تصورپا کستان سے قیا م پا کستان تک اور تا حیات قا ئم پا کستان تک شکریہ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال

عبدالجبارخان دریشک راجن پور ایل ایل بی ایم ایس ماس کمیونیکشن
گزشتہ دنوں9نومبر کو تصور پاکستان و دوقومی نظریہ کے خا لق ڈاکٹرعلا مہ محمد اقبال کا 139 یوم پیدائش تھا ۔یہ دن سب پا کستا نیو ں کے لئے ایک تا ریخی اور قو می دن کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کے ساتھ ہی پور ی دنیا میں اس دن کو ایک خاص اہمیت دی گئی پوری دنیا میں اک نئی تاریخ رقم ہو نے جا رہی تھی ۔پوری دنیا میں بسنے وا لے اربوں انسا نوں کی نظر یں میڈ یا پر جمی ہو ئی تھیں ۔وہ تھے امر یکہ میں ہو نے والے صدارتی انتخابات کہ وائٹ ہاوس کا تاج کس کے سر جا تا ہے ہیلری یا ٹر مپ بالا آخر ٹر مپ فتح یاب ہوئے اس دن ہمارا میڈ یا خاض کر الیکٹر انک میڈیا ایسے ٹر انسمیشن چلاتا رہا کہ یہ انتخابات امریکہ کے نہیں پا کستان کے ہو رہے ہیں سارا دن ان کے تبصروں نیوز رپوٹوں سے ان کا دل نہیں بھر پھر رات گئے تک اس پر ٹا ک شوز جا ری رہے ۔کہ اب کیا ہو رہا اور کیا ہو گا جیسے پا کستان کی قسمت کا فیصلہ ہو رہا ہو ۔ہم خوامخواہ بے جا ٹر انسمیشن چلاتے رہے اک ٹاک شو میں سابق وزیر خارجہ صاحب مدعو تھے انہوں نے فر مایا امریکہ کی چا ہے کوئی بھی حکو مت چا ہے جیت ہا تھی والی کی یا گدے والی پارٹی کی ان کی پالیسی میں تبدیلی نہیں آتی وہ اپنی اندرونی پا لیسی عوام مفادات میں تبد یل کر سکتے ہیں مگرخارجہ پالیسی تبد یل کر نا بہت مشکل کام ہے ۔ایسا صر ف دنیا میں ہما رے ہی ملک میں ہوتا ہے حکو مت تبدیل تو سب کچھ تبدیل ہم خارجہ پالیسی کی خا طر امریکہ کے الیکشن پر نظر یں جما ئے ہو ئے تھے پر ہمارا تو وزیر خارجہ ہی نہیں ہے ۔9 نومبر ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے یو م پید ائش کو جس طر ح منا نے کا حق تھا نہ قو م نے منا یا اور نہ ہی ہمارے میڈیا نے بس 5 سے دس منٹ کی کوئی رپورٹ ان کی زند گی کے حو الے سے نشر کر کے اپنا فر بخو بی ادا کیا ۔پر نٹ میڈ یا نے اچھے انداز میں سپیشل ایڈیشن جا ری کیے ان میں مضامین بھی شا مل کر کے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے فلسفہ سے روشناس کروایا جو ایک احسن اقدام ہے اس دن کے حو الے حکومتی و سیاسی قا ئدین کی طر ف سے خصوصی پیغامات بھی نشر اور شا ئع کیے گئے ۔لیکن اس خاص دن کی مناسبت سے ہمیں کوئی حکو متی سیا سی یا سول سوسائٹی کا کوئی بڑا پر وگرام نظر نہیں آیا ۔ادھر پور قوم کے ارما نوں پر پا نی پھر گیا جب چھٹی ہے چھٹی نہیں ہے کے درمیان پوری قو م جھولتی رہی اگر چھٹی ہو تی تو ہم نے خو ب ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا یو م پید ائش منا نا تھا ۔بڑے بڑے پر وگر ام ترتیب دیے ہو ئے تھے ۔کہ بچوں کے ساتھ پارک چڑیا گھر پیکنیک رشتہ داروں کے ہاں وغیر ہ وغیرہ تے نتھو خیرہ ۔اس طر ح ہم نے بھر پور انداز میں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا یو م پید ائش منا نا تھا ہم میں سے اکثر یت ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا فلسفہ اور شاعر ی تو دور کی با ت ان کی زندگی اور بنیا دی معلو ما ت سے بھی نا واقف ہیں ہمارے تعلیمی اداروں میں ہر روز بچوں کواسمبلی میں
