کیا واقعی پاکستان ترقی کر رہا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلے ترقی کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو شائد کچھ حقائق آشکار ہو سکیں۔ کیونکہ جسے ہمارئے حکمران ترقی ترقی کی پرچار کر رہے ہیں وہ در حقیقت صرف مصنوعی تعمیرات ہیں جنکو کبھی بھی ملکی ترقی کے ذمرئے میں شامل نہیں کیا جا سکتا اگر تعمیرات واقعی ترقی ہوتی تو منجودھڑو ، مخلیاں سلطنتیں اور اسی طرح کی کئی مثالیں پیش ہو سکتی ہیں جنہوں نے تعمیراتی شعبے میں کیسے کیسے شہکار تشکیل کیئے تھے جنکو صدیاں گزرنے کے باوجود آج بھی لوگ رشک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں پر وہ اقوام اپنے اقتدار قائم نہیں رکھ سکیں اور تاریخ نے انہیں بڑی بری طرح کیوں مسخ کے رکھ دیا ہے اگر تھوڑا سا غور کریں تو شائد آج کے موجودہ شاہی نظام میں جو دراڑیں پڑ رہی ہیں کچھ کچھ بات کھول کر سامنے آ ہی جائے۔

چند ایک پل اور اہم شاہرایں بنا دینے سے ملک ترقی کر گیا ہے کیا؟ جبکہ کاروبار تباہ، اداروں کا ستیاناس ، لوگ بے حال، لوڈشیدنگ کم ضرور ہوئی پر ختم کب ہوگی کیونکہ حکومتی دعوئے کی تو ڈیڈلائن گزرے مدت ہوگئی پر لوڈشیڈنگ کا جن گرمی کے زور کے ساتھ اپنا زور میں آجاتا اور سردی ابھی شروع ہوئی ہی نہیں اور گیس کا بحران شروع ہو بھی گیا ہے ۔ یہ کونسی ترقی ہو رہی ہے جس میں عوام سٹون ایج میں واپس جا رہے ہیں جہاں نہ تو روشنیوں کے لئے بجلی ہے اور نہ روٹی پکانے کے لئے گیس، پانی کی سہولت کہیں کہیں شہری آبادیوں میں اگر پہنچا بھی دی گئی ہے تو وہاں پانی آتااپنی مرضی سے ہی ہے اور جو لائنز بچھائی گئی ہیں وہ راستے میں ابشاریں بناتی جا تی ہیں نکاسی آب کا بندوبست تو ہمارا عالمی ہو ہی چکا ہے تو جو پانی کی چند لہریں بہتی بھی ہیں وہ دوبارہ پانی کے آنے تک سٹرکوں کی ہی زینت رہتا ہے اور عوام کو مختلف بیماریاں سوخات میں دیتا ہی رہتا ہے اور عوام جو عالمی معیار کے ہاسپتال حکومت نے بنا دیے ہیں ان میں علاج کے لئے دھکے کھانے پہنچ جاتے ہیں جہاں انہیں ترقی کے جو سمرات ملتے ہیں وہ انہیں اپنی بیماری بھلاہی دیتے ہیں ، ایسے انکا علاج انتہائی خوش آئند ماحول میں ہو جاتا ہے۔

سوائے چند ایک مرکزی شاہراوں کے اسلام آباد اور راولپنڈی کے نواحی علاقوں میں جا کر دیکھیں تو جو تعمیراتی ترقی کا دعوع ہے وہ بھی دھرا کا دھرا ہی رہ جائے گا کیونکہ وہاں اگر آپ اچھی خاصی گاڑی لیکر سفر کریں تو واپس آتے چاچے چکھن کی سائیکل جیسی آوازیں نکالنے لگے گی۔ وہاں ترقی کے ثمرات کب پہنچیں گے یا وہ علاقے پاکستان سے باہر ہیں۔اور ساری ترقی صرف لاہور کا ہی حصہ ہے جہاں پورے پنجاب کا بجٹ جھونک دیا گیا ہے پر لاہور کی ترقی جوں ہی چندبوندیں بارش زیادہ ہو جایں توساری ترقی دھل کرسامنے آجاتی ہے اور پورا لاہور وینس کا منظر پیش کر نا شروع ہو جاتاہے۔ اگر چند سڑکیں اور پل ہی ترقی ہوں تو لاہور تو دنیا کے ترقی یافتہ ترین شہروں میں شمار ہو چکا ہوتا جہاں جال بچھا دیا گیا ہے اس نام نہاد ترقی کا جو خمیازہ پنجاب آجکل بھگت بھی رہا ہے لاہور کو ڈیولپ کرنے کے نام پر تمام جنگلات سے محروم کردیا گیا ہے جو SMOG کے حملے کی ایک وجہ گردانی جا رہی ہے اس عارضی ترقی سے لاہور ایسے ہی بھلا تھا جو ترقی کرنے کے بعد ترک ہی گیا ہے اور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہوتا ہے۔
 
