بول، یہ تھوڑاوقت بہت ہے!

 حالیہ دنوں میں لگاتارحالات اس تیزی سے بدل رہے ہیں کہ ذہن و دماغ پرحیرانی سی طاری ہوئی جاتی ہے،ایک مسئلے کو دبانے کے لیے دوسرامسئلہ پیدا کیا جا رہاہے،ایک حادثہ ٹل نہیں پاتاکہ دوسراحادثہ رونماہوجاتاہے۔یکساں سول کوڈکے شورشرابوں اوران کے جواب میں نمایندہ مسلم اداروں کی’’تحفظِ شریعت کانفرنسوں‘‘کے دوران اچانک بھوپال میں ایک اندوہ ناک واقعہ رونماہوا،فرضی انکاؤنٹرکا،جس میں مدھیہ پردیش کی حکومت،وہاں کی پولیس سب راست طورپر شریک رہی۔آٹھ مسلم قیدیوں کومنظم منصوبہ بندی کے ساتھ پہلے جیل سے نکالاگیا،پھرایک مقام پر لے جاکر سب کاانکاؤنٹرکردیاگیا،ابتداء اً اس خبرکی پیش کش میں قومی ہندی میڈیانے نہایت ہی گھناؤنااور غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتے ہوئے پورے زوروشورسے یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ مدھیہ پردیش کی پولیس نے آٹھ دہشت گردوں کومارگرایا،حالاں کہ گوان پرمتعددکیسز چل رہے تھے اوران میں دہشت گردی کابھی کیس تھا؛لیکن اب تک کوئی بھی الزام ثابت نہیں کیاجاسکاتھا،جمعیۃ علماے مہاراشٹر،جوان نوجوانوں میں سے کئی کامقدمہ لڑرہی تھی،اس نے اپنے بیان میں واضح کیاکہ وہ جلد ہی بری ہونے والے تھے اوران کے خلاف کوئی متعلقہ الزام ثابت نہیں کیاجاسکاتھا۔اس واقعے پر ملک کے تمام باشعور اور سنجیدہ سیاست دانوں،دانشوروں ، صحافیوں اور سیاسی تجزیہ کاروں نے سخت تشویش کا اظہارکیا؛بلکہ سابق جج مارکنڈے کاٹجونے توان پولیس والوں کوسزاے موت دیے جانے کی بات کی، جو اس فرضی انکاؤنٹرمیں شامل تھے،پھراس واقعے کی ویڈیوزاور بعدمیں پولیس کنٹرول روم کی آڈیو(جس کوجانچ کے لیے سی آئی ڈی کے سپردکیاگیاہے)کے سامنے آنے کے بعدتواور بھی واضح ہوگیاکہ وہ انکاؤنٹرسراسرجعلی تھا،اس کے علاوہ مقتولین کے لباسوں،ایک ہی مقام پر سب کے نشان زدہونے اور ان کی جانب سے کیے جانے والے حملوں پرپولیس کے متضادبیانات نے بھی ایم پی پولیس کی ناکامی اور ساتھ ہی درندگی کی پول کھول کر رکھ دی ۔قومی سطح کے بیشتر سیاسی لیڈران نہ صرف اس فرضی تصادم کی مذمت کررہے ہیں؛بلکہ پورے واقعے کی عدالتی تفتیش کابھی مطالبہ کررہے ہیں،بوکھلاہٹ میں بی جے پی نے عجیب عجیب لطیفے بھی گڑھے،جن کا سوشل میڈیاپرجم کر مذاق اڑایاگیا،مثلاً یہ کہ ان قیدیوں نے لکڑی کی چابی سے سینٹرل جیل کاتالا کھول لیاتھااوریہ کہ انھوں نے چمچے،گلاس وغیرہ سے سیکورٹی گارڈپرحملہ کیاوغیرہ۔شروع میں توایم پی حکومت واقعے کے صرف اس پہلوکی جانچ کوتیارتھی کہ وہ قیدی کیسے فرار ہوئے؛لیکن متعددصوتی و مشاہداتی شواہدکے سامنے آنے کی وجہ سے چہارطرفہ مطالبوں کے بعداب اس نے انکاؤنٹرکی جانچ کابھی فیصلہ کیاہے اورخبرآرہی ہے کہ ہائی کورٹ کے سابق جج ایس کے پانڈے اس پورے معاملے کی تفتیش کریں گے۔

