کیا مصطفی کمال کی باتیں کراچی کی سیاست میں کوئی تبدیلی لاسکتی ہیں ؟
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
کہتے ہیں کہ انسان کی شخصیت کا اندازہ اس
کے منہ سے نکلی ہوئی باتوں سے باآسانی لگایا جاسکتا ہے ،گزشتہ 8 ماہ کے
دوران کراچی کی سیاست میں بڑی تیزی کے ساتھ جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے
بعد مختلف سیاستدان جس طرح دل کھول کر اپنی اپنی باتیں کررہے ہیں ،شاید ہی
ماضی میں اتنی زیادہ باتیں صرف8 ماہ کے دوران کبھی کی گئی ہوں۔کراچی کی
سیاست کے حوالے سے ان آٹھ ماہ میں کی گئی باتوں کو نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا کہ یہ سب باتیں مستقبل میں کراچی کی انتخابی سیاست کے نتائج پر
اثرانداز ہوکر کسی بھی بڑی سیاسی تبدیلی کا سبب بن سکتی ہیں لہذا آج ہم
مصطفی کمال کی جانب سے گزشتہ 8 ماہ کے دوران کی گئی باتوں پر ایک نظر ڈالتے
ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا مصطفی کمال کی باتیں کراچی کی
سیاست میں کوئی تبدیلی لاسکتی ہیں؟
3 مارچ 2016 کو کراچی واپس آنے سے لے کرتاحال مصطفی کمال نے اپنی پریس
کانفرنسوں ،ٹی وی ٹاک شوز اور جلسے میں کی گئی تقریر میں جو باتیں کی ہیں
ان پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ ہی بات سامنے آتی ہے کہ وہ اپنی سابقہ پارٹی
ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کی سیاسی اور نجی زندگی کی مبینہ
بداعمالیوں کا ببانگ دہل پول کھولتے ہوئے متحدہ قائد اور ایم کیوایم کی ملک
دشمن سرگرمیوں کے حوالے سے بہت سے چونکادینے والے انکشافات کرتے ہوئے بہت
سی ایسی باتیں بتائی ہیں جو اس سے پہلے لوگوں سے چھپی ہوئی تھیں یا اگر کچھ
لوگوں کو یہ سب معلوم تھا بھی تو وہ اسے آشکار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تھے
لیکن مصطفی کمال نے وہ کردکھایا جو کوئی دوسرا نہیں کرسکا ،یہ سب باتیں
کرنے کے بعد وہ ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کرکے اس کے پلیٹ فارم سے لوگوں کے
دلوں کوجوڑنے کی بات کرتے ہیں،وہ اختلاف برداشت کرنے کی بات کرتے ہیں،وہ
کراچی کوبدامنی اور دہشت گردی سے پاک شہر بنانے کی بات کرتے ہیں وہ کراچی
کے نوجوانوں کو را کا ایجنٹ بننے سے روکنے کی بات کرتے ہیں۔وہ نوجوانوں کے
ہاتھوں میں اسلحہ کی بجائے قلم پکڑوانے کی بات کرتے ہیں ،وہ اپنی ذات کو
بھی احتساب کے لیئے پیش کرنے کی بات کرتے ہیں ،وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بھی
محبت کا رویہ اختیارکرنے کی بات کرتے ہیں ،وہ سیاست سے بدمعاشی کے کلچر کو
ختم کرنے کی بات کرتے ہیں ،وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ متحدہ کے قائدکے بھارتی
ایجنسی را سے تعلقات اور فنڈنگ کے حوالے سے بول رہا ہوں اگر وہ غلط ثابت ہو
تو مجھے پھانسی دے دی جائے ،وہ نوجوانوں کے ہاتھ میں اسلحہ کی بجائے قلم
پکروانے کی بات کرتے ہیں وہ ایم کیو ایم کے ان کارکنوں کے لیئے ریلیف کی
بات کرتے ہیں کہ جو کارکن متحدہ کی قیادت کی باتوں میں آکر گمراہ ہوکر
جرائم میں ملوث ہوگئے وہ ان سب کو دوبارہ قومی دھارے میں شامل کرنے کی بات
کرتے ہیں، وہ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی وجہ سے متحدہ قومی موونٹ
پر پابندی لگانے کی بات کرتے ہیں وہ بلدیاتی نظام کی بہتری اور نفازکی بات
کرتے ہیں ،وہ لوگوں کے گلی محلوں کی سڑکوں اور نالوں کی صفائی کی بات کرتے
ہیں وہ نجلی سطح پر اختیارات منتقل کرنے کی بات کرتے ہیں ،وہ گلی محلے کے
لوگوں کو اپنے علاقے میں کچرے کی صفائی ،سیوریج اور دیگر عوامی مسائل کے حل
کے لیئے ان کو بااخیتار بنانے کی بات کرتے ہیں ،وہ لسانیت اور عصبیت سے پاک
پاکستانی کلچر کو فروغ دینے کی بات کرتے ہیں تو کیا ان کی باتوں سے ان کی
حب الوطنی اور کراچی والوں کے لیئے بہت کچھ کرنے کے عزائم کا اظہار نہیں
ہوتا ۔
مصطفی کمال نے جو کچھ اپنی زبان سے کہا وہ بلاشبہ بہت اچھی باتیں ہیں لیکن
کیا مصطفی کمال اپنی کہی گئی ان تمام باتوں پر مستقبل میں بھی قائم رہیں گے
اور عملی طور پر بھی کچھ کرکے دکھائیں گے یا نہیں ؟ اس کا فیصلہ آنے والا
وقت کردے گالیکن کم سے کم جو باتیں انہوں نے اپنی نئی سیاسی جماعت پاک
سرزمین پارٹی کے جلسے میں کی ہیں اور جو باتیں وہ ٹی وی ٹاک شو اور اپنی
پریس کانفرنسوں میں اکثر کرتے رہتے ہیں ان سے ان کے دل میں موجود پاکستانیت
کے جذبے کا واضح اظہار ہوتا ہے جس کی تعریف نہ کرنا ان کی حق تلفی ہوگی ۔مصطفی
کمال کی پاک سرزمین پارٹی کا جلسہ قیام پاکستان کے بعد شاید پہلا جلسہ تھا
جس میں جلسہ کرنے والی سیاسی جماعت نے اپنی پارٹی کا ایک بھی جھنڈا نہیں
لگایا اور جلسے میں بنائے گئے اسٹیج سے لے کر جلسے میں شریک ہزاروں لوگوں
کے ہاتھوں میں جو جھنڈا تھا وہ پاکستان کا جھنڈا تھا اور وہاں جو طرانے
بجائے جارہے تھے ا ن میں پارٹی ترانوں کے ساتھ پاکستان کے مشہور قومی ترانے
بھی بجائے جارہے تھے اور مجموعی طور پر اس پورے جلسے میں پاکستان سے محبت
اور پاکستانیت کے جذبے کا بھرپور اظہار کیا گیا جس پر ہرپاکستانی کو پاک
سرزمین پارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی اس منفرد کوشش اور کاوش کو سراہنا
چاہیئے کہ یہ قوم جو اب لسانی اور مذہبی فرقوں میں بٹ چکی ہے اسے پاک
سرزمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے ایک بار پھر صرف پاکستانی بننے کا درس دیا
جارہا ہے جو بحرحال ایک نہایت مثبت اور قابل تعریف بات ہے ۔لیکن یہ تو وقت
ہی بتائے گا کہ مصطفی کمال اور ان کے رفقا ء کی باتوں میں کتنی سچائی اور
اثر ہے اور مستقبل میں وہ کم سے کم کراچی کی انتخابی سیاست میں کوئی تبدیلی
لاسکتے ہیں یا نہیں؟کیونکہ کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جس کی آبادی
بھی پاکستان کے تمام شہروں سے زیادہ ہے اس لیئے یہاں پر کسی بھی سیاسی
جماعت کے جلسے میں 25 ہزار یا اس سے زیادہ لوگ جمع کرلینا کوئی بڑی بات
نہیں ہے ۔جلسوں کی سیاست اور انتخابی سیاست میں زمین آسمان کا فرق ہے لہذا
پاک سرزمین پارٹی کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ سیاست میں اصل کامیابی
ان ہی سیاسست دانوں اور پارٹیوں کو ملتی ہے جو انتخابات میں عوام کے ووٹ سے
کامیاب ہوکر صوبائی اور قومی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں لہذا اس سے کوئی فرق
نہیں پڑتا کہ جلسے میں کتنے آدمی تھے ؟ اصل مقبولیت اور کامیابی انتخابات
کے نتائج دیکھ کر واضح ہوتی ہے لہذا کراچی میں سیاست کرنے والی ہر جماعت کو
سب سے زیادہ توجہ اپنے ووٹرز کی تعداد میں اضافہ کرنے پر دینے ہوگی اور یہ
سب کچھ جلسوں سے نہیں لوگوں کی سوچ بدلنے سے حاصل ہوتا ہے ۔لوگوں کی سوچ
بدلنے کے لیئے ہی مصطفی کمال گزشتہ تین ماہ سے زائد عرصہ سے اپنی تقریروں
اور ٹی وی شوز میں یہی بات کہ رہے ہیں کہ ’’ہم تو لوگوں کو یہ بتانے آئے
ہیں کہ کراچی کے ووٹ بینک کے مالک ہونے کا دعویٰ کرنے والوں اور ان کی
پارٹی کی اصل حقیقت کیا ہے ،ہمارا کام لوگوں تک صحیح بات پہنچا دینا ہے جو
ہم 3 مارچ سے لے کر آج تک پہنچا رہے ہیں اور ہمیں خوشی ہے کہ لوگوں کو
ہماری بات سمجھ میں آنے لگی ہے یہی وجہ ہے کہ ایم کیو ایم کی سیاسی تاریخ
میں30 سال بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ ایم کیو ایم نے ہڑتال کی کال دی اور وہ
بری طرح ناکام ہوگئی اس کے علاوہ کراچی میں حال ہی میں ہونے والے ضمنی
انتخابات کے نتائج سے بھی یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ لوگ ہماری بات سن رہے
ہیں ،سمجھ رہے ہیں تب ہی تو ضمنی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا تناسب انتہائی
کم رہا ۔
مصطفٰی کمال نے کراچی واپس آنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس سے لے
کرکراچی میں نرسری کے قریب پی ای سی ایچ ایس کے علاقے میں پاک سرزمین پارٹی
کے مرکزی سیکریٹریٹ کے قیام تک جو باتیں کی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ
طویل جدوجہد اور بیشتر وقت ہر حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہنے کے
باوجود ایم کیوایم نے اپنے چاہنے والوں ،ووٹرز اور کارکنوں کو کیا دیا؟
ہڑتالیں ،جلاؤ گھیراؤ ،شور شرابے اور ڈراما بازیوں سے بھرپور سیاست کے لیئے
تو اردو بولنے والوں نے ایم کیوایم کو ووٹ نہیں دیے تھے ؟وہ اپنی پارٹی کے
کارکنوں کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتے ہیں اور جب کام نکل جاتا ہے تو
اسے پہچاننے سے بھی انکار کردیتے ہیں جبکہ ان کا جو کارکن دہشت گردی یا
ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے پکڑا جائے تو الطاف حسین اور ایم کیو
ایم کے دیگر قائدین اس کارکن سے لاتعلقی کا اظہار کرکے کہتے ہیں کہ اسے تو
ہم نے کافی پہلے متحدہ سے نکال دیا تھا۔یہ سب وہ باتیں ہیں جو مصطفی کمال
،انیس قائم خانی ،رضا ہارون ،ڈاکٹر صغیر ،وسیم آفتاب اور پاک سرزمین پارٹی
میں شامل ہونے والے تقریبا تما م رہنما اپنی پریس کانفرنسوں اور ٹی وی ٹاک
شوز میں متواتر کرتے رہتے ہیں لہذا ایم کیو ایم کو مصطفی کمال اینڈ کمپنی
کی باتوں کو نظر انداز کرنے کی بجائے ان سب باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ غور
کرنا چاہیئے اور اپنی غلطیوں کو سدھارنا چاہیئے ورنہ ایسا نہ ہو کہ 2018 کے
عام انتخابات کے نتائج ایم کیو ایم کی خوش فہمیوں اور مینڈیٹ کے دعووں کی
قلعی کھول دیں اور کراچی کی سیاست میں ایم کیوایم کی صوبائی اور قومی
اسمبلیوں کی بیشتر سیٹیں مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کی جھولی میں
جاگریں لہذا ایم کیو ایم کی مقامی قیادت کو اپنی خامیوں پر قابو پانے کی
سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیں ، اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو مصطفی کمال
انہیں بہت بڑا سرپرائز دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔لیکن ساتھ ہی مصطفی کمال
اور ان کی پاک سرزمین پارٹی کے حمایت کرنے والوں کو بھی زیادہ خوش فہمی کا
شکار نہیں ہونا چاہیئے کہ ایم کیو ایم کراچی میں 30 سال سے زائد عرصے سے
سیاست کررہی ہیں اور اس دوران ہونے والے ہر الیکشن میں اس کا ووٹ بینک
برقرار رہا ہے صرف گزشتہ الیکشن میں کراچی میں عمران خان کی پی ٹی آئی
کوپہلی بار 8 لاکھ سے زائد ووٹ ملے تھے یا اب حالیہ ضمنی الیکشن میں ایم
کیو ایم کو بہت کم ووٹ پڑا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہ لیاجائے کہ ایم کیوایم
کا کراچی سے صفایہ ہوجائے گا۔30 سال سے سیاست کرنے والی ایم کیو ایم اور 3
ماہ کی پاک سرزمین پارٹی کی مقبولیت اور کامیابی کا اصل اندازہ 2018 کے
انتخابی نتائج کے بعد ہی کیا جاسکے گا لہذا اس وقت تک پاک سرزمین پارٹی کو
اپنی تنظیم سازی کی طرف توجہ دینے اورپارٹی کے منشور کو مکمل کرکے منظر عام
پرلانے کے علاوہ آئندہ ہونے والے انتخابات کے لیئے ایسے تعلیم یافتہ لوگوں
کو اپنی پارٹی کاٹکٹ دینا ہوگا جو عوام میں مقبول ہوں اور جن کا دامن ہر
طرح کی کرپشن اورجرائم سے پاک ہو۔
30 سال سے سیاست کرنے والی ایم کیو ایم کا موازنہ 8 ماہ کی پاک سرزمین
پارٹی سے کرنے والوں کو بھی اب حقیقت کی دنیا میں واپس آکر یہ بات مان لینی
چاہیئے کہ8 ماہ کی پاک سرزمین پارٹی نے اپنے قیام کے صرف تین ماہ کے بعد جو
پہلا جلسہ عام منعقد کیااس میں ہزاروں افراد نے شرکت کرکے اس بات کا واضح
اظہار کردیا ہے کہ وہ کراچی کو بدا منی ،دہشت گردی ،ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ
خوری جیسی لعنتوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں اور جو بھی لیڈر ان کے اس جائز
مطالبے کو اہمیت دے کر سیاست کرے گا وہ اس کا ساتھ دیں گے، آج عوام بہت
باشعور ہو چکی ہے اب وہ صرف جھوٹے وعدوں اور دعووں پریقین کرنے کو تیار
نہیں اب وہ اس کا ساتھ دیں گے جو ان کے گلی محلے کے مسائل حل کرے گا جس کی
بات مصطفی کمال مسلسل کر رہے ہیں اورجلسے کی شرکا کی تعداد کے لحاظ سے بھی
پاک سرزمین پارٹی اور مصطفی کمال کو ناکام نہیں کہا جاسکتا کہ اتنے کم عرصہ
میں کوئی نئی سیاسی پارٹی جلسہ تو کیا ایک کارنر میٹنگ بھی کرنے کے قابل
نہیں ہوتی لیکن مصطفی کمال اینڈ کمپنی نے نہایت مختصر عرصے میں کراچی کے سب
سے بڑے گراؤنڈ میں ایک اچھا جلسہ عام کرکے اپنی ہمت، بے خوفی ،صلاحیت اور
قیادت کی خوبیوں کو ظاہر کردیا ہے لہذا ان کے مخالفین کو ہوش میں آکر مثبت
سیاست کرنی چاہیئے کہ آنکھیں بند کرلینے سے خطرہ نہیں ٹلا کرتا۔مصطفی کمال
کی آمد اور ان کی باتوں کے حوالے سے شک وشبہات کا اظہار کرنے والوں کو بھی
اپنی رائے کے اظہار کا پورا حق حاصل ہے جس کا وہ بھرپور استعمال کربھی رہے
ہیں لہذا سیاسی مخالفت کو سیاسی یا ذاتی دشمنی میں بدلنے کی بجائے ایک
دوسرے کی نظریات اور باتوں کو برداشت کرنے کی ضرورت ہے کہ اب کراچی کے لوگ
سیاسی جماعتوں کی دھما چوکڑی سے تنگ آچکے ہیں ۔لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی
انکار نہیں کرسکتا کہ گزشتہ 30 سالوں سے کراچی میں ایم کیو ایم ہی سب سے
زیادہ ووٹ لے کر سب سے زیادہ انتخابی نشتیں جیت کرصوبائی اورقومی اسمبلیوں
کا حصہ بنتی رہی ہے ۔ایم کیو ایم پر ماضی میں بھی ملک دشمنی اور دہشت گردی
میں ملوث ہونے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں لیکن اس کے باوجود کراچی کے
ووٹرز کا ہر الیکشن میں متحدہ ایم کیو ایم کوسب سے زیادہ ووٹ دینے سے یہ
بات ثابت ہوتی ہے کہ خواہ وجوہات کچھ بھی ہوں پر کراچی کے اردو بولنے والے
الیکشن بوتھ میں جاکر پتنگ کے نشان پر ہی ٹھپہ لگا کرآتے ہیں۔
کراچی میں سیاست کرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں سمیت مصطفی کمال کی قیادت
میں بننے والی نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کو بھی نہایت سنجیدگی کے
ساتھ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا کہ کراچی کا ووٹر ہر بار اپنا ووٹ
الطاف حسین کی ایم کیو ایم کی جھولی میں ہی کیوں ڈالتا ہے؟ایم کیو ایم پر
انتخابات کے موقع پر منظم دھاندلی اور بدمعاشی کے الزامات بھی عائد کیئے
جاتے رہے ہیں جس کی بنیاد پر بہت سی انتخابی اصلاحات اور حفاظتی انتظامات
بھی پولنگ اسٹیشنز پرکیئے گئے اور رینجرز کے جوانوں کو بھی تعینات کیا گیا
لیکن اس کے باوجود ایم کیوایم کے ووٹ بینک میں کوئی قابل ذکر تبیدیلی رونما
نہیں ہوئی البتہ عمران خان کی پی ٹی آئی نے گزشتہ انتخابات کے موقع پر
کراچی سے 8 لاکھ سے زائد ووٹ لے کرلوگوں کی سوچ میں ہونے والی تبدیلی کی
جانب اشارہ ضرور کیا ہے اوراب مصطفی کمال کی پاک سرزمین پارٹی کے قیام کے
بعد حالیہ ضمنی انتخابات میں ووٹر ز کی اکثریت کا گھر سے باہر نہ نکلنااور
ایم کیو ایم کے امیدواروں کو نہایت کم ووٹ پڑنااور ایم کیو ایم کی جانب سے
دی جانے والی ہڑتال کی ناکامی بھی اس بات کا مظہر ہے کہ کراچی کے عوام کی
سوچ بدل رہی ہے لیکن کیا سوچ کی یہ تبدیلی کراچی کی سیاست میں بھی کوئی
تبدیلی لاسکے گی اس کا جواب 2018 کے انتخابا ت میں ہی ملے گا۔
مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کے حامیوں کے مطابق کراچی کی نمائندگی کی
دعویدارمشہور سیاسی جماعت کے 30 سالہ دور سیاست میں سے اگر مصطفی کمال کے5
سال نکال دیئے جائیں تو جو کچھ باقی بچتا ہے وہ بھتہ خوری ،بدامنی ،خوف و
دہشت کا راج ،بوری بند لاشیں ،ٹارچر سیلز ،سیاسی مخالفوں کی ٹارگٹ کلنگ
اورنت نئے سیاسی ڈرامے ہیں جن سے لوگ اس قدر تنگ آئے ہوئے ہیں کہ غیر تو
غیر اب متحدہ کے اپنے لوگ بھی ان کے طر زسیاست سے بیزار دکھائی دیتے ہیں
اور اب تو اردو بولنے والے کھلم کھلا یہ باتیں کرتیں ہوئے نظر آتے ہیں کہ
اردو اسپیکنگ کمیونیٹی کی نمائندہ جماعت ہونے کی دعویدار جماعت نے 30 سال
کے دوران اردو بولنے والوں کے لیئے کو ن سا ایسا قابل فخر کام کیا ہے جس کی
وجہ سے لوگ آنکھیں بند کرکے ان کا ساتھ دیتے رہیں۔؟ اردو بولنے والوں نے اس
جماعت کو 30 سال تک باربار اپنا ووٹ دے کر اسمبلیوں میں بھیجا تو انہوں نے
اپنے ووٹرز کے لیئے کیا کیا؟30 سال تک سیاست اور بیشتر وقت حکومت میں رہنے
کے باوجود کیایہ پارٹی اپنے لوگوں کے لیئے کوئی ایک ہسپتال ہی بناسکی
؟مصطفی کمال کی نظامت کے دور کے بعد اس جماعت کی مقامی قیادت نے کراچی کی
گلیوں ،سڑکوں اور نالوں کی ٹوٹ پھوٹ، تعمیر اورمرمت وصفائی کے لیئے کیا کچھ
کیا ؟اگر آج کراچی میں جگہ جگہ ٹوٹی ہوئی سڑکیں ،ابلتے ہوئے گٹراور کچرے کے
ڈھیر نظر آرہے ہیں تو اس میں کس کا قصور ہے ؟ ان سب باتوں پر غور کرکے اپنی
خامیوں کو دور کرنے میں ہی ایم کیوایم کا فائدہ ہے کہ صرف مصطفی کمال کی
مخالفت برائے مخالفت کرنے سے متحدہ کا ووٹ بینک برقرار نہیں رہے گا اب لوگ
اگر دوبارہ ایم کیوایم کو ووٹ دیں گے تو اس کی کسی کارکردگی کی بنیاد پر ہی
دیں گے ورنہ کراچی کے اردو بولنے والوں کے لیئے اب مصطفی کمال اور پاک
سرزمین پارٹی کی صورت میں ایک بہترین متبادل موجود ہے اور اگر عام انتخابات
کے موقع پر کراچی کے عوام کا موڈ چینج ہوگیا اور انہوں نے مصطفی کمال کا
ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا تو پھر ایم کیو ایم کوانتخابی سیاست میں ناکامی
کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے جیسا کہ گزشتہ انتخابات میں عمران خان کی پی
ٹی آئی نے کراچی سے 8 لاکھ سے زائد ووٹ لے کر کچھ علاقوں میں متحدہ کو شکست
سے دوچار کیا تھامگر عمران خان اردو اسپیکنگ اور کراچی کا باشندہ نہیں تھا
جبکہ مصطفی کمال اردو اسپیکنگ بھی ہے اور کراچی کا باشندہ بھی ہے تو پھر اس
بات کے واضح امکانات ہیں کہ مصطفی کمال کو کراچی کی انتخابی سیاست میں
عمران خان سے کہیں زیادہ ووٹ مل جائیں اور وہ کراچی کی سیاست پر مکمل ہولڈ
رکھنے والی جماعت کو ایک بڑاسیاسی نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوجائیں۔
مصطفی کمال اور پاک سرزمین پارٹی کے جلسے میں عوام کی ہزاروں کی تعداد میں
شرکت نے یہ بات تو ظاہر کرہی دی ہے کہ اب کراچی کے شہری تبدیلی چاہتے ہیں
اور اب وہ اندھی عقیدت اورآنکھ بند کرکے کسی بھی پارٹی کو ووٹ دینے پر تیار
نہیں ہونگے ،جو پارٹی کراچی کے عوام کے مسائل حل کرنے کی کوششیں کرے گی اور
اقتدار میں آنے کے بعد کراچی کو بدامنی ،بھتہ خوری ،دہشت گردی اور ٹارگٹ
کلنگ سے پاک کرنے کے لیئے عملی اقدامات کرے گی کراچی کے لوگ اس کے ساتھ
کھڑے ہونگے اور ہوسکتا ہے کہ 2018 کے انتخابات میں کراچی میں سیاست کرنے
والے بڑے بڑے برج الٹ جائیں،سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ عام انتخابات اب
بہت زیادہ دور نہیں ہیں اور اگر انتخابات کسی وجہ سے قبل ازوقت منعقد ہوگئے
تو دعووں اور وعدوں کی سیاست کرنے والوں کو تیاری کرنے کے لیئے مناسب وقت
بھی نہیں ملے گالہذا کراچی میں عوامی قوت کے مظاہروں کے لیئے جلسوں جلوسوں
کی سیاست پر وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی بجائے تنظیم سازی اور محلے کی سطح
پر کارنرمیٹنگز کا انعقاد کرکے لوگوں تک اپنی پارٹی کا منشور پہنچانے کی
کوشش کی جائے تاکہ لوگوں کی سوچ اور ذہن میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے کہ
ذہنوں کی تبدیلی ہی انتخابی سیاست میں کوئی تبدیلی لاسکتی ہے ورنہ کراچی
میں جو لوگ 30 سال سے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں پہنچ رہے ہیں ان کو ہرانے کا
خواب ایک دیوانے کا خواب ثابت ہوگا۔
کیا مصطفی کمال کی باتیں کراچی کی سیاست میں کوئی تبدیلی لاسکتی ہیں ؟ |
|