بسم اﷲ الرحمن الرحیم
ترک صدر رجب طیب اردوان دو روزہ دورہ پر پاکستان پہنچ گئے ہیں۔ان کا یہ
دورہ ایسے وقت میں کیا جارہا ہے کہ جب امریکہ میں انتہاپسند ڈولڈ ٹرمپ کے
صدر منتخب ہونے پر بین الاقوامی سیاست میں اہم تبدیلیاں رونما ہو رہی
ہیں۔اسرائیلی صدر بھارتی دورہ کے دوران دفاعی و اقتصادی معاہدے کر رہے ہیں۔
بھارت نے کنٹرول لائن پر روزانہ کی بنیاد پر فائرنگ کر کے غیر اعلانیہ جنگ
چھیڑ رکھی ہے، پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ کو نقصان پہنچانے کیلئے
تخریب کاری و دہشت گردی کی آگ بھڑکائی جارہی ہے اوراس سے بھی زیادہ خطرناک
بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے دینی مرکز سعودی عرب کا چاروں اطراف سے گھیراؤ
کیا جارہا ہے۔ حوثی باغیوں کو درپردہ اسلحہ و دیگر وسائل فراہم کئے جارہے
ہیں جس سے ان کا حوصلہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ انہوں نے مکہ مکرمہ پر میزائل
حملہ سے بھی دریغ نہیں کیا۔ان حالات میں طیب اردوان کا یہ دورہ انتہائی
اہمیت کا حامل ہے ۔ بعض نام نہاد دانشوروں کی طرف سے بے پر کی اڑائی گئی ہے
کہ ان کے دورہ کا اہم مقصدسیاسی و عسکری قیادت میں اختلافات ختم کرنا ہے
لیکن یہ بات کسی طور درست نہیں ہے‘ ان کا دورہ پہلے سے طے شدہ تھا۔ ناکام
فوجی بغاوت کیخلاف پاکستان کی جانب سے ترک حکومت کی حمایت پراگست میں انہوں
نے دورہ پاکستان کااعلان کیا تھا۔دیکھا جائے تواس وقت پاکستان، ترکی اور
سعودی عرب کو ایک جیسے چیلنجز درپیش ہیں۔یہ تینوں بڑے اسلامی ملک صیہونی و
یہودی لابی کے نشانہ پر ہیں اوربیرونی خطرات کی طرح اندرونی سطح پر بھی
انہیں دہشت گردی کا سامنا ہے۔ بیرونی قوتوں نے منظم منصوبہ بندی کے تحت ان
ممالک میں خاص طور پرفتنہ تکفیر کو پروان چڑھایا اور ایسی تنظیمیں کھڑی کی
گئی ہیں جوڈالر وصول کر کے ان کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہیں اور چند ٹکوں کی
خاطر اپنا دین و ایمان بیچ کر مسلم افواج اور دفاعی اداروں کی طرح عوام کو
بھی نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتیں۔یہی وجہ ہے کہ یہ تینوں ممالک تکفیر
اور خارجیت کا شکار داعش جیسی تنظیموں کوکچلنے کیلئے اپنی پوری قوت صرف کر
رہے ہیں۔ادھر پاکستان کا ایٹمی پروگرام اور اقتصادی راہداری کا گیم چینجر
منصوبہ بھارت، امریکہ، اسرائیل اور ان کے دیگر اتحادیوں کو ہضم نہیں
ہورہا۔وہ ہر صورت اسے سازشوں کا شکار کر کے اقتصادی طور پر پاکستان کو
مستحکم نہیں ہونے دینا چاہتے۔ اسی طرح ترکی میں بھی بغاوتیں کھڑی کر کے اسے
عدم استحکام سے دوچارکرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں اس لئے پاکستان اور ترکی
کا ایک دوسرے کے قریب آناانتہائی اہمیت رکھتا ہے۔اندورونی سطح پر تکفیر و
خارجیت کے خاتمہ اوربین الاقوامی سطح پرکی جانے والی سازشیں ناکام بنانے
کیلئے انہیں جو چیلنجز درپیش ہیں اس کیلئے انہیں باہم متحد ہو کر مضبوط
پالیسیاں ترتیب دینا بہت ضروری ہے۔ یوں بھی ترکی وہ اہم اسلامی ملک ہے جس
نے مسئلہ کشمیر پر کھل کر پاکستان کے موقف کی حمایت کی اور سیلاب، زلزلہ و
دیگر قدرتی آفات میں ہمیشہ بڑھ چڑھ کر پاکستانی بھائیوں کا ساتھ دیا ہے۔خاص
طو رپر طیب اردوان کے دور میں دونوں ملکوں کے تعلقات میں بہت مضبوطی آئی ہے
یہی وجہ ہے کہ ان کی پاکستان آمد پروزیر اعظم نواز شریف اور دیگر عہدیداران
کی جانب سے ان کے استقبال کی بھرپور تیاریاں کی گئیں۔طیب اردوان پاکستانی
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کریں گے۔اس حوالہ سے وہ 19ویں جبکہ
تیسری بار پارلیمنٹ سے خطاب کرنے والے پہلے عالمی رہنما ہیں۔ پاکستانی
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس، قومی اسمبلی یا سینیٹ سے اب تک 18ممالک کے
سربراہان خطاب کر چکے ہیں جن میں چین سمیت دیگر مسلم ملکوں کے سربراہان
شامل ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف ترک صدر کو لاہور میں بھی استقبالیہ دیں گے۔
ان کی آمد کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبائی دارالحکومت میں طیب اردوان کو خوش
آمدیدکہنے کیلئے تمام بڑی شاہراہوں پرخیرمقدمی نعروں پر مبنی ہورڈنگز لگائے
گئے ہیں جس پر دونوں ملکوں کے مابین محبت کا زبردست اظہار دیکھنے میں آیاہے۔
ترک صدر اور سیاسی وعسکری قیادت کے مابین ملاقاتوں کے دوران دہشت گردی کے
درپیش فتنہ سے نمٹنے کیلئے اہم فیصلے کئے جاسکتے ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے
کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں لاکھوں مسلمان شہید کر دیے
مگر عملی طور پر وہ افغانوں کو شکست نہیں دے سکے اور بری طرح ہزیمت سے
دوچار ہو کر یہاں سے نکل رہے ہیں۔ دوسرے خطوں میں بھی انہیں ایسی ہی
صورتحال کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ اس لئے میدانوں میں شکست پر جنگوں کا
انداز تبدیل ہو چکا اور وہی پرانے حربے اختیار کرتے ہوئے مسلمان ملکوں میں
تکفیر اور خارجیت کے بیج بو کر قتل مسلم کے فتنہ کی آبیاری کی جارہی ہے۔
مشرق وسطیٰ میں بھی اسی منصوبہ پر کام کیا گیا اور یہاں بھی ایسے گروہوں کی
پشت پناہی کی جارہی ہے جو پاک فوج، فضائیہ، بحریہ ، رینجرز ، پولیس اور
دوسرے اداروں پر حملوں کو جائز قرار دیکر آگ اور خون کا کھیل رہے ہیں تاہم
اﷲ کا شکر ہے کہ جنرل راحیل شریف کی زیر قیادت آپریشن ضرب عضب سے افواج
پاکستان نے لازوال کامیابیاں حاصل کیں اور بیرونی قوتوں کے نیٹ ورک بکھر کر
رہ گئے ہیں جس سے دہشت گردی کی وارداتوں میں کافی حد تک کمی آئی ہے۔
پاکستانی فوج کی طرف سے ترکی اور سعودی عرب کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں بھی
کی گئی ہیں جس سے دونوں برادر ملک بھی افواج پاکستان کے دہشت گردی کچلنے کی
صلاحیتوں سے فائدے اٹھا رہے ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ یہ سلسلہ اور مضبوط ہو
نا چاہیے۔ خاص طورپر مکہ مکرمہ پر میزائل حملہ کی ناکام کوشش کے بعد
پاکستان اور ترکی کو کھل کر سعودی عرب کی ہر ممکن مددکاپیغام دینا چاہیے
اور سرزمین حرمین شریفین کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرنے والے باغیوں کو
کچلنے کیلئے سعودی عرب کے ساتھ ہر قسم کا تعاون فراہم کرتے ہوئے اپنی افواج
بھجوانے میں بھی پس و پیش سے کام نہیں لینا چاہیے۔ حرمین کا تحفظ ہر مسلمان
کے عقیدے اور ایمان کامسئلہ ہے۔ اس میں کسی قسم کی غفلت پسندی کا مظاہرہ
درست نہیں ہے۔ طیب اردان آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بھی خطاب کر رہے
ہیں تاہم تحریک انصاف نے اس کے بائیکاٹ کا اعلان کر رکھا ہے اور ترک سفیر
کی جانب سے درخواست کے باوجود پی ٹی آئی ممبران اس اجلاس میں شریک نہیں ہوں
گے۔ ترک صدر پاکستان کے معزز مہمان ہیں ان کی آمد پراسمبلی اجلاس میں شرکت
نہ کرنے کا اعلان غیر سنجیدگی کا مظہر ہے۔ اس سے برادر ملک کو اچھا پیغام
نہیں جائے گا۔ خاص طور پر جب ترک سفیر نے خود ملاقات کر کے انہیں بائیکاٹ
ختم کرنے کیلئے کہا تو انہیں ان کے اس مطالبہ کا لحاظ رکھنا چاہیے تھا۔
پانامہ لیکس کا کیس سپریم کورٹ میں ہے وزیر اعظم نواز شریف سمیت ان کے
خاندان یا پارٹی کا کوئی شخص کرپشن میں ملوث ہے تو اسے اس کی سزا ضرور ملنی
چاہیے لیکن تعمیری سیاست کی بجائے مفادات کی سیاست کا جو انداز اختیار کیا
جارہا ہے‘ یہ درست نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی کشمیر کا مسئلہ پورے جوبن پر
تھا۔ ساری دنیا پر بھارتی ریاستی دہشت گردی بے نقاب ہو رہی تھی مگر پاکستان
جو اس مسئلہ کا اہم فریق بلکہ وکیل ہے‘ یہاں انتشار کی سیاست پروان چڑھنے
سے مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلا گیا اور ساری دنیا پاکستان میں سیاسی
جماعتوں کی باہمی رسہ کشی کا منظر دیکھتی رہیں۔ اگر عمران خاں ترک صدر کی
آمد پر پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں شریک ہو کر ان سے یکجہتی کا اظہار
کرتے تو اس سے خود ان کا اور ان کی پارٹی کا وقار بلند ہوتا۔بہرحال طبیب
اردوان کی پاکستان آمد پربرادر اسلامی ملک کو کوئی منفی پیغام نہیں جانا
چاہیے۔ پاکستان اور ترکی دوستی کے جن لازوال رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں
انہیں مزید مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ |