اردو بولنے والوں کے ماتھے کا جھومر،سیدمصطفی کمال
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
گو کہ آج میرے اس زیر نظر کالم کا موضوع
اردو بولنے والوں کے ماتھے کا جھومر ،دلیر سیاستدان سیدمصطفی کمال ہیں لیکن
اس سے قبل کہ نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ سید مصطفی کمال
کے حوالے سے مزید گفتگو کی جائے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان کی سیاست
پر ایک مختصر مگر جامع نظر ڈال لی جائے تاکہ پاکستانی سیاست کے پس منظر کے
ساتھ جب مصطفی کمال کی بات کی جائے تو لوگ یہ سمجھ سکیں کہ آج کے مفاد پرست
اور کرپٹ دور میں مصطفی کمال جیسے سیاست دان کی آمد اور اس کی کہی گئی
باتوں کی کیا اہمیت ہے ؟
بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اور لیاقت علی خان کے انتقال کے بعد
قوم کسی باہمت ،مخلص اور محب وطن رہنما کے لیئے ترستی رہی لیکن کافی عرصہ
تک اس ملک پر بدعنوان اورمفاد پرست افراد کا ٹولہ مسلط رہا پھر اﷲ اﷲ کرکے
پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں ایک قابل،باصلاحیت ،بہادر ،مخلص
اور محب وطن رہنما ملا جس نے نہایت کم مدت میں پاکستان اور پاکستانی عوام
کے استحکام اور ترقی کے لیئے اتنے بڑے بڑے کام کیئے کہ بھٹو صاحب سے پہلے
یا بعد کوئی دوسرا سیاسی رہنما آج تک نہیں کرسکا ،حالانکہ بھٹو صاحب کا
تعلق صوبہ سندھ کے ایک سندھی بولنے والے اعلیٰ خاندان سے تھا لیکن انہوں نے
اپنی سیاست کی بنیاد پاکستانیت پر رکھی اور کبھی بھی لسانیت کی بنیاد پر
کوئی کام نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ آج ان کی شہادت کو ایک طویل عرصہ گزر جانے
کے باوجود ان کا نام کروڑوں پاکستانیوں اور تاریخ کے صفحات میں زندہ ہے اور
جب تک پاکستان کا وجود قائم و دائم ہے بھٹو کا نام زندہ رہے گا۔
اردو بولنے والے کے ماتھے کا جھومر ،مصطفی کمال کے حوالے سے یہ خصوصی کالم
لکھتے ہوئے قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو کا مختصر تذکرہ کرنے کی ضرورت اس
لیئے پیش آئی کہ جب بھی کوئی سیاسی رہنما پاکستان سے محبت ،پاکستانی جھنڈے
کی اہمیت اور پاکستانی قوم کی ترقی اور استحکام کی بات کرتا ہے تو لامحالہ
ذہن کے پردے پر بانیان پاکستان کے بعد جو نام سب سے پہلے نمودار ہوتا ہے وہ
ذوالفقار علی بھٹو کا ہے جن کے تذکرے کے بغیر پاکستان کی تاریخ مکمل نہیں
ہوسکتی ۔
بھٹو صاحب کی پھانسی دیئے جانے کے بعد بھٹو ازم کی حفاظت اور آبیاری کا
بیڑا ان کی باصلاحیت بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹونے بہت کامیابی سے اٹھایا
لیکن افسوس ان کو بھی ملک دشمن قوتوں نے اپنی ناپاک سازشوں کے ذریعے قتل
کرکے راستے سے ہٹادیا اور یوں ایک بار پھر پاکستان ایک قابل اور دلیر محب
وطن سیاسی رہنما سے محروم ہوگیا ۔(واضح رہے کہ یہ دونوں عظیم سیاسی لیڈر
صوبہ سندھ سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی مادری زبان سندھی تھی )بے نظیر بھٹو
کوشہید کیئے جانے کے بعدجو کچھ پاکستان میں ہوا ایسا شاید ہی پہلے کسی
سیاسی دور میں ہوا ہو۔بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ملک پر حکومت کرنے والی
سیاسی قیادت نے ایک بارپھر عوام کو مایوس کیا اور لوگ پھر سے کسی مسیحا کی
تلاش کرنے لگے جس کی کمی عمران خان نے پوری کی اور عوام میں ایک بہادر
سیاسی لیڈر کے طور پر اپنی شناخت قائم کی جس نے پاکستان کی سیاست پر ایک
طویل عرصے سے حکمرانی کرنے والی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی
اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہوں اور کراچی کی سیاست پر 30 سال سے بلاشرکت
غیرے حکومت کرنے والی پرتشدد سیاسی جماعت ایم کیو ایم کے خلاف ببانگ دہل
علم بغاوت بلند کیا اور ان کااصل چہرہ عوام کے سامنے لانے کی ہرممکن کوشش
کی اوراپنی قائم کردہ سیاسی جماعت تحریک انصاف کے ذریعے عام لوگوں کی بڑی
بہادری کے ساتھ ترجمانی کی لیکن افسوس مفاد پرست اور کرپٹ سیاستدانوں کے
اتحاد نے عمران خان کو پاکستان کی قیادت نہ سنبھالنے دی ۔ایک دوسرے کی شدید
نظریاتی مخالف جماعتیں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اپنے ذاتی
مفادات اورکرپشن کو تحفظ دینے کے لیئے تمام تر اختلافات بھلا کرایک ہوگئیں
جس سے عوام میں احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوا۔
پاکستانی سیاست میں آج تک ان ہی سیاستدانوں کو بہت تیزی کے ساتھ شہرت ،عزت
اور کامیابی حاصل ہوئی ہے جنہوں نے ہر طرح کے لسانی ،قومی اور مذہبی تعصب
سے بالا تر ہوکر پاکستانیت کے جذبے کو فروغ دینے کے لیئے وفاقی طرز سیاست
کو اپنایا۔ملکی سیاسی تاریخ میں قائداعظم محمد علی جناح سے لے کر عمران خان
تک جتنے بھی سیاسی لیڈر منظر عام پر آئے ان میں سے بام عروج پر وہ ہی پہنچے
جنہوں نے پورے پاکستان کی سیاست کو اپنا شعار بنایا لیکن بدقسمتی سے کچھ
سیاستدانوں کو لسانی ،قومی اور مذہبی عصبیت کی وجہ سے بھی مقبوبلیت اور
کامیابی ملی اور ایسے سیاستدانوں نے لوگوں کولسانی اور صوبائی تعصب کے
ذریعے گمراہ کرکے انتخابابی کامیابیاں بھی حاصل کیں لیکن ان سیاستدانوں کی
تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے اور خوشی کی بات یہ بات یہ ہے کہ ان
علیحدگی پسند ،لسانیت ،قومیت اور مذہبی فرقہ پرستی کی سیاست چمکا کر لیڈر
بننے والوں میں سے چند کو بڑی شہرت اور انتخابی کامیابی بھی ملی لیکن ملک
وقوم کی خوش قسمتی ہے کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنے مضموم مقاصد میں آج
تک کامیابی حاصل نہیں ہوسکی جو یہ بات ثابت کرنے کے لیئے کافی ہے کہ
پاکستانی عوام کی اکثریت بہت محب وطن اورباشعور ہے جو پاکستان کا استحکام
اور ترقی چاہتی ہے یہی وجہ ہے کہ علاقائی سیاست کو کبھی ملک گیر مقبولیت
حاصلہ نہ ہوسکی اور اس طرح کے سیاستدان آج بھی اپنے مخصوص علاقوں تک محدود
ہیں ۔گریٹر بلوچستان ،سندھو دیش اور مہاجر ازم کی بنیاد پر جناح پور یا
مہاجرستان بنانے والوں کی تمام تر انتخابی کامیابیوں کے باجود منہ کی کھانی
پڑی اوربفضل خدا یہ تمام علیحدگی پسند قوتیں آج تک اپنے مکروہ عزائم میں
کامیابی حاصل نہیں کرسکیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہر دور میں بدی کی قوتوں کے
ساتھ نیک نام بہادر لوگ اس ملک کی سیاست میں نمودار ہوکر لسانی تعصب کا
پرچار کرنے والے ان تمام سیاستدانوں کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر
کھڑے ہوتے رہے اور انشااﷲ جب تک پاکستان باقی ہے ایسے نڈر اور محب وطن
سیاسی رہنما ملک دشمنوں اور بھارتی ایجنسی را کے ایجنٹوں کے خلاف پاکستان
کے استحکا م کے لیئے اپنا قابل فخر ،قابل تعریف اور قابل تقلید کردار ادا
کرتے رہیں گے۔ظلم جب حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور فرعون جب حد سے گزر
تاہے تواﷲ تعالی اس فرعون کے غرو ر کو خاک میں ملانے کے لیئے اسی کی قوم
میں سے موسیٰ پیدا کردیتا ہے اور اﷲ فرعون کی آغوش میں موسیٰ کی پرورش کا
بندوبست فرمادیتا ہے اور پھر یہی موسیٰ ،فرعون کی لنکا ڈھا دیتا ہے۔فرعون
اور موسیٰ زمانہ قدیم سے لے کر آ ج تک مختلف شکلوں میں سامنے آتے رہے ہیں
اور جب تک ظالم اپنے ظلم سے باز نہیں آتے ا اﷲ تعالیٰ ان کی سرکوبی کے لیئے
موسیٰ پیدا کرتا رہے گا۔
خوش قسمتی سے پاکستان میں لسانیت ،قومیت اور مذہبی گروہ بندی سے بالا تر
ہوکر سیاست کرنے والوں میں حال ہی میں ایک اور دبنگ سیاستدان کا اضافہ ہوا
ہے جسے لوگ مصطفی کمال کے نام سے جانتے ہیں نے بھی کراچی آکر اپنی ہی سابقہ
سیاسی جماعت کے سربراہ کو اسی طرح للکارا ہے جس طرح ہزاروں سال پہلے حضرت
موسیٰ علیہ السلام نے فرعون کا للکارا تھا ۔
۳مارچ کو پاکستان واپس آکرمتحدہ قائد کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے کراچی کی
سیاست میں بھونچال پیدا کردینے والی شخصیت مصطفی کمال سے کون واقت نہیں کہ
جب لوگوں نے پرویز مشرف کے زمانے میں کراچی کے منتخب ناظم کی حیثیت سے
مصطفی کمال کو کراچی کی تعمیر وترقی کے لیے دن رات کام کرتے ہوئے دیکھا تو
متحدہ کے مخالف بھی ان کی کارکردگی کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئے کیونکہ
مصطفی کمال نے کراچی جیسے بڑے شہر کے مئیر کے طور پرہر طرح کے لسانی ،قومی
اور پارٹی مفادات سے بالا تر ہوکرکراچی کے تقریباً تمام علاقوں میں پینے کے
صاف پانی کی فراہمی اور ٹریفک کی روانی کے لیئے جو دوررس عملی اقدامات کیئے
اور جس طرح نہایت تیزی کے ساتھ کراچی کی تباہ حال سڑکوں کو نئے سرے سے
بنانے کا بیڑہ اٹھایا اورپھر کراچی میں فلائی اوور ز کاجو جال بچھایا اس نے
ان کو کراچی میں بسنے والے ہر باشندے کا ہیرو بنادیا ۔
سید مصطفی کمال 27دسمبر1971 کو کراچی کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے
،نارتھ کراچی میں ان کی ابتدائی زندگی گزری ،1987 کے بلدیاتی انتخابات سے
انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز کیا جبکہ 1988 میں وہ باقاعدہ ایم
کیوایم کے کارکن بنے ۔1992 میں کراچی آپریشن کے درمیان انہوں نے 90 پر
ڈیوٹیاں بھی دیں۔1994 میں جیل بھی گئے۔گورنمنٹ اسکول تعمیر نو(ناظم
آبادکراچی) سے میٹرک کیا۔سراج الدولہ کالج سے انٹر کیاپھرملائشیا جا کر
وہاں کے’’سن وے کالج ‘‘ میں داخلہ لے لیااور کوالا لمپور یونیورسٹی سے ایم
بی اے کی ڈگری حاصل کی۔ٹوٹل کوالٹی مینجمنٹ پر تھیسس لکھ کر ماسٹر کیا اور
تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس پہنچ گئے کچھ عرصہ یہاں ملازمت کرنے کے
بعد کاروبار کے لیئے شارجہ چلے گئے۔2001 میں اپنے والد اور والدہ کی شدید
علالت کی وجہ سے پاکستان واپس آئے۔2002 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور
انہیں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت ملی. 2005میں بلدیاتی انتخابات ہوئے جس
میں ایم کیو ایم نے کامیابی حاصل کی اور مصطفی کمال کو کراچی کے ناظم کے
طور پر نامزد کیا گیا انہوں نے کراچی کا مئیر بنتے ہی شہر کراچی کا ماسٹر
پلان ترتیب دیااور ترقیاتی کاموں کا آغاز کردیا۔۱ور کراچی کی تعمیر وترقی
کے لیئے بہت سے قابل ذکرو قابل تعریف منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جن
کی وجہ سے انہیں ملک گیر سطح پر شہرت اور عزت حاصل ہوئی بلکہ ان کی کراچی
کے ناظم کے طور پر شاندار کارکردگی کی وجہ سے ان کا نام دنیا کے بہترین
مئیرز کی فہرست میں بھی شامل کیا گیا ۔2008 کے انتخابات میں مصطفی کمال کی
کارکردگی ایم کیو ایم کی انتخابی مہم کا ایک اہم نعرہ بن کر سامنے آئی اور
مصطفی کمال ایک ایسی پارٹی کا سافٹ امیج بن کر ابھرے جو سیاست میں تشدد اور
جرائم میں ملوث ہونے کی زد میں رہی ہے۔2013 میں مصطفی کمال اچانک بیرون ملک
چلے گئے ان کے جانے کے بعد ایم کیو ایم اور ان کے درمیان اختلافات کے حوالے
سے باتیں ہونے لگیں لیکن ان کی جانب سے مکمل خاموشی رہی جس کی وجہ سے مختلف
سیاسی جماعتوں میں ان کی شمولیت کے حوالے سے افواہیں بھی گردش کرتی رہیں
لیکن 3 مارچ2016 کو وہ 3 سال بعد کراچی میں اچانک منظر عام پر آئے اور ایک
دھواں دار پریس کانفرنس کرکے نہ صرف ایم کیو ایم متحدہ سے تعلق ختم کرنے کا
