر دیکھیں۔ وہ حکمران جنہیں لوگ پھولوں میں تولتے ہیں وقت آتا ہے کہ ان کے لاشے رسوں سے جھول رہے ہوتے ہیں۔وہ اہل اقتدار جن کی خاک پا کولوگ سرمہ جان کر اپنی آنکھوں میں ڈالتے ہیں ۔ بدلتے وقت کے ساتھ ہی ان اہل اقتدارکی آنکھوں میں سلائی پھیر دی جاتی ہیں۔یہ نہیں کہ ایسا وقت یکدم آتا ہے۔ حالات بتدریج یہ صورت اختیار کرتے ہیں ۔ وہ لوگ جو حالات کو جلدی سمجھ جاتے ہیں اور چلتے دھاروں کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں ۔ رعایت پاتے ہیں اور جو لوگ حالات کو نہیں سمجھ پاتے۔ وقت کو احمقانہ انداز میں ٹالنے یا اپنے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ، المناک انجام سے دو چار ہوتے ہیں۔

اقتدار بڑی عجیب اور کشش والی چیز ہے ۔لوگ اقتدار کو طول دینے کی خاطر ستم اور ظلم کی شرمناک داستانیں رقم کرتے ہیں اور یہ سب جو روستم گھوم کر بالآخر ان کے پاس واپس آتا ہے۔ پچھلے چند دن کی صورتحال دیکھ دیکھ کر میں پریشان ہو رہا ہوں ، کہتے ہیں انسان اپنے ہاتھ سے گر ہیں لگاتا ہے اور آخر وہی گرہیں اسے بعد میں منہ سے کھو لنا پڑتی ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکمرانوں کے طرزعمل کو افسوسناک یا بے حسی کہنا بڑی معمولی سی بات ہے۔ ایک سیاسی پارٹی کی طرف سے احتجاج کی دھمکی کے جواب میں پورے پنجاب کو سیل کر دیا گیا۔ کونسی سڑک اور کونسا راستہ ،جو اسلام آباد کو جاتا تھا۔ بند نہیں کیا گیا۔ ہر سٹرک کنٹینر لگا کر بند کر دی گئی ۔ پنجاب کی حد میں جوکنٹینر داخل ہوا وہ پولیس نے قابو کر لیا کہ چلو اس کی مدد سے کوئی سڑک بند کی جائے۔یہ سو چے سمجھے بغیر کہ کنٹینر کس کاہے اور اس میں سامان کیاہے اور وہ لوگ کس مشکل کا شکار ہو گئے ہوں گے۔حکومت کی یہ کنٹینر گردی تو سب نے دیکھی ۔ بند سٹرکیں سب کو نظر آئیں۔ لوگ ایک شہر سے دوسرے شہر جانے سے محروم رہے یہ تو سب نے دیکھا ، حکومت جس کا کام عوام کو سہولتیں مہیا کرنا ہے۔ اپنے مفاد کے لیے ہر چیز برباد کرتی تو سب کو نظر آئی مگر ان کنٹینروں کو زبردستی قابو کرنے سے کس کس کا کتنا نقصان ہوا کوئی جان نہیں پایا۔ ان کنٹینروں کے پیچھے مجبور لوگوں کے بہتے آنسو کسی نے نہیں دیکھے۔ ہفتہ بھر کنٹینر پولیس کے قبضہ میں رہے اور متاشرہ لوگوں کے دکھ اور درد کو کوئی نہیں جان سکا حالانکہ یہ ایک انتہائی المناک داستان ہے۔ انسانوں کے حقوق چھیننے کی۔ ان کیساتھ لوٹ مار کرنے کی۔ انہیں کئی دن تک کرب میں مبتلا کرنے کی۔انہیں مالی نقصان پہنچانے کی۔انہیں ذہنی طور پر ہراساں کرنے کی۔ کاش سپریم کورٹ اس کا بھی نوٹس لے۔ ان کنٹینر مالکوں اور اس میں سامان منگوانے والے امپورٹروں کی بات بھی سنے اور آئندہ انہیں بار بار کی پولیس گردی سے بچائے۔

میرے ایک انتہائی قریبی عزیز کا فون آیا۔ پوچھنے لگا کہ کیا پولیس میں کوئی بڑا افسر جاننے والا ہے۔ میں نے پوچھا ،خیریت ! اﷲ رحم کر ے پولیس کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ کہنے لگا میں نے کچھ مال امپورٹ کیا ہے۔ تین چار روز پہلے وہ کنٹینر جس میں میرا مال تھا۔ لاہور پہنچ گیا تھا۔ آج کسٹم اور دیگر ڈیوٹیوں کی ادائیگی کے بعد وہ کنٹینر درائی پورٹ سے نکل کر اس سے ملحقہ ایک محفوظ کمپاؤنڈ میں کھڑا ہے۔ میرا مال مجھ تک پہنچانے اب اسے میرے گودام تک لانا ہے۔ڈر نہیں یقین ہے کہ پولیس اسے راستے میں اچک لے گی اس لیے کسی تگٹرے پولیس والے کی مدد درکار ہے ۔ صورتحال کے بارے میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ کل سولہ کنٹینر نکلے تھے۔ پندرہ پولیس نے اسی وقت قابو کر لیے۔ ایک بند ے کا کوئی رشتہ دار پولیس آفسر تھا۔ وہ ایک پولیس گاڑی کی نگرانی میں اپنا کنٹینر اپنے گودام میں لے آیا۔ گودام کے باہر آدھ گھنٹے تک پولیس نگرانی کرتی رہی اور پھر مطمئن ہوکر چلی گئی۔ اس پولیس کے جانے کے پندرہ منٹ بعد کنٹینر پکڑ نے والی پولیس آ گئی۔ وہ لوگ ابھی مال اتار رہے تھے ۔ بڑی مشکل سے کچھ دے دلا کر پورا سامان اتارہ اور پھر کنٹینر ان کے حوالے کر دیا۔

میں نے ہنس کر کہا کہ بھائی جب اس قدر سختی کا عالم ہے تو پولیس والا کوئی بھی آپ کی مدد کو نہیں آئے گا۔ مگر میرا مشورہ ہے کہ تم رسک نہ لو۔ چار پانچ دن انتظار کرو۔ صورت حال ٹھیک ہو گی تو مال اپنے گودام میں لے آنا۔ جواب ملا۔ انتظار کیوں کرو۔ میں اپنے پچیس ، تیس ہزار بچانا چاہتا تھا۔ کیونکہ آج پنتیس(35) لاکھ روپے کسٹم اور دیگر ڈیوٹیوں کی مد میں ادائیگی پر خرچ ہو گئے ہیں اور اب کیش کم ہے۔ مگر آپ صحیح کہتے ہیں۔ رسک نہیں لیتا۔ اس وقت میرے مال کی مالیت تقریباً ایک کروڑ روپے ہے میں چار پانچ دن انتظار کرنے کی بجائے ابھی پچیس ، تیس ہزار خرچ کر کے مزدا ٹرکوں پر مال منتقل کرکے گودام لے جاتا ہوں۔ ایک تو پانچ دنوں میں آدھا بک جائے گا۔ دوسرا چار ، پانچ دن کنٹینر ہمارے پاس رہے گا تو جہازراں کمپنی بڑا معقول جرمانہ وصول کرے گی۔ اصل مشکل یہ ہے کہ جو کنٹینر پولیس کے ہتھے چڑھ جاتا ہے۔ اس کو واپس کرنے سے پہلے پولیس اس کی سیلیں توڑ کر سامان چیک کرتی ہے۔ مطلب کا ہو تو آدھا کنٹینر خالی اور اگر مال ان کے مطلب کا نہ ہو تو بھی ممکن نہیں ہوتا کہ سامان پوری طرح سلامت آپ کے پہنچ جائے۔ پولیس خراج کی طرح معقول سامان وصول کرتی ہے۔ کنٹینر کا ایک معقول حصہ خالی ہو جاتا ۔ ایک کروڑ مالیت کے سامان میں سے دس بیس لاکھ کا مال خرد برد ہو جائے تو امپورٹر کا اچھا بھلا بزنس تباہ ہو جاتا ہے۔ انشورنش والے بھی اس لوٹ مار کو قبول نہیں کرتے اور حکومت کا کوئی شخص اس لوٹ مار کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔

کنٹینر جس ٹرک پر آتا ہے اس ٹرک کے عملے کو چابی چھین کر بھگا دیا جاتا ہے ۔ چونکہ وہ عملے کے لوگ محدود خرچہ لے کر گھر سے نکلتے ہیں اسلئے خرچہ ختم ہو جاتا تو وہ مختلف ٹرک سٹینڈوں پر جا کر خرچے کے لیے ذلیل ہوتے ہیں۔ اور ابتلا کا دور ختم ہونے پر بڑی مشکل سے اپنا کنٹینر تلاش کرتے ہیں۔ حکمرانوں کو یاد رہے ظلم کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ فطرت خود انتقام لیتی ہے اور وہ مانیں یا نہ مانیں ان کے اقتدار کا سورج ہر حال میں ڈوب رہا ہے۔عوام کو یقین ہے کہ سپریم کو ر ٹ میں ڈوبتے سورج کی داستان رقم ہونے جا رہی ہے ۔ موجودہ حالات میں نہ تو مسلم لیگ (ن) میں سپریم کورٹ پر حملے کی جرات ہے اور نہ ہی وہ زر خرید جج کہ بازی آپ کے حق میں پلٹ دیں۔
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500477 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More