جب جنگ بندی لائن پر پاک بھارت افواج میں گولہ باری کا
تبادلہ ہو رہا تھا، اس وقت عالمی مبصرین ہیڈ کوارٹر منتقل کرنے کی تیاریاں
کر رہے تھے۔اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کا ہیڈ کوارٹر 6ماہ سرینگر میں کام
کرنے کے بعداسلام آباد منتقل ہو چکا ہے ۔یہ بھی’’ دربار مو‘‘ کی طرح کام
کرتا ہے۔ دربار مو مہاراجوں کی ایجاد کردہ طریق حکومت تھی۔ بہار کی آمد کے
ساتھ ہی یہ اپنا لاؤ لشکر اور درباریوں کو لے کر کشمیر پہنچ جاتے۔ تا کہ
جموں کی دھوپ کی تپش اور گرم درجہ حرارت سے بچ جائیں۔ جب کشمیر میں شدید
سردی شروع ہوتی ، ہر چیز اس سے متاثر ہو جاتی۔ پانی جم جاتا تو یہ وادی کے
عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر جموں بھاگ جاتے۔اقوام متحدہ کے فوجی
مبصرین بھی یہی کرتے ہیں۔چیف ملٹری آبزرور میجر جنرل لودین موسم بہار کشمیر
میں گزارنے کے بعد اب اسلام آباد وارد ہو چکے ہیں۔ مبصرین سکیورٹی کونسل کی
قرارداد کے مطابق جموں و کشمیر کی جنگ بندی لائن کی نگرانی کیلئے تعینات
ہیں۔ جنوری 1949 سے یہ پاک بھارت افواج کے درمیان سیز فائر کی نگرانی کر
رہے ہیں۔ میجر جنرل جوزف بالی سے طورونن تک اقوام متحدہ کے کئی فوجی مبصرین
کے انٹرویوز کے دوران حقائق کا انکشاف ہوا۔ فوجی مبصرین نے کہا کہ 1971ء سے
بھارت نے جنگ بندی لائن کی خلاف ورزیوں کی کوئی شکایت نہیں کی ہے۔ پاکستان
نے ہزاروں کی تعداد میں شکایات درج کی ہیں۔
اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل نے سب سے پہلے جنوری1948کو اپنی قراداد 39کے
تحت یونائیٹڈ نیشنز کمیشن فار انڈیا اینڈ پاکستان (UNCIP)تشکیل دیا۔ تا کہ
وہ مسلہ کشمیر کی انوسٹیگیشن اور ثالشی کرے۔ اپریل 1948کو سکیورٹی کونسل نے
اپنی قرارداد47کے تحت یو این سی آئی پی کی رکنیت کو وسعت دینے اور کئی
اقدام کا فیصلہ کیا۔ جن میں مبصرین کو پاک بھارت جنگ بند کرانے کے لئے
استعمال کرنا بھی شامل تھا۔ یو این سی آئی پی کی سفارش پر ہی اقوام متحدہ
کے سکریٹری جنرل نے ایک ملٹری ایڈوائزر مقرر کیا تا کہ وہ ملٹری معاملات کے
بارے میں کمیشن کی مدد کرے۔ اس کی معاونت کے لئے ملٹری مبصرین کا ایک گروپ
فراہم کیا گیا۔ جنوری 1949کو فوجی مبصرین کی پہلی ٹیم مشن ایریا میں پہنچی۔
تا کہ وہ یو این سی آئی پی کے ملٹری ایڈوائزر کی مدد کر سکے۔ فوجی مبصرین
کا منڈیٹ ملٹری ایڈوائزر نے متعین کیا۔ یہ مقامی حکام کے ہمراہ انوسٹی گیشن
کریں گے، زیادہ سے زیادہ معلومات جمع کریں گے۔ مکمل ، درست اور غیر
جانبدارانہ رپورٹ کریں گے۔ مبصرین کو پاک بھارت کی فوج میں براہ راست
مداخلت سے منع کیا گیا تھا۔ کراچی معاہدہ تک یہی صورتحال تھی۔ کراچی معاہدہ
کے تحت یو این سی آئی پی جہاں ضرورت محسوس کرے، اپنے مبصرین تعینات کرے گی۔
مقامی پاک فوج کمانڈرز سے مل کر سیز فائر لائن کا جائز ہ لیا جائے گا۔
تنازعہ ملٹری ایڈوائز کو ریفر کیا جاتا۔ جس کا فیصلہ حتمی تصور کیا جاتا۔
مارچ1951کو یو این سی آئی پی کو ختم کر دیا گیا۔ سکیورٹی کونسل نے اپنی
قراداد 91کے تحت فیصلہ کیا کہ فوجی مبصرین جموں و کشمیر کی سیز فائر لائن
کو سپروائز کرنے کا کام جاری رکھیں گے۔ مبصرین کا یہ کام تھا کہ آبزرواور
رپورٹ کریں گے، سیز فائر کی خلاف ورزیوں کی شکایات کی تحقیقات کریں گے،
اپنی رپورٹ پاکستان اور بھارت کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کو
پیش کریں گے۔ 1971کی پاک بھارت جنگ کے بعد 17دسمبر 1971کو سیز فائر ہوا۔
1949کی سیز فائر لائن میں کئی تبدیلیا ں آئیں۔ تو سکیورٹی کونسل نے دسمبر
1971کو قراداد307منظور کی۔ جس میں بتایا گیا ہ تنازعہ کے علاقہ میں سیز
فائر لائن جاری رہے، جب تک دونوں افواج اپنے علاقوں اور پوزیشن پر واپس