لب پے آتی ہے دعا بن کے تمنا میر ی زند گی شع کی صورت ہو خدایا میر ی

باآواز بلندپڑھتے ہیں ۔ اتنی مر تبہ پڑھنے کے بعد بچے زبانی یاد بھی کر لیتے ہیں پر بہت کم ایسے تعلیمی ادارے ہو نگے جو اس اسمبلی میں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا بتا تے ہو نگے کہ یہ دعا ان کی لکھی ہو ئی ہے ہمیں یہ دعا تو زبا نی یادہے پر اکثر بچوں کو پتہ نہیں ہو گا کے اس کے خا لق کو ن ہیں اب جب ہما ری آنے وا لی نسلوں کو ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے با رے میں بنیا دی معلو ما ت ہی نہیں دی جا ئیں گی تو ہم ان کے فلسفہ کو بھلا کر امر یکہ برطا نیہ کے روشن خیا ل فلسفہ کو اپنا کر مزید تر قی کی بجائے اندھیروں خود کو دھکیل دیں گے ۔میں اس مضمون میں یہ ضروری سمجھتا ہو ں کہ اس میں علامہ اقبا ل کی زندگی کے بارے میں لکھ کر آ پ کو کچھ معلو ما ت فر ا م کر وں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے آباؤاجداد عہد غا زی اونگزیب عا لمگیر میں کشمیر سے ہجر ت کر کے سیا لکو ٹ میں آبا د ہو ئے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 ء بمطابق 3ذیقعد1298ھ کو شخ نور محمد کے گھر پید ا ہو ئے آپ نے ابتدائی تعلیم قرآن پا ک سے شر وع کی اور بنیا دی تعلیم بھی سیا لکو ٹ سے حاصل کر نے کے بعد اورنیٹل کا لج سے چلے گئے وہاں سے فلسفہ میں ایم اے کر نے کے بعد انگلستان اورپھر جر منی چلے گئے وہاں پر یورپی فلسفہ کے بنیا دی روجحا نات سے واقف ہو ئے فلسفہ کی دلچسپی نے انہیں 1907ء میں ہا ئیڈ نگ برگ اور میو نخ جر منی پہچا یا وہاں پر آ پ نے ایر ان میں روخا نی ترقی کے فلسفہ کے مو ضوع پر مقا لہ لکھ کر فلسفہ میں ڈا کٹریٹ کی ڈگری حا صل کی اورا نگلستان سے وکیل بن کر وا پس آئے آپ گورنمنٹ کالج لا ہور میں فلسفہ بپی پڑھا تے رہے درس تدریس میں آپ کی خدمات ہمیشہ آپ کی اعلیٰ سوچ بلندفکر کی عکاسی کر تی رہیں گی۔آپ کی بے مثال سیا سی بصیرت اور نظریات کی وجہ سے آپکو بے حد شہر ت حاصل ہو ئی آپ کی شہرہ آفاق تصا نیف 14 کے لگ بھگ ہیں آپ کی شا عری زندہ شاعر ی ہے جو ہمیشہ مسلما نوں کے لئے مشعل را ہ ہے آ پ کی شا عر ی نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی جس میں اسلا می عظمت کو اجا گر کیا آ پ کی کتب کا انگریزی جر منی فرا نسیسی چینی جا پا نی اور دیگر زبا نوں میں ترجمہ کیے جا چکے ہیں ۔آپ کے نکتہ نظر میں مسلما نوں کی علیحدگی پسندی اور آل انڈیا مسلم لیگ کی حما یت کی اور آپ کو 1922ء میں’’ سر‘‘ کا خطا ب سے نوازا گیا ۔1926ء میں پنجا ب میں مجلس قا نون ساز میں منتخب ہوئے ۔بحیثیت سیا ستدان ان کا کا رنا مہ نظر یہ پا کستان کی تشکیل ہے جو انہوں نے 1930ء میں آلہ آباد کے صدارتی خطبہ میں پیش کیا جس کی وجہ سے ہم آ زاد وطن کے با سی ہیں آپ کے نظر یہ اور انقلا بی شا عری کا درس تھا جو آ پ کے وصا ل کے بعدبھی مسلما نوں میں زندہ رہا آ پ کی وفا ت21 اپریل 1938ء میں ہوئی تو اس کے کچھ عرصہ بعد ایک آزاد خود مختیا ر ریاست کا وجو د قیا م عمل میں آیا جس کے لئے قو م آج بھی ان کی احسا ن مند ہے قیا م پا کستا ن کے بعد جس طر ح پا کستا ن کے حا لات بدلتے گئے خا ص کر موجو دہ صدی میں 9/11 کے واقعے کے بعد مسلما نوں پر دہشت گردی کی چھا پ لگا دی گئی اور پا کستا ن کو اس نشا نہ بنا کر بھا ری نقصا ن پہنچا یا گیا ۔ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال نے ہمیں آزادی کی امید ونظریہ آزادی سے روشناس کرویا تھا پر آج ہم آ زاد ہو نے کے با وجود ذہینی غلا می کا شکا ر ہیں ہمیں امر یکہ کے الیکشن کی فکر رہی اور کئی ما ہ سے اس پر بمعہ میڈیا پوری قو م نے اپنے اوپر سو ار کیا ہو ا تھا جس نے ہمیں نظر یہ آزادی کا فلسفہ دیا اس کے یو م پید ا ئش صر ف چھٹی کے لئے یا د رکھتے ہیں اگر حکو مت چھٹی ختم کر دے تو ہمیں یہ دن بھی یا د نہیں رہے گا ۔ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے فلسفہ کو بھلا کر ہم کئی حصوں میں تقسیم ہو تے چلے گئے کہیں تو ملک کے دو ٹکرے ہو ئے تو کہیں ہم فرقوں جما عتوں علا قوں زبا نوں اور لا ثا نی بنیا د پر تقسیم ہو رہے ہیں جس کا انجا م ہما رے امن کی تبا ہی ہے او ر وطن عزیز دہشت گردی لی لپیٹ میں آگیا ہمارے سیا ست دا ن ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کی یو م پیدائش پر ان کا بنیا دی فلسفہ کے چند جملے بیا ن کر کے اپنا فر ض ادا کر دیتے ہیں ۔ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا فلسفہ حیات قرآن پا ک کی عکا سی کر تا ہے اب مو جو دہ حالات کے تنا ظر میں عا لمی طا قتیں اور ہما رے ازلی دشمن ہمیں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے بنیا دی فلسفہ سے دور کر نے کی بھر پو ر سا زش کر رہے ہیں ۔ سکولوں میں ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے متعلق اسبا ق کو کم کیا جا رہا ہے ۔ یو م پیدا ئش پر سر کاری وعو ا می سطح پر تقریبا ت دن بدن کم ہو کر ختم ہوتی جا رہے ہیں ۔آنے وا لے نسلوں کو ان کی شا عر ی سے روشنا س ہی نہیں کر ویا جا رہے اب تو دہشت گر دی کے خد شا ت کی وجہ سے ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کے مز ار پر پا بند ی لگا ئی ہو ئی اب یہ ایک عا لمی سا زش تھی ملک کے حا لات ایسے پید ا کر دیے کے جو کہ دشمن ا پنی سازش میں کا میا ب رہا گزشتہ کچھ عر صہ قبل لا ہور جا ناہوا تو ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال مزارفا تحہ کے لئے گیا تو ان پا بند ی کی وجہ سے مجھ جیسے دیگرلوگوں کی طرح سو میٹر سے زیا دہ فا صلے پر کھڑا کیا گیا جب عا م پاکستا نی کو نظر یہ پا کستا ن کے خا لق دور رکھا جا ئے گا تو آ نے وا لی نسلیں مزید دور ہوتی جا ئیں گی ۔ ہم نے قو م کو ایک کر نا ہے اور ملک سے دہشت گر دی بد امنی کا خا تمہ کر کے ترقی کی را ہ پر گا مز ان ہو نا ہے تو ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال کا فلسفہ حیا ت کو اپنا نا ہو گا ۔جو انہو ں نے اپنی شا عر ی میں پیش کیا ہے ۔
خو دی کو کر بلند اتنا کے ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خودپو چھے کے تیری تقدیر کیا ہے

پا کستا ن سے قیا م پا کستا ن تک اور تا حیا ت قا ئم پا کستان تک ’’شکر یہ ڈاکٹرعلامہ محمد اقبال‘‘
 
Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 129532 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.