صدر مسلم کانفرنس کا جنگ بندی لائن توڑنے کا اعلان قسط اول

’’جنگ بندی‘‘ کا مطلب کیا ہے یہ جاننے کے لیے کسی فلسفیانہ گفتگو کی ضرورت نہیں لیکن جب ہم ریاست جموں و کشمیر میں اڑسٹھ برس قبل عمل میں آنے والی ’’جنگ بندی‘‘ کی بات کرتے ہیں تو یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ کیا جموں وکشمیر میں جنگ بندی کی اصطلاع اپنا وجود کھو نہیں چکی؟جنگ بندی کا دورانیہ محدود ہوتا ہے جب کہ یہاں جنگ بندی کا دورانیہ لامحدود ہوتا چلا گیا ہے۔ جنگ بندی عارضی ہوتی ہے جب کہ جموں کشمیر میں یہ دائمی حیثیت اختیار کرتی چلی گئی ہے۔ جنگ بندی کرانے والی طاقت یا طاقتیں اس کی خلاف ورزی پر متعلقہ فریق کی سرزنش کرتی ہیں۔ جب کہ جموں کشمیر میں جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے پر بھارت کو کھلی چھوٹ حاصل ہے۔ جنگ بندی ہمیشہ متاثرہ فریقین کی رضامندی سے عمل میں لائی جاتی ہے جب کہ جموں و کشمیر میں جنگ بند ی کو کشمیریوں پر زبردستی ٹھونسا گیا ہے۔ مذاکرات کے میز پر قائد ملت چوہدری غلام عباس اور عسکری محاذ پر سالار مسلح تحریک آزادی مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان نے اپنی حد درجہ سیاسی بصیرت کے باعث جنگ بندی کی شدید مخالفت کی لیکن بد قسمتی سے اپنوں ہی کی حمائت میسر نہ آسکی اور کشمیری قیادت کے نہ چاہنے کے باوجود جنگ بندی کو تسلیم کر لیا گیا۔ پروفیسر نذیر احمد تشنہ اپنی تاریخ کشمیر میں لکھتے ہیں:
’’دسمبر 1948 ء میں سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی تجویز پر غور کرنے کے لئے نواب زادہ لیاقت علی خان کی صدارت میں پاکستان کی مرکزی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ چوہدری غلام عباس خصوصی دعوت پر اس میں شریک ہوئے۔ چوہدری صاحب نے بحیثیت نگران اعلیٰ تحریک آزادی جنگ بندی کی سخت مخالفت کی۔ اس کے باوجود جنگ بندی منظور کر لی گئی۔ اجلاس سے نکلتے ہوئے چوہدری صاحب نے طنز یہ انداز میں یہ فقرہ کہا کہ’’کشمیر کا مسئلہ اب حل ہو گیا ہے‘‘۔

بھارتی بنیا جسے یہ خوف دامنگیر تھا کہ اگر کُچھ روز جنگ بندی نہ ہوئی تو ریاست خاص کر وادی اُس کے ہاتھ سے نکل جائے گی ہر سطح پر جنگ بندی کے لیے کوششیں کر رہا تھا اور اُس نے اپنی جانکہائی سیاست کے علمی زور پر یہ حساب کتاب بھی کر لیا تھا کہ وہ جنگ بندی کی عارضی حیثیت کو اپنی برہمنی سازشوں سے طول دیتے دیتے دائمی حیثیت دے دے گا۔ چنانچہ اڑسٹھ برس بعد ہمیں برہمن کا وہ اندازہ تو صحیح معلوم ہوتا ہی ہے لیکن اپنی قیادت (چوہدری غلام عباس) کی سیاسی بصیرت پر بھی قربان جانے کو جی چاہتا ہے۔ کاش حکومت پاکستان نے اُس وقت جنگ بندی پر اپنی رضا مندی نہ دی ہوتی اور اگر دینا ہی تھی تو ضامن کو ایفائے عہد پر سختی سے پابندی کرنے کی کوئی موثر سبیل کی گئی ہوتی۔ نواب زادہ لیاقت علی خان کی صدارت میں پاکستان کی مرکزی کابینہ کے اجلاس قائد ملت چوہدری غلام عباس نے جنگ بندی کی شدید مخالفت کے بعد اجلاس کے اختتام پر جو جملہ کہا وہ اُن کی حد درجہ سیاسی بصیرت کا آئینہ دار تو ہے ہی لیکن ساتھ ہی اس بات کا بھی کھلا ثبوت ہے کہ کشمیری قیادت اور نہ ہی کشمیریوں نے اس جنگ بندی کو تسلیم کیا ہے اور نہ تسلیم کریں گے۔