نہیں چلی جاتیں۔پاکستان اور بھارت میں جب جولائی1972کو شملہ معاہدہ ہوا تو
اس میں لائن آف کنٹرول متعارف کی گئی۔ جنگ بندی لائن اب لائن آف کنٹرول بن
گئی۔ بھارت تب سے اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین کے کردار کو ختم قراردے رہا
ہے۔ پاکستان اس پوزیشن کو تسلیم نہیں کرتا۔ پاکستان اور بھارت کا اس بارے
میں مختلف موقف ہے۔ اس لئے اقوام متھدہ کے سکریٹری جنرل نے واضع کر دیا ہے
کہ UNMOGIPکو صرف سکیورٹی کونسل کے فیصلہ سے ہی ختم کیا جاسکتا ہے۔ فوجی
مبصرین کو سیز فائر لائن کی نگرانی اور اپنی رپورٹ سکریٹری جنرل کو پیش
کرنے کی ہدایات ہیں۔ فوجی مبصرین کی کل تعداد 40ہے۔ ان کا تعلق چلی، کروشیا،
فن لینڈ، فلپائن، کوریا، سویڈن، سویٹزر لینڈ اور یوراگوائے سے ہے۔ ان کی
معاونت کے لئے 23سول ملازمین غیر ملکی اور 45مقامی کام کر رہے ہیں۔چیف
ملٹری آبزرور کی معیاد دوسال ہوتی ہے۔ اقوام متحدہ کا ریگولر بجٹ مختص کیا
جاتا ہے۔ موجودہ سالانہ بجٹ تقریباً ایک کروڑساڑھے96لاکھ ڈالرز ہے۔ بھارت
نے مودی حکومت کے قیام کے فوری بعد فوجی مبصرین کو دہلی میں الاٹ کیا گیا
مفت بنگلہ خالی کرنے کا نوٹس بھی دیا تھا۔بعد میں یہ معاملہ ختم کر دیا گیا۔
مبصرین کا گرمائی ہیڈ کوارٹرسرینگر اور سرمائی راولپنڈی تھا۔ اب یہ ہیڈ
کوارٹر راولپنڈی سے اسلام آباد منتقل ہو گیا ہے۔ دہلی میں کیمپ آفس ہے۔ اس
طرح کے کیمپ دفاتر مظفر آباداورجنگ بندی لائن کے آر پار دیگر علاقوں میں
بھی قائم ہیں۔ دہلی کے پرانا قلعہ میں 1AB بنگلہ خالی کرنے کا حکم بھارت کی
طرف سے فوجی مبصرین کو ملک سے نکالنے کے اقدام کی ابتداتھی۔ مگر بھارت لاکھ
حربوں کے باوجود فوجی مبصرین کا کردار ختم کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا
ہے۔بھارت نے ہمیشہ اپنی سفارتی چالوں سے پاکستان کے موقف کو کمزور کرنے کی
کوشش ہے۔ دو طرفہ بات چیت کا واویلا کر کے بھارت نے عالمی سطح پر مسلہ
کشمیر کو عالمی مسلے سے دو طرفہ مسلہ بنا دیا ہے۔ اسے پاک بھارت سرحدی
تنازعہ کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ دنیا سے کہا جا رہا ہے کہ اقوام متحدہ
کا اب کوئی کردار نہیں۔ بھارت کی ہی شے پر مسلہ کشمیر کے بارے میں اقوام
متحدہ کو نفی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی بھارت کی اس لابی
کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ سب سے پہلی غلطی یہ تھی کہ فوجی مبصرین کے نام سے
کشمیر کو دو طرفہ مسلہ بنایا گیا۔ اس میں کشمیر کا نام تک شام نہ ہوا۔
UNMOGIPپاکستان اور بھارت میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرین۔ فوجی مبصرین
برائے کشمیر جنگ بندی لائن کو نظر انداز کیا گیا۔ اس سے قبل UNCIPمیں بھی
کشمیر کو نظر انداز کیا گیا۔ یہ دونوں کشمیر کے لئے تشکیل پائے لیکن بھارتی
سفارتکاری نے کام کر دکھایا۔ بھارت کی کوشش ہے کہ کسی طرح اقوام متحدہ کے
فوجی مبصرین یہاں سے چلے جائیں۔ وہ سکیورٹی کونسل میں قراداد لانے کی کوشش
بھی کر تاہے۔ اس بارے میں پاکستان کی سفارتکاری کا امتحان ہے۔ اسے چیلنج کا
سامناہے کہ وہ کس طرح بھارتی سازش کو ناکام بنائے گی۔ اس کے لئے بیان بازی
یا دفتر خارجہ کا موقف ہی کافی نہیں۔ بھارت کی جانب سے سیز فائر لائن کی
مسلسل خلاف ورزیوں کے بارے میں تفصیلات سے پوری دنیا کو آگاہ کیا جانا
چاہیئے۔ اسلام آباد میں عالمی سفارتکاروں کو بھارتی گولہ باری کے متاثرین
اور متاثرہ علاقوں کا دورہ کرانا چاہیئے۔ ہو سکے تو جنرل اسمبلی میں اس بار
بھارت کی کشمیر کی جنگ بندی لائن کی خلاف ورزیوں کا مسلہ اجاگر کیا جائے۔
بھارت پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ UNMOGIPکو منڈیٹ کے تحت کام کرنے دے۔ مبصرین
کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ |