بھارت کی جانب سرجیکل اسٹرائک کے جھوٹے
دعوے سے لے کر لائن آف کنٹرول اورمختلف پاکستانی فوجی حدود میں ہونے والی
جارحانہ فوجی جھڑپوں میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے.دوسری جانب ملک کے
اندرونی حالات بھی جان بوجھ کر خراب کیئے جارہے ہیں.آئے دن ایسے دلخراش
واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں ناقابل تلافی جانی و مالی نقصان بڑے پیمانے
پر سامنے آتا ہے.اور یہ سب ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ایک ایسے وقت پر
کیا جارہا ہے جب پاکستانی اکانومی کو مضبوط کرنے کے لیئے سی پیک جیسے
معاہدے پر کام ہورہا ہے.بھارتی قیادت یہ ہرگز نہیں چاہتی کہ پاکستانی معیشت
کا ڈھانچہ مضبوط ہو.اور پاکستان کی صنعتیں Develop ہو ں.
بھارتی فوجی قیادت اور حکومتی ارکان جان بوجھ کر ایسے اقدامات اور سیاسی
بنیادوں پر بیان بازی میں مصروف ہیں.تاکہ پاکستان مشتعل ہوکر جوابی اقدامات
یا ایسی جارحانہ کاروائ کرنے پر مجبور ہوجائے جس سے پاک بھارت جنگ کے
امکانات میں اضافہ ہو اور وہ انٹرنیشنل لیول پر خارجی سطح پر یہ تاثر دیا
جاسکے کہ پاکستان کی طرف سے در اندازی یا دخل اندازی کی جارہی ہے. اور
پاکستان کی کاروائ کو جارحانہ تاثر دے کر اسے بین الاقوامی برادری میں
تنہاکیا جاسکے اور اسکے ساتھ کیئے جانے والے دوسرے ممالک کے ترقیاتی منصوبے
فی الفور روک دیئے جائیں..وہ سمجھتے ہین ان حالات میں وہ جو بات کریں گے اس
پر اعتبار کیا جائے گا.لہزا پے درپے مختلف محاذوں پر انکی فوجی اور سیاسی
محاذ آرائ مسلسل جاری ہے اور باڈر پر حالات کشیدہ ہوتے جارہے
ہیں.خدانخواستہ اگر پاکستانی حکومت کی طرف سے اسکا جارحانہ جواب دے دیا گیا
تو دونوں ملکوں کے جانب محاذ آرائ کا خطرہ مزید بڑھ جائے گا.اس وقت ملک ایک
نازک دور سے گزر رہا ہے جسے ایک مدبرانہ سوچ کے ساتھ مرتب کی جانے والی
خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے.
دنیا بھر میں بین الااقوامی تعلقات کس مد میں قائم کیئے جاتے ہیں آیا انکی
بنیاد اصولوں یا اخلاقیات پر ہوتی ہے یا کوئ اور وجوہات ہیں؟ تو یہ بات تو
اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہ رشتے قائم ہی ضرورت کے تحت ہوتے ہیں.جس ملک کو
جیسی ضرورت ہوتی ہے وہ اسکے مطابق اپنی خارجہ پالیسی مرتب کرتا ہے تو ایسے
وقت جب بھارت کی اکانومی ترقی کررہی ہے اور اسکا اقتصادی ڈھانچہ پاکستان کے
مقابلے میں کافی مضبوط ہے تو اگر ایسے وقت اسکی جانب سے اگر کئ جگہ انسانی
حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے تو کونسا ملک ہے جو اپنے ذاتی یا اقتصادی
مفادات کو پس پشت ڈال کر بھارت کے اندر کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف
ورزی پر آواز بلند کرے وہ اچھی طرح سمجھتے ہین اگر انھوں نے ایسا کیا یا
انھوں نے پاکستانی محاذ آرائ کے بھارتی دعوؤں کو نظر انداز کیا تو شاید
بھارت انکے ساتھ کافی stick ہوجائے اور انکے مقاصد کی برآوری کے لیئے معاون
ثابت نہ ہوگا.اس وقت خطے میں اپنا کنٹرول حاصل کرنے کی سرد جنگ جاری ہے
حکومت پاکستان کو اس صورتحال سے سبق لینا چاہیئے.انکو مدبرانہ سوچ کے ساتھ
ایسی پالیسیاں وضع کرنی چاہیئیں جن کی مدد سے وہ موجودہ صورتحال سے نمٹ
سکیں.اللہ کا شکر ہے کہ ہمارا دفاعی مورچہ نہایت مضبوط ہے ہماری فوج اس
پوزیشن مین ہے کہ وہ ہر طرح کے حالات کا بخوبی مقابلہ کرسکتی ہے بلکہ کررہی
ہے ہر دفعہ اپنے تمام تر وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر محاذ پر فوج نے
بھارت کو منہ توڑ جواب دیا بلکہ انکے فوجیوں پر اپنی دھاک جمادی. ہماری
عوام کے پاس اور فوج کے پاس جذبوں کی کمی نہیں.لیکن جنگ صرف جذبوں سے یا
ہتھیار سے ہی نہیں لڑی جاتی اسے لڑنے کے لیئے وزارت خارجہ کا بھی مضبوط
ہونا بہت ضروری ہے جتنا دوسرے عوامل کا تاکہ ہم اپنا موقف ٹھوس بنیادوں پر
عالمی برادری کے سامنے رکھ سکیں بدقسمتی سے پاکستان کا یہ شعبہ اس وقت
تنزلی کی طرف جارہا ہے اسے کوئ نوجوان قیادت میسر نہیں جو دینا بھر میں
مختلف دورے کرکے اپنے موقف کی وضاحت کرسکے اور بھارتی سازشوں کا پردہ چاک
کرسکے کشمیر جیسے اہم مدعے پر پاکستانی موقف کا دفاع کرسکے.کشمیر میں اس
وقت جو بھی ہورہا ہے اسکی وضاحت کے ساتھ تصویر کشی کرسکے لیکن آج کل یہ زمہ
داری خود ہمارے وزیر اعظم نے سنبھالی ہوئ ہے چند تقاریر ہونے والے نقصان کی
بھرپائ تو ہر گز نہیں کرسکتیں ہماری سیاسی قیادت اس نازک موقع پر کوئ خاص
دلچسپی کا مظاہرہ ہی نہیں کررہی انکے نزدیک اس وقت سب سے اہم ایشو انکے
ذاتی معاملات پر اثر انداز ہونے والا پانامہ لیکس ہے انکی ترجیحات اس وقت
انکی خاندانی ساکھ کا دفاع ہے.اور دوسری بڑی غلطی اس وقت حکومت کی سب سے
زیادہ توجہ کی متقاضی ہے وہ یہ ہے تمام ملکی اہم امور اور اقتصادی معاملات
میں پارلیمانی کابینہ کو اعتمادمیں نہ لینا اور ملکی فیصلوں میں ساتھ لے کر
نہ چلنا جسکی طرف خود سپریم کورٹ نے بھی توجہ دلائ. اس وقت سیاسی ڈھانچہ
ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہا ہے اپوزیشن کے نزدیک اپنی ترجیحات اہم ہیں.ضرورت اس
بات کی ہے ایک پلیٹ فارم پر سب کو یکجا کرکے دوسرے تمام معاملات کو پس پشت
ڈال کر ان حالات کا بہترین خارجہ پالیسی کے ساتھ مقابلہ کیا جائے.اور ایک
جارحانہ ڈپلومیسی مرتب کی جائے تاکہ اقوام عالم کو بتایا جاسکے کہ پاکستان
کسی لحاظ سے بھی اتنا کمزور نہیں ہوا کہ دوسری قومیں اسے ترنوالہ سمجھ کے
نگل لیں.دونوں ملکوں کی عوام کسی طور سے جنگ کے حق میں نہیں وہ امن و سکون
اور آشتی کی زندگی بسر کرنا چاہتیں ہیں.ان حالات میں جبکہ حکومتی ارکان
اپنے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں عوام کی تمام تر امیدوں کا مرکز صرف فوج
ہےانکی نگاہیں اس وقت باڈر پر دفاع کرتے فوجی جوانوں پر لگیں ہیں.جہموریت
خال خال ہی دکھ رہی ہے ایسا نہ ہو کہ یہ لفظ بھی کسی کی سماعت میں تازہ نہ
رہے. اور ایک بار پھر عوام فوج کو سیاسی بنیادوں پر خوشدلی سے قبول کرلے. |