جنگ بندی کے عالمی اعلان کو محاذ جنگ کے میدان میں مسلح تحریک آزادی کے سالار جناب مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان اور اُن کی زیر کمان کشمیری مجاہدین کو کس قدر رنجیدہ کیا اس کا اندازہ کرنا بہت مشکل ہے۔ ’’مجاہد اول کے افکار‘‘ میں چھپے اپنے ایک انٹرویو میں مجاہد اول نے جنگ بندی پر بات کرتے ہوئے فرمایا:
’’جنگ بندی کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قرارداد پر ہوا۔ میرا خیال ہے کہ جنگ بندی میں ہمارے اپنے لوگوں کا ہاتھ تھا۔ علی آباد میں پاکستانی فوج کا ایک کمانڈر تھا میں نے اسے کہا پاکستانی فوجی میری جگہ لے لیں اور میں اپنا برگیڈ یہاں سے نکال کر پہاڑوں کو کراس کرتے ہوئے گلمرگ اور اس کے آس پاس کے سارے علاقے کو قبضے میں کر لوں گا۔ وہ علاقہ ابھی خالی پڑا ہوا تھا۔ میں نے کہا جب لڑائی کرتے کرتے پیچھے ہٹیں گے تو زمانہ لگ جائے گا۔ میری اس بات سے وہ خوفزدہ ہو گیا۔ مجھے اب بھی اُس کا وہ خوفزدہ چہرہ یاد ہے۔ کہنے لگا نہیں آپ ایسا نہ کریں۔ ہم ملکر آپریشن کریں گے۔ .... اگر ہم گلمرگ پہنچتے تو پھر جنگ بندی لائن کی شکل مختلف ہوتی۔ جنگ بندی یا تو بارہ مولہ کے قریب ہوتی یا کہیں سرینگر کے گردو نواح میں۔ ہم نے تو اعتماد کر لیا لیکن درحقیقت یہ سازش وہاں کافی دیر سے چل رہی تھی۔‘‘

آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی اس بے لوث و مخلص قیادت (قائد ملت چوہدری غلام عباس اور مجاہد اول سردار محمد عبدالقیوم خان ) نے آنے والے دنوں میں جنگ بندی لائن کو عوامی طاقت سے پیروں تلے روند ڈالنے کے عملی اقدامات اٹھانے میں اپنی جان کی پرواہ نہیں کی اور مقبوضہ کشمیر کے بھائی بہنوں کو ریاست کی اس سواد اعظم جماعت ’’مسلم کانفرنس‘‘ نے کسی بھی آڑے وقت میں تنہا نہیں چھوڑا ۔ مقبوضہ کشمیر کے بہن بھائیوں پر اس وقت بھی تاریخ کا ایک اور مشکل وقت آن پڑا ہے۔ اسی لیے صدر آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس سردار عتیق احمد خان نے 23 اگست یوم نیلہ بٹ کے موقع پر جنگ بندی لائن توڑنے کا اعلان کیا جس کی حتمی تاریخ 24 نومبر مقرر کی گئی ہے۔ (جاری ہے)
 
Mian Kareem Ullah Qureshi
About the Author: Mian Kareem Ullah Qureshi Read More Articles by Mian Kareem Ullah Qureshi: 17 Articles with 14042 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.