لیپ ٹاپ سکیم ہو، آسان قرضوں کی فراہمی کی سکیم، ٹیکسی سکیم اور اسی طرح کے چند اور پروجیکٹس پر ملک کے کھربوں روپے لگا دیے گئے ہیں پر کیا ان سکیموں سے ملک کو اجتمائی طور پر کوئی فائدہ ہوا ہے یا چند مخصوص افراد جنکوبھی یہ سکیمں صرف وقتی فائدہ پہنچا سکیں نہ کہ مستقل بنیادوں پر جس سے ملک نہ سہی ان افراد کی نسل ہی مستفید ہو سکتی پر یہ سکیمیں شائد بنائی ہی وقتی فائدے کے لئے جاتی ہیں جو عوام تک پہنچے نہ پہنچے ایونوں تک ضرور پہنچ جاتا ہے۔ان سکیموں کی بجائے اگر سرکاری سکولوں، کالجوں کو بہتر تعلیمی سہولیات دے دی جاتیں تو یہ فائدہ نسلوں تک منتقل ہو جاتا ۔

میٹرو پروجیکٹس ہوں، اورہیڈبریج ، انڈرپاسز، سڑکوں کی توسیع، گرڈ سٹیشنز، غرض جو بھی ترقیاتی کام اس حکومت نے شروع کیا ہے انکا مقصد ترقی ہو نہ ہو پر اپنا سودا مہنگے داموں ملکی خزانے کو چپکانا ضرور ہوگا کیونکہ ترقی تو ہوتی کہیں نظر نہیں آتی جبکہ ملکی خزانے کے کھربوں کن کے خزانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں کوئی ادارا احتساب کے لئے بنا ہوتا تو پتا چل پاتانہ۔اداروں کو مظبوط نہ کرنے کے پیچھے شائد یہی ایک وجہ ہو کہ اگر ادارے مضبوط ہو گئے تو پھر انکا شاہی نظام نہیں چل پائے گاجہاں ملکی ترقیاتی فنڈچند بے توکے پروجیکٹس پر اڑا دیئے جائیں اور کوئی پوچھنے والا ہی نہ ہولیکن اگر ادارے مضبوط ہو گئے تو پھر وہ ہر غلط فیصلہ پر سوالات بھی اٹھائیں گے اور جنکے جوابات سے متفق نہ ہوئے وہ پروجیکٹ روک بھی دیں گے جو انہیں اور ان جیسے تمام حکمرانوں کو کسی صورت قبول نہیں ہوگا۔

CPEC ایک واحد پروجیکٹ ہے جو اگر ان سیاسی مخالفین کی سیاست سے بچ کر تکمیل کے مراحل مکمل کرگیاتو ترقی کے سفر پر ایک اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے اسلئے ابھی بھی وقت ہے کہ عوامی مسائل حل کرنے کے لئے حقیقی ترقی کا سفر شروع کرتے ہوے اداروں کی تنظیم نو کا کام شروع کردیں جو عوام کو تعلیمی، صحت اور بنیادی سہولیات کی فراہمی عزت کے ساتھ یقینی بنائیں اگر ایسا نہ ہوا تو پھر آپ کب تک عوام کو کنٹینر لگا کر اپنے خلاف مظہروں سے روکتے رہیں گے ایسے اقدامات کرجائیں مخالفین پیسے دے کر بھی عوام کو آپکے خلاف اکیسائیں انکا نعرہ ہو ہمارا کوئی لیڈر ہے تو وہی ہے جس نے پاکستان کو ترقی پذیر ملک سے ترقی یافتہ بنا دیا ہے۔
Naveed Kazmi
About the Author: Naveed Kazmi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.