سی ایس ایس یعنی مقابلے کا امتحان دراصل
برطانوی راج کے دوران انگریزوں نے برصغیر میں مقامی آبادی کے ذریعے اپنی
حکمرانی کو زیادہ مضبوط طریقے سے مسلط کرنے کے لیے متعارف کروایا سی ایس
ایس کا امتحان پاس کر کے بیوروکریٹس بنتے ہیں اور خود کو نوری مخلوق اور
دنیا کے اعلی افسران اور کریم سمجھتے ہیں ۔ماشلءلا کا دور ہو یا جمہوریت ہو
ان کے اختیارات لا محدود ہی ہوتےہیں اگر حکومت جمہوری ہو تو ان کے مخصوص
نمائندوں اور وزراء میں اکثر تعداد کم پڑھے لکھے یا محض ڈگری ہولڈروں کی
ہوتی ہے جس کا فائدہ بیوروکریٹس کو ہوتا ہے وہ اپنی بات بہتر انداز میں
منواتے ہیں مارشلءلا کے دنوں میں بھی فوج ہر کام اس بیوروکریسی کے کندھوں
پر رکھ کر کرواتی ہے ۔دوسری طرف یہ افسران کو بھی ساری حکومت کو خوش رکھنا
ہوتا ہے یوں دور کوئی بھی ہو کسی نہ کسی طرح ملک کی بھاگ دوڑ اس بیوروکریسی
کے ہاتھ ہوتی ہے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ خدا کے بعد زمین پر بیوروکریٹس
خود کو ملک کا نظام چلانے والا تصور کرتے ہیں یہی وجہ ہے کی ایک ڈاکٹر ایم
بی بی ایس کرنے کے بعد بھی دل میں خواہش رکھتا ہے کہ وہ ایک سی ایس ایس
افسر بن جاے نہ صرف ڈاکٹر بلکہ سارے ملک کے ذہین لوگوں کو اسی بیوروکریسی
کا نشہ رہتا ہے یوں ہر سال تقریباً بیس ہزار لوگ سی ایس ایس کے امتحان میں
اپنی قسمت آزمائی کرتے ہیں اس کے لیے اکیڈمیوں اور کوچنگ سنٹرز کا رخ کرتے
ہیں اور اپنا بھرپور جوش دیکھاتے ہیں ۔یہ پاکستان کا واحد امتحان ہے جس کا
رزلٹ پورے میڈیا پر فخری انداز میں نشر کیا جاتا ہے
اس سال کا سی ایس ایس کا رزلٹ کیسا آیا اور کیوں آیا؟
فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے سی ایس ایس 2015ء کے نتائج جاری کیے تو 97 فیصد
امیدوار سی ایس ایس کے امتحان میں فیل ہوگئے ہیں، صرف 3 فیصد امیدوار سی
ایس ایس کا تحریری امتحان پاس کر سکے، پہلی پانچ پوزیشن میں سندھ کا کوئی
بھی امیدوار شامل نہیں ہے۔ امتحان میں ملک بھر سے 12176 افراد شریک ہوئے۔
صرف 379 امیدواروں نے سی ایس ایس کا تحریری امتحان پاس کیا جبکہ ان میں سے
11 امیدوار زبانی امتحان میں فیل ہوگئے۔ 368 امیدواروں نے مقابلے کا اعلیٰ
ترین امتحان پاس کیا۔ کامیاب 238 امیدواروں کو مختلف وفاقی گروپس میں گریڈ
17کی ملازمت کی سفارش کی گئی ہے۔ سی ایس ایس کے امتحان میں 40 فیصد خواتین
امیدوار کامیاب رہیں۔ ابتدائی 10 کامیاب امیدواروں میں 2 خواتین بھی شامل
ہیں۔ سندھ سے صرف 63 امیدوار سی ایس ایس کا امتحان پاس کرسکے۔ نتائج کے
مطابق سندھ کے شہری علاقوں سے صرف 21 امیدوار مقابلے کے اعلی ترین امتحان
میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دیہی سندھ کے 41 امیدواروں نے سی ایس ایس کا امتحان
پاس کیا۔
اب سی ایس ایس پاس کرنے والوں کو اپنی تعیناتی یقینی نظر آرہی ہے کیونکہ
پاس ہونے والوں کی تعداد سے زیادہ خالی نشستیں موجود ہیں مگر سوال یہ ہے کہ
سب سے زیادہ قابل محنتی لوگوں کے امتحان دینے کے باوجود اتنی کم تعداد میں
لوگ پاس ہوے یا کیوں ہوے ؟ اتنی تعداد میں لوگ فیل کیوں ہوے ؟اس کے کچھ
پہلوؤں پر میں روشنی ڈالتا ہوں ۔
2015 کا امتحان وہ پہلا امتحان تھا جو نئے سلیبس اور قواعدوضوابط کے مطابق
لیا گیا ۔
بہت سے مضامیں خارج کر دئیے گئے یا ان کے نمبر 200 سے کم کر 100کر دئیے گئے
بہت سے مضامین کو ایسے گروپ بندی میں رکھا گیا کہ کوئی بھی امیدوار 100نمبر
سے زیادہ کا مضمون چن نہ سکے اس کی سب سے بڑی مثال عربی اور فارسی کے
مضامین تھے جو تیار کرنے بھی آسان ہوتے تھے اور پروفیسرز صاحبان ان میں
نمبرز لگاتے وقت بھی ہاتھ نہیں روکتے تھے -
نئے قوانین کے مطابق انٹرنیشنل ریلشنز اور سیاسیات تقریباً لازمی حثیت
اختیار کر گئےان دونوں مضامین کی تیاری اور ان پر عبور حاصل کرنے کے لیے
ایک سے زیادہ کتابوں اور حوالوں کی ضرورت ہوتی ہے یا کہہ لیں تیاری مشکل
ہوتی ہے-
جینڈر سٹڈیز ٹاون پلاننگ اور اینتھروپالوجی کے نئے قوانین متعارف کروا دیئے
گئے جس کی وجہ سی امتحان کا نالج مزید بڑھ گیا یا قدرے سائنٹیفک ہوگیا .
فیڈرل پبلک سروس کی یہ خفیہ پولیسی بھی ہو سکتی ہے کہ وہ کامیاب امیدواروں
کی تعداد کم رکھتا ہے تاکہ ان کو سائیکلوجیکل ٹیسٹ اور انٹر ویو کرنے میں
آسانی رہے اور افسران کی مطلوبہ تعداد بھی مل جاے ایک سابقہ چیرمین کا ایک
فقرہ مجھے یاد ہے انہوں نے کہا تھا ہم نے پاس ہونے والے افسران کا جمعہ
بازار نہیں لگانا مطلب ایک حساب سے کامیاب کیے جائیں ۔
سی ایس ایس امتحان کا رزلٹ آنے کے بعد کسی بھی امیدوار کو دوبارہ چیکنگ اور
گنتی کی درخواست دینے کا بھی اختیار نہیں ہوتا جس کی وجہ سے اس سال کامیاب
امیدواروں کی تعداد 3% رہی اس کا مطلب یہ نہیں ملک میں ذہین ،ہونہار اور
قابل لوگوں کی کم ہو چکی ہے حکومت کو افسر شاہی کے لیے اپنے مطلوبہ نمبرز
درکار ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کی اس سال اتنے کم لوگ ملک کے سب سے بڑے امتحان
میں پاس ہو سکے ہیں-
ہر سال امیدواروں کی جانب سے ڈھیروں شکایات داخل کرائی جاتی ہیں، جبکہ آپ
کے پسندیدہ روزناموں کے صفحات پر لوگ اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں، لیکن
اس کے باوجود عملی اقدامات اور حقیقی اصلاحات کے لیے کوئی آگاہی جنم نہیں
لے پاتی۔
اخبارات کے کالموں میں اس معاملے پر جو کچھ بھی چھپتا ہے، وہ فیڈرل پبلک
سروس کمیشن بالکل اسی طرح نظرانداز کردیتا ہے، جس طرح ملک کے دیگر طاقتور
ادارے کرتے ہیں۔
2018ء میں ہونے والے سی ایس ایس امتحانات کلسٹر پروگرام کے تحت ہوں گے۔ سی
ایس ایس امتحانات میں حصہ لینے کے لیے تین گروپس تشکیل دئیے گئے ہیں۔جس میں
فنانس گروپ، جنرل گروپ اور انفارمیشن گروپس شامل ہیں۔انفارمیشن گروپ کے
امیدواروں کے لیے میڈیا یا ماس کمیونیکیشن کی ڈگری ہونا لازمی ہے جبکہ
فنانس گروپ کے امیدواروں کے پاس کسٹم ، ریوینیو، ٹریڈ اینڈ کامرس اور فنانس
کے شعبے سے تعلق رکھنے والی ڈگری ہونا لازمی ہے۔سی ایس ایس کے جنرل گروپ کے
لیے جنرل ڈسپلن کی ڈگری قابل قبول ہو گی۔
اس کا مطلب 2019میں رزلٹ 1% سے زیادہ ہونے کے چانس کم ہیں ۔خدا را ملک کو
اگر یہ بیوروکریسی نے چلانا ہے تو ان کو مرتب کرنے کے طریقے میں امیدواروں
کے تحفظات بھی دور کیے جائیں ورنہ آپ کے ملک کی کریم بھی پڑی پڑی باسی ہو
جاے گی اور ہم اپنی روز نئی پولیسی کا اچار ڈال کر ان وزراء کو کھلاتے رہیں
گے تو ٹی وی پر آن ایر آکر ہم سب کو صلواتیں سناتے ہیں ۔(بشکریہ مسٹر یسین
فضل ندیم گجر سی ایس ایس امیدوار )
|