رئیس القلم علامہ ارشد القا دری حیات و خدمات کے آئینے میں
(Mohsin Raza Ziyai, India)
یوم وفات پر خصوصی تحریر |
|
(Manzer Mohsin, India)
قائد اہل سنت، رئیس القلم علامہ ارشد القا دری علیہ الرحمہ کا شمار ملت
اسلامیہ کے ان چند مشاہیر مستند و معتبر علما و دانش وران ملت میں ہوتا ہے
جنہوں نے ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ حضرت علامہ
بے شمار خوبیوں کے مالک تھے ان کی ہمہ گیراور ہشت پہلو شخصیت نے کتنے ہی
ذروں کو آفتاب اور جگنووئں کو ماہ تاب بنا دیا۔ وہ صحرا کو گلستاں بنانے
میں اپنی مثال آپ تھے انہوں نے پہاڑ کھود کر دودھ کی نہر نکالنے کا محاورہ
سچ کر دکھایا۔
پھول صحرا میں کھلے آبلہ پائی کے طفیل
زندگی کام کی ثابت ہوئی دیوانے کی
........حضرت علامہ کی مشکل پسند طبیعت نے دینی اور ملی کام کے لیے ہمیشہ
ایسی وادیوں کا انتخاب کیا ، جہاں صرف جنون عشق ہی کام آ سکتا تھا وہ راہ
کی دشواریوں کو حوصلہ شکنی کا سبب نہیں بلکہ حصول منزل کا زریعہ بناتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ ان کی آبلہ پائی انہیں سر گرم سفر رکھتی تھی۔وہ ایک ایسے ہمہ
جہت عالم دین تھے کہ دور دور تک ان کا کوئی مماثل نظر نہیں آتا ۔ حضرت
علامہ کی شخصیت پرنباض قوم شاعر مشرق،ڈاکٹر محمد اقبال کا یہ شعر اپنے صحیح
مفہوم و معانی میں منطبق ہوتا محسوس ہوتا ہے۔
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
........حیات کا وہ کون سا گوشہ ہے جس سے یہ مرد خدا آگاہ و خود آگاہ جہت
آشنا نہ ہو۔ قوم مسلم کی اصلاح و تربیت اور ان کے تزکیٔہ نفس کے لیے آپ نے
ہر جہت سے اپنے تحریکی عمل کو جاری رکھا ۔ قوم مسلم میں فکر اسلامی کی صحیح
اسپرٹ پیدا کرنے کے لیے خطابت و صحافت کی خدا داد صلاحیتوں کا خوب خوب
استعمال کیا ۔اﷲ کریم نے آپ کو زبان و قلم پہ یکساں قدرت عطا فرمایٔ تھی۔آپ
نے تصوف ،مذہب ، اخلاق، تاریخ، فلسفہ، سیاست ، سوانح،تحقیق و تنقید ہر
موضوع پراپنے خامۂ زرنگار کو مصروف رکھا اور تمام مضامین میں ترتیب،تہذیب،
استدلال ، وضاحت ، فراست و متانت اور تنقیدی شعور کی بالیدگی نمایاں نظر
آتی ہے ان اوصاف کے علاوہ جو خاص اور سب سے اہم وصف آپ کی نثر نگاری کا ہے
وہ لطف مطالعہ یعنی( Read ability)آپ کی نثر یقینا نثر نگاری کا عمدہ نمونہ
قرار دیے جانے کے لایٔق ہے۔اردو زبان میں آپ کی دو درجن سے زائد تصانیف
متعدد کتب پر مقدمہ اور تقریظ جام نور،جام کوثر،رفاقت، شان ملت کے علاوہ
ملک کے مختلف جرائد و رسا ئل میں آپ کے شہہ پار ے آپ کی ادبی حیثیت کے تعین
کے لیے بہت کافی ہیں۔ ذیل میں ہم قائد اہل سنت کا اجمالی تذکرہ کریں گے۔
قائد اہل سنت ،حضرت علامہ ارشد القادری علیہ الرحمہ : ایک مختصر تعارف
آپ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں آپ کا نام نامی اسم گرامی خود ایک
تعارف ہے ۔اصل نام غلام رشید ہے لیکن قلمی نام ارشد القادری سے مشہور ہیں
آپ کی پیدائش مولانا عبد اللطیف صاحب رشیدی کے گھر سید پورہ ضلع بلیا میں
۱۹۲۵ء میں ہوئی ابتدائی تعلیم گھر کے علمی ماحول میں حاصل کی ، پھر
تقریباً آٹھ سال حضرت حافظ ملت مولانا عبدالعزیز اشرفی بانی جامعہ اشرفیہ،
مبارک پور کی آغوش تربیت میں رہ کر اکتساب علم کیا ۔۱۹۴۴ء میں دارالعلوم
اشرفیہ کے سالانہ جلسہ ٔ دستار بندی میں آپ کو سند فضیلت سے نوازا گیا ۔اس
کے بعد آپ تدریس کے لیے ناگ پور پھر وہاں سے 1952 میں جمشید پور تشریف لے
آئے۔ نصف صدی سے زائد پر محیط تدریسی دور میں تقریباً ڈیڑھ ہزار طلبہ نے آپ
سے اکتساب علم کیا آپ ایک صاحب طرز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ تحقیقی ذہن وفکر
رکھنے والے صاحب قلم بھی تھے ۔آپ کی نثر میں بلا کی جاذبیت وہ کشش پائی
جاتی ہے میرے اس دعوے کی واضح دلیل آپ کی تصنیفات وتالیفات ہیں جن کی تعداد
تین درجن سے زائد ہیں جن میں زلزلہ ،زیروزبر،لالہ زاربطور خاص قابل ذکر ہیں
۔آپ نے پورے ملک میں مدارس ومساجد کا ایک جال بچھا دیا ہے یہاں تک کے ملک
سے باہر بھی آپ نے کئی ادارے قائم کئے ہیں ۔جن کی مجموعی تعداد تین درجن سے
زائد ہے جن میں جامعہ حضرت نظام الدین اولیا دہلی،ادارۂ شرعیہ ،عالمی
دعوتی، اصلاحی تحریک دعوت اسلامی ،ورلڈ اسلامک مشن لندن، جامعہ
مدینۃالاسلام ہالینڈ، دارالعلوم علیمیہ سورینام امریکا، مدرسہ فیض العلوم
جمشید پور وغیرہ کاقیام آپ کے زرین کارنامے ہیں ۔انہوں نے ملی ،جماعتی
،مفاد میں ملک وبیرون ملک سینکڑوں مضبوط ومستحکم قلعہ تعمیر کرنے کے باوجود
اپنے اور اپنے اہل و عیال کیلئے ایک جھوپڑی بھی نہیں بنا یا ۔یہیں سے ان کی
ﷲیت اور بے لو ث خدمات کا پتہ چلتا ہے ،آج کے مادیت زدہ دور میں تبلیغ
واشاعت دین کا کام کرنے والوں کے لئے آپ کا یہ عدیم المثال عمل یقیناقابل
تقلید ہے ۔ قائد اہل سنت کی شخصیت بڑی ہمہ جہت اور جذبہ وعمل سے بھر پور
تھی ،اکیسویں صدی عیسوی کے اوائل تک ملک کی تاریخ پر ان کے اثرات اس قدر
وسیع اور گہرے ہیں کہ ان کے تذکرے کے بغیر ہر تاریخ ادھوری رہ جائے گی
۔زندگی کے ہر میدان میں آپ نے لوگو ں کو متاثر کیا ،ملت اسلامیہ پر آپ کے
بے شمار احسانات ہیں لہذا ہم اپنے قائدو محسن کی بارگاہ میں گلہائے محبت
اور خراج عقیدت پیش کریں اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ان کی یاد گاروں کو
نہ صرف باقی رکھی جائے بلکہ انہیں بام عروج تک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش کی
جائے ،ان کی تصنیفات وتالیفات کو دنیاکی مختلف مشہور ومعروف زبانوں میں
منتقل کرکے عام کردی جائے ۔اﷲ رب العزت کی بارگاہ عالیہ میں دعا ہے کہ ہم
غلامان مصطفےٰ کو اپنے آقا ﷺ کی سیرت پر چل کر اپنے قائد ومحسن کے خواب کو
پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ (آمین) |
|