نواز شریف کی کمیشن کی تجویز، کیاکمیشن کی نظر ہوگئی

حکمرانوں! کچھ کرو کراچی کی ٹارگٹ کلنگ رضا حیدر کے بعد عیبداللہ کو بھی نِگل گئی...آخر کب تک؟؟؟
امریکی اِنتباہ!پاکستانی سیاستدان نمبر بنانے کے بجائے متحد ہوجائیں...؟؟

ایک طرف سارے پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں اپنے عروج پر ہیں تو دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے تجارتی مرکز کراچی میں کچھ دنوں کے وقفے کے بعد گزشتہ دنوں ایئر پورٹ کے علاقے میں مسلح ملزمان کی جانب سے گھات لگا کر پیش آنے والے ٹارگٹ کلنگ کے ایک واقعے میں اے این پی کے صوبائی رہنما عبیداللہ یوسف زئی اور اِن کے ساتھی سلیم اختر کی شہادت کے بعد شہر کراچی میں ایک بار پھر ہنگامے پھوٹ پڑے جس کے نتیجے میں شہر بھر میں ہونے والے جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ کی وارداتوں سمیت ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں مزید 15نہتے اور بے گناہ افراد شہید اور 80 کے قریب زخمی ہوگئے اِس کے بعد اے این پی کی مرکزی صوبائی قیادت نے شہر میں تین دن کا پرامن یوم سوگ کا اعلان کیا ہے۔

اگرچہ اے این پی کی صوبائی قیادت نے پر امن یوم سوگ کا اعلان کیا مگر اِس کے باوجود بھی شہر کے بیشتر علاقوں میں مسلسل کشیدگی برقرار رہی اور شہر کراچی کے آدھے سے زیادہ حصے میں ہر قسم کا معاملات زندگی مفلوج ہوکررہ گیا اگرچہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شہر کراچی میں گشتہ کئی سالوں سے ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کو اَب تک حکومت روکنے میں بری طرح سے ناکام رہی ہے تو وہیں سیکورٹی کا کوئی بھی ادارہ شہر کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کی روک تھام اور شہر کے امن کو طویل مدت تک برقرار رکھنے کی ذمہ داری لینے کو بھی شائد تیار نہیں ہے جس کی وجہ سے شہر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کا ہونا روزکا معمول بن چکا ہے۔

یہاں میرا خیال یہ ہے کہ اگر حکومت نے اِس جانب سنجیدگی سے اقدامات نہ کئے تو اِس کی تباہ کاریوں کے اثرات ملک میں آنے والے صدی کے اِس خطرناک ترین سیلاب سے بھی کہیں زیادہ ہولناک اور عبرتناک ہوسکتے ہیں۔ لحاظ ابھی وقت ہے کہ حکومت جس طرح ملک میں آنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات کررہی ہے تو وہیں حکومت کو یہ بھی چاہئے کہ کراچی میں آئے روز ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کی روک تھام کے لئے بھی ایسے ہی اقدامات کرے تاکہ کراچی میں امن وامان کی فضا قائم ہو تو ملک بھی ترقی اور خوشحالی کی جانب ایک قدم آگے بڑھ سکے گا ورنہ اگر حکومت نے سنجیدگی سے کوئی لائحہ عمل نہ مرتب کیا تو پھر یہی کچھ ہوتا رہے گا جیسا گزشتہ دنوں ہوا اور اِس سے قبل 2اگست کو ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے صوبائی اسمبلی کے ممبر رضا حیدر اور اِن کے محافظوں کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجے میں ہونے والی شہادت کے بعد شہر کراچی میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور تین دن بند رہنے کی وجہ سے شہر کراچی کا اربوں کا نقصان ہوا تھا اور اے این پی کے عبیداللہ اور اِن کے ساتھی کی شہادت کے بعد پھر تین دن کے سوگ کے اعلان کی وجہ سے بھی اِس شہر قائد کو ایک بڑے نقصان سے دوچار ہونا پڑے گا۔ یہ ایک لمحہ فکریہ ہے اُن لوگوں کے لئے جو اقتدار کی مسند پر بیٹھے ہیں اور اُن لوگوں کے لئے بھی جو اپنے صوبوں سے ہجرت کر کے یہاں اپنے زریعہ معاش کے لئے آئے ہیں اِن سب کو چاہئے کہ اگر وہ کراچی کو واقعی اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اِس کی ترقی اور خوشحالی کو اپنی اور ملک کی ترقی اور خوشحالی جانتے ہیں تو براہِ کرم سیاسی جماعتوں کا آلہ کار بننے کے بجائے اپنی بساط کے مطابق اِس شہر اور ملک کی ترقی اور خوشحالی کے خاطر یہاں کے مقامی باشندوں کے ساتھ مل کر کام کریں اپنا حق ایک اچھے دوست کی حیثیت سے حاصل کرتے رہیں اِس ہی میں ہم سب کی بھلائی ہے اور طاقت کے بیدریغ استعمال سے سوائے نقصان کے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔

جبکہ اِدھر ملک میں آنے والے صدی کے سب سے زیادہ ہولناک سیلاب کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا ایک اندازے کے مطابق تخمینہ639ارب روپے لگایا گیا اگرچہ اِس ہدف کو پورا کرنے کے لئے جہاں پوری پاکستانی قوم اِس مصیبت کی گھڑی میں متحد ومنظم ہے تو وہیں عالمی برادری بھی پاکستان اور پاکستانی قوم کو اِن کٹھن اور مشکل لمحات اکیلانہ چھوڑنے کا تہیہ کیے ہوئے ہے اور وہ بھی اِس حوالے سے پاکستان کی ہر ممکن مدد کرنے کو ہمہ وقت تیار ہے صوبوں کے لحاظ سے سیلاب کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں اِس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ نقصان خیبر پختونخواہ میں 187،پنجاب میں80، سندھ میں90اور بلوچستان میں55ارب روپے کے نقصانات ہوئے ہیں اِس لحاظ سے یہ ذمہ داری موجودہ حکومت پر عائد ہوتی ہے کہ وہ تمام صوبوں میں ہونے والے نقصانات کو سامنے رکھتے ہوئے اِس کے ازالے کے لئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کرے حکومتی اراکین کا سیلاب سے متاثرہ علاقوں کاہیلی کاپٹروں میں بیٹھ کر خالی دورے کرنے اور زبانی کلامی کرنے سے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا جب تک حکومت متاثرین سیلاب کی بحالی کے لئے عملی طور پر صاف وشفاف اقدامات خود سے نہ کر لے تو اُس وقت تک ملک میں سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں کا ازالہ ناممکن ہوگا۔

اگرچہ اِس حوالے سے گذشتہ دنوں ایک بار پھر ملکی کی پہلی اور دنیا کی اپنی نوعیت کی اُس انوکھی فرینڈلی اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے ملک میں آنے والے صدی کے خطرناک ترین سیلاب کی تباہ کاریوں سے ملک اور قوم کے ہونے والے نقصانات کے ازالے کے لئے قومی درد کو محسوس کرتے ہوئے جب وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سے ایک ملاقات کی تھی تو قوم کو قوی اُمید ہوچلی تھی کہ اِس بار یہ دونوں قومی رہنما اپنے سیاسی اور ذاتی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملک اور قوم کے خاطر کسی نتیجہ خیز انجام کو ضرور پہنچیں گے اور سیلاب کی شکل میں ملک میں آنے والی اِس قدرتی آفت سے دوچار قوم کو مصیبت کی گھڑی سے نکالنے میں ایک دوسرے کی معاونت کریں گے جس نے پورے پاکستان کو جکڑ رکھا ہے اور یوں ملک کے موجودہ اور سابق وزیر اعظموں کے درمیان ہونے والی اِس ملاقات کو سیاسی، سماجی اور مذہبی حلقوں میں بھی بے حد سراہا گیا اور اُنہوں نے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف کی جانب سے وزیراعظم کو دی گئی اُس تجویز کو بھی ملک اور قوم کے بہتر مستقبل کے لئے حوصلہ افزا قرار دیا گیا جس کے تحت نواز شریف نے وزیراعظم کو کہا تھا کہ سیلاب زدگان کے لئے ہر لمحہ قیمتی ہے اور اِن کی بروقت اور صاف و شفاف طریقے سے مدد کے لئے ایک ایسا کمیشن کا قیام عمل میں لایا جانا بہت ضروری ہے جو ملکی اور اقوام عالم کی جانب سے رقوم اور سامان کی شکل میں آنے والی امداد کو بلاکسی رنگ و نسل اور سیاسی وابستگیوں کے اپنی زیرِ نگرانی تقسیم کو یقینی بناسکے اور میاں نواز شریف کا وزیراعظم سیدیوسف رضا گیلانی کو اِس موقع پر یہ کہنا بھی سوفیصد درست تھا کہ غیر سیاسی اور غیر جانبدار افراد پر مشتمل اِس آزاد کمیشن کے بغیر سیلاب زدگان کی صاف وشفاف طریقے سے مدد نہیں کی جاسکتی جس کے قیام کے لئے نواز شریف نے حکومت کودو دن کی مہلت دی تھی۔

اگرچہ یہ بھی درست ہے کہ دوسری جانب بعض سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں نے تو نواز شریف کی جانب سے وزیراعظم کو دی جانے والی ایک آزاد کمیشن کے قیام کی تجویز پر پہلے ہی اِس خیال کا اظہار کردیا تھا کہ ملک میں آنے والے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں کے متاثرہ علاقوں میں فنڈز جمع کرنے اور اِسے خرچ کرنے کے حوالے سے ملک کے انتہائی معروف اور غیر متنازع اشخاص پر مشتمل آزاد کمیشن کے قیام کی میاں نواز شریف کی تجویز کو جہاں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے فوری طور پر قبول کیا تو وہیں اِس سے یہ بھی صاف اور واضح طور پر ظاہر ہو گیا ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی اہلیت پر کھلم کھلا عدم اعتماد کا بھی اظہار کردیاہے جس سے وزیراعظم کی اپنی شخصیت ،اہلیت اور سیاسی بصیرت خود اپنی ہی پارٹی میں سوالیہ نشان بن جائے گی ....اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ بعد والے بعض انتہائی معتبر سیاسی حلقوں اور تجزیہ نگاروں نے ظاہر کیا تھا۔

اور افسوس کہ حکومت کی جانب سے اپنی نوعیت کی اِس انوکھی ملاقات کا بھانڈہ اُس وقت پھوٹ گیا جب وفاقی وزیر اطلاعات قمر زمان کائرہ نے یقیناً پارٹی مصلحتوں کا شکار ہوتے ہوئے ایک بریفنگ کے دوران واضح اور دوٹوک الفاظ میں اپنے پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف کی جانب سے دی جانے والی اُس تجویز کو جو ملک وقوم کو اِس بحران سے نکالنے میں بڑی حد تک معاون اور مددگار ہوسکتی تھی اِسے یکسر رد کر دیا اور یہ مؤقف اختیار کیا کہ نواز شریف کی تجویز پر فوری عمل قطعاًَ نہیں ہوسکتا کیوں کہ صرف دو رہنماؤں میں اتفاق سے کمیشن کیسے بن سکتا ہے.....؟ اِن کا اِس موقع پر یہ بھی کہنا کہ نواز شریف کی اِس تجویز پر عمل کرنے کے لئے صوبوں کو اعتماد میں لینا ہوگا..... کائرہ کا یہ جملہ جہاں بہت سے سوالات کو جنم دے گیا تو وہیں ایک سوال یہ بھی تھا کہ جب دو حکومتی اتحادی جماعتیں ایم کیو ایم اور اے این پی جو اپنے صوبوں میں اپنا اچھا سیاسی اور سماجی اثر ورسوخ رکھتی ہیں وہ پہلے ہی آزاد کمیشن کے قیام کے حق میں فیصلہ دے چکی تھیں تو پھر کائرہ کا یہ کہنا کہ تمام صوبوں کو اعتماد میں لیناہوگا کس طرح درست ہوسکتا ہے۔

بہرحال! اَب جبکہ وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گذشتہ جمعرات کو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ کمیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے متاثرین سیلاب میں ملکی اور غیرملکی امداد کی صاف و شفاف طریقے سے تقسیم کے کاموں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ملک کی ممتاز اور معروف اچھی شہرت کی حامل شخصیات پر مشتمل ایک قومی نگراں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کونسل کے قیام کا اعلان کرکے جہاں نوازشریف کی کمیشن کی تجویز کو ردکرکے اِنہیں حیران کردیاہے تو وہیں پوری پاکستانی قوم اور دنیا کو بھی پریشان اور ششدراور ساتھ ہی اِنہیں یہ سوچنے پر بھی مجبور کردیا کہ آخر کیا حرج تھا.....؟ کہ اگر حکومت نواز شریف کی دی گئی تجویز پر عمل کرلیتی اوراُن شخصیات پر مشتمل آزاد کمیشن بنا دیتی جن پر نوازشریف نے اعتبار اور اعتماد کیا تھا تو ملک میں یقیناً ایک مثبت اور تعمیری سیاست کی ابتدا تو ہوجاتی ......اور اَب جب کہ حکومت نے نوازشریف کی تجویز کو ردی کی ٹوکری کے نظر کرتے ہوئے 9سے13ارکان پر مشتمل ایک قومی نگراں ڈیزاسٹر مینجمنٹ کونسل کے قیام کا ابھی صرف اعلان ہی کیا ہے اور اِ س کی تشکیل کے لئے صوبوں سے اچھی شہرت رکھنے والی شخصیات کے نام مانگے جارہے ہیں تو اِس کے باضابطہ قیام کو اور اِس کے فعل ہونے میں کتنا وقت لگ سکتا ہے .....؟؟؟؟یہ بھی وہ سوالات ہیں جن سے جہاں پاکستانی قوم پریشان ہے تو وہیں مفلوک الحال سیلاب سے متاثرین بھی اِس مخمصے اور الجھن کا شکار ہوکر رہ گئے ہیں کہ حکومت ہماری مدد میں جلدبازی کا مظاہرہ کرنے کے بجائے دانستہ طور پر ایسے حربے استعمال کررہی ہے کہ متاثرین سیلاب میں امداد کی تقسیم میں تاخیر ہو اور پاکستانی قو م اور عالمی توجہ اِس جانب سے ذرا سی بھی ہٹے تو یہ بھی اِس امداد کا وہی حشر کرے اور اِس کے ساتھ وہی گیم کھیلے جیسے ماضی میں ملک کے ایک وزیر اعظم نے ملک میں قحط کا ڈھنڈورا پیٹ کر قحط زدگان کی مدد کے لئے بیرونِ ممالک سے آنے والی امدادی رقوم کا کیا.........!!!! اور ایک صدر نے اپنی حکومت میں شمالی علاقہ جات میں آنے والے ہولناک زلزلے کے بعد ملک میں آنے والی عالمی امداد کے ساتھ کیا تھا۔

اور اِس کے ساتھ ہی مجھے یہ کہنے دیجئے !کہ اُدھر یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے سیاستدانوں نے ملک میں آنے والے صدی کے اِس ہولناک اور عبرت ناک سیلاب سے ہونے والی تباہ کاریوں سے بھی کوئی سبق نہیں سیکھا جس سے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور ہزاروں انسان لقمہ اجل بن گئے ہیں اِس کے باوجود بھی یہ سب اپنی اپنی سیاسی دکانیں چمکانے اور ایک سے بڑھ کر ایک بڑے بڑے دعوے کر کے میڈیا کی زینت بننے کے سوا عملی طور پر متاثرین سیلاب کی مدد کے لئے کچھ نہیں کر رہے ہیں اِن کی اِس بے حسی کو دیکھتے ہوئے تب تو واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے بھی پاکستان کے ایک کثیرالاشاعت روزنامے کے نمائندے کو دیئے گئے اپنے انٹرویو میں بلاجھجک یہ کہہ کر پاکستانی سیاستدانوں کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ملک کو درپیش اِس مشکل چیلنچ کے موقع پر اپنے اپنے سیاسی فوائد حاصل کرنے اور ایک دوسرے سے نمبر بنانے کے بجائے متحد ہوکر اپنے ملک اور قوم کو اِس قدرتی آفت سے چھٹکارہ دلانے کے لئے عملی کام کرکے دکھائیں ناکہ میڈیا پر آکر بیان دینے اور تصویریں بنوانے سے نہ تو یہ مشکل ختم ہوگی اور نہ اِس مصیبت زدہ چیلنچ کا مقابلہ ہی کیاجاسکتا ہے جس نے صرف پاکستان کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ ساری دنیا کو بھی یہ سبق دے دیا ہے کہ آئندہ دنوں میں ایسی اور اس سے بھی کہیں زیادہ طاقتور قدرتی آفت دنیا کے کسی بھی ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ملک میں بھی آسکتی ہے۔
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 893703 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.