ویسے فرضی انکاؤنٹرآزادہندوستان میں کوئی انوکھاواقعہ نہیں ہے،ماضی میں گجرات،یوپی اور دہلی میں ایسے کئی فرضی انکاؤنٹرکانگریس اور بی جے پی دونوں سرکاروں میں ہوچکے ہیں۔اب حالیہ واقعے کے رونماہونے کے بعدپھرسے فرضی انکاؤنٹراور پولیس کے کردارپر بحث مباحثہ شروع ہوگیاہے۔اس سے انکارنہیں کیاجاسکتاکہ بعض دفعہ پولیس کے پاس مجرم پر قابوپانے کے لیے ایک آخری چوائس انکاؤنٹرہی ہوتاہے؛لیکن اس سے زیادہ روشن حقیقت یہ ہے کہ عموماً پولیس انکاؤنٹرکے آپشن کواپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے وسیلے کے طورپراستعمال کرتی ہے،وہ توبھلاہوان گاؤں والوں کا،جنھوں نے مذکورہ واقعے کی ویڈیوبنالی اور ایم پی پولیس کی سفاکیت کاکھیل سرعت کے ساتھ پورے ملک کے سامنے آگیا،ورنہ ملک کے مین اسٹریم میڈیانے توپولیس کی شاباشی اورتحسین و آفرین کاہی سلسلہ شروع کردیاتھااورچوں کہ وہ آٹھوں کے آٹھوں مسلمان تھے اور ان پر سیمی کے ارکان ہونے کابھی الزام تھا؛اس لیے لوگوں نے پولیس کی کہانی کوقبول کرنابھی شروع کردیاتھا۔معروف صحافی روش کمارنے این ڈی ٹی وی پراپنے’’پرائم ٹائم‘‘میں بھوپال کے فرضی انکاؤنٹرپر گفتگوکرتے ہوئے ایک معقول بات کہی کہ یہ مسئلہ مسلمان یاہندوکانہیں ہے،مسئلہ یہ ہے کہ کیااس طرح کے فرضی انکاؤنٹرپرپولیس کابروقت مؤاخذہ ہوناچاہیے یا نہیں؛ کیوں کہ بہت سے فرضی انکاؤنٹرمیں مسلمانوں کے علاوہ دوسرے لوگ بھی مارے جاتے رہے ہیں،پھرانھوں نے کئی مثالیں بھی پیش کیں۔البتہ اس زمینی حقیقت سے انکاربھی نہیں کیاجاسکتاکہ بہت بارپولیس تعصب کے تحت بھی ایساکرتی رہی ہے۔دراصل مسلمانوں کے تئیں ایک ایسی فضاتیارکرنے کی مسلسل کوشش کی جارہی ہے ،جس میں ان کاپولیس کے ذریعے پکڑاجانا،قیدکیاجا نااور پھر فرضی تصادم میں ماردیاجاناایک معمولی واقعہ بنتا جا رہاہے۔ایسالگتاہے کہ بیس سال پچیس سال تک دہشت گردی جیسے سنگین ترین الزام میں جیل میں بند رہنے کے بعدسپریم کورٹ کے ذریعے مسلم نوجوانوں کابری کیاجانابھی ہندوستانی حکومت کوکھٹکنے لگاہے؛اس لیے ایک مخصوص منصوبہ بندی کے تحت ایسے مسلم نوجوانوں کوجیل میں ہی ماردینے کاسلسلہ شروع کردیاگیاہے۔

ایک دوسراواقعہ قومی دارالسلطنت دہلی کی معروف ترین دانش گاہ جواہرلال یونیورسٹی کاہے،جہاں سے ایک طالب علم نجیب احمد22 دنوں سے لاپتا ہے، اس کی دستیابی کے تئیں جہاں یونیورسٹی انتظامیہ نے نہایت ہی غیر ذمے دارانہ اور شرمناک رویہ اختیارکیا،وہیں دہلی پولیس نے بھی اپنی فرض شناسی کا ثبوت نہیں دیا،جب جے این یوسمیت مختلف یونیورسٹیوں کے طلبہ کی جماعتیں اکٹھاہوئیں،انھوں نے پرزورطریقے سے احتجاج کیااور مغوی طالب علم کی بازیابی کے لیے حکومتِ ہنداور دہلی پولیس کوباربارکچوکے لگائے،تب جاکروزارتِ داخلہ کچھ حرکت میں آئی اور دہلی پولیس نے بھی معاملے کوسنجیدگی سے لیا۔ویسے اتنے دن گزرنے اورمختلف سطحوں پرکوششوں کے باوجوداس طالب علم کاتاہنوزکوئی سراغ نہ لگ پانابذاتِ خودایک تشویش ناک امرہے،حیرت ہے کہ اس سلسلے میں پولیس نے ان طلبہ سے پوچھ تاچھ تک نہیں کی،جن کے ساتھ غائب ہونے سے پہلے نجیب کی کہاسنی ہوئی تھی،انھوں نے اس وقت بھی اسے مارا تھا؛ بلکہ جان سے مارنے کی بھی دھمکی دی تھی،یہ بھی ذہن میں رہناچاہیے کہ وہ سارے طلبہ آرایس ایس-بی جے پی کے طلبہ ونگ اے بی وی پی سے تعلق رکھنے والے تھے۔جے این یواسٹوڈینڈ یونین اوروہاں کے طلبہ کی مسلسل کوششوں کے بعداب چوٹی کے سیاست داں بھی اس معاملے سے دلچسپی لے رہے ہیں، نجیب احمدکی والدہ نے دہلی کے وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال سے ملاقات کرکے بھی اپنے بیٹے کی بازیابی کی اپیل کی تھی،اس کے بعد جمعرات کوکیجریوال اوران کے علاوہ کانگریس کے بڑے لیڈران ششی تھرور،منی شنکرایئراورسی پی ایم کے لیڈران بھی جے این یوکیمپس پہنچے ،کیجریوال نے وہاں اپنی گفتگومیں مددکی یقین دہانی کراتے ہوئے طلبہ سے کہاکہ آپ اس احتجاج کوباہرلے کر چلیے،بی جے پی پرانھوں نے کٹیلے طنزبھی کیے۔سیاست داں کیاکہہ رہے ہیں،اس سے قطعِ نظراصل چیزیہ ہے کہ مذکورہ طالبِ علم کی دستیابی کویقینی بنایاجائے،یونیورسٹیوں کے طلبہ تواس معاملے میں اپنی ساری کوششیں صرف کررہے ہیں، مگراس کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیموں کواورخاص طورسے مسلمانوں کے نمایندہ اداروں کوبھی ایک دردکی ماری ہوئی ماں کی مددکے کے لیے آگے بڑھناچاہیے ، اس سلسلے میں ایک خبر پر نظرپڑی کہ نجیب کے اہلِ خانہ موجودہ حکومت اور دہلی پولیس کی غیرسنجیدگی اوربے رخی سے تونالاں ہیں ہی،مگرانھیں اس بات کابھی قلق ہے کہ مسلم تنظیمیں ان کی ہم آوازنہیں ہورہیں۔بظاہریہ ایک طالبِ علم کاواقعہ ہے؛لیکن اگر اس معاملے میں سنجیدہ اور مطلوبہ اقدامات نہ کیے گئے، تو پھر آیندہ کسی بھی تعلیمی ادارے کاکوئی بھی طالب علم محفوظ نہیں ہوگا،یہ حادثہ آیندہ پیش آنے والے ممکنہ حادثوں کاپیش خیمہ ثابت ہوگا۔پھریہ کہ جس فکراورنظریاتی نرگسیت کے تحت اسے انجام دیاگیاہے،اس کی وجہ سے بھی اس طالب علم کی بازیابی کے لیے ہر باشعور،جمہوریت پسندانسان کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے، ایک ماں کادرداور اس کی آنکھوں سے جاری سیلِ اشک بھی انسانی ہمدردی کا تقاضاکرتے ہیں۔حکومت اور پولیس پرجب تک مؤثردباؤنہیں ڈالاجائے گا، ان کومعاملے کی حساسیت کی سمجھ نہیں آئے گی۔

تیسراواقعہ معروف نیوزچینل این ڈی ٹی وی پرسرکاری عتاب کانازل ہوناہے،اسی سال جنوری میں رونماہوئے پٹھان کوٹ حادثے کی کوریج میں غیر سنجیدگی کامظاہرہ کرنے اور بعض حساس معلومات کونشرکرنے کے الزام میں چینل کوایک دن کے لیے(9نومبرکو) اپنی نشریات بندکرنے کاحکم دیاگیاہے،اس سے بھی قومی سطح پراُبال ساپیداہوگیاہے،انفارمیشن اینڈبراڈکاسٹنگ منسٹری کی جانب سے بھیجی گئی نوٹس کے جواب میں این ڈی ٹی وی کی جانب سے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہاگیاہے کہ مذکورہ حادثے پرہمارے چینل کی کوریج بھی دیگر چینلوں ہی کی طرح تھی؛بلکہ بہت حد تک ان سے بھی متوازن اور معتدل تھی ،اس کے باوجودایک دن نشریات روکنے کافرمان ایمرجنسی کے دنوں کی یادتازہ کراتا ہے،جب پریس کوبیڑیوں میں جکڑدیاگیاتھا۔جمعہ کوروش کمارنے اپناپرائم ٹائم بھی غیر روایتی اندازمیں پیش کیا،انھوں نے خاموش اداکاروں کوبلاکرعلامتی اندازمیں نہ صرف یہ کہ حکومت کے نوٹس پرطنزکیا؛بلکہ ساتھ ہی یہ سوال بھی کیاکہ اگر میڈیاحکومت سے سوال نہ کرے،اس کی حصول یابیوں کی کھوج اور خامیوں کی نشان دہی نہ کرے تووہ کیاکرے۔ایسااندازہ لگایا جا رہا ہے کہ چوں کہ این ڈی ٹی وی واحد ایسا چینل ہے،جودوسرے نیوزچینلوں کے برخلاف مودی حکومت اور اس کی خامیوں کی نشان دہی کرتا رہا ہے، خاص طورسے اس کے اینکرروش کمارکی غیر جانب دارانہ و بے باکانہ روش سے حکومت کوخطرہ محسوس ہورہاہے،اسی لیے اس چینل پرلگام کسنے کے لیے ایک حربہ اختیارکیاگیاہے،دوسری طرف اس فیصلے کی نیشنل پیمانے پر پر زور مخالفت ہورہی ہے،جتنے بڑے بڑے صحافی ہیں،سبھوں نے اس فیصلے کوغیر منصفانہ اور جابرانہ قراردیاہے،ایڈیٹرزگلڈاین ڈی ٹی وی کی حمایت میں ہے،اروندکیجریوال نے تمام چینلوں سے اپیل کی ہے کہ وہ این ڈی ٹی وی اظہارِ یکجہتی کریں اور آنے والی9تاریخ کواپنے چینلوں کی نشریات بھی ملتوی کردیں؛کیوں کہ ہوسکتاہے آیندہ ان کے ساتھ بھی یہ حادثہ پیش آجائے،ممتابنرجی اور لالو پرشاد وغیرہ نے بھی اس فیصلے کوجابرانہ قراردیاہے۔ابھی دوتین دن پہلے روزنامہ انڈین ایکسپریس کے ذریعے منعقدکیے گئے ایک تقسیم انعامات کی تقریب میں خودمودی کی موجودگی میں اخبارکے چیف ایڈیٹرراج کمل جھانے بھی حکومت کوبہت ہی خوب صورت اندازمیں آئینہ دکھایاتھا،چھ سات منٹ کی اس تقریر کے دوران اسٹیج پرموجودمودی جی کے چہرے پر کئی رنگ آتے اور اڑتے ہوئے صاف دیکھے گئے۔

دراصل میڈیاہی مودی کی طاقت ہے،انھوں نے حکومت میں آنے کے بعدفوراًہی میڈیاکی لگام اپنے ہاتھ میں لینے کاسلسلہ شروع کیااورانھیں اب تک خاطرخواہ کامیابی بھی ملی ہے؛چنانچہ زیادہ ترنیوزچینل وہی دکھاتے ہیں،جوحکومت کی منشاہے؛لیکن اب بھی کچھ چینلز،کچھ اخبارایسے ہیں جواپنے پیشہ ورانہ رویے سے سمجھوتاکرنے کوتیارنہیں،توان کوخاموش کرنے کے وسائل بھی حکومت نے تلاش کرلیے ہیں۔

اس وقت ہندوستانی جمہوریت واقعی ایک عجیب و غریب دوراہے پر کھڑی ہے،حالات کی نزاکت متقاضی ہے کہ ہرہندوستانی جہاں تک ہوسکے اس کے دامن کودریدہ ہونے سے بچانے کی فکرکرے،اس کے لیے ایک راستہ وہ ہوسکتاہے،جسے ٹائمس آف انڈیاکے اکشے مکل نے اختیار کیا، انھوں نے مودی کے ہاتھ سے ایوارڈلینے سے منع کردیااوران کے آنے کی وجہ سے ’’رام ناتھ گوئنکاایوارڈفنکشن‘‘میں شریک نہیں ہوئے؛لیکن راج کمل جھااورروش کمارکاطریقہ زیادہ لائقِ تقلیدوتحسین ہے:
بول کہ لب آزادہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گرکی دکاں میں
تندہیں شعلے،سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلاہر اِک زنجیر کادامن
بول،یہ تھوڑاوقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول،جوکچھ کہناہے کہہ لے!

Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 21974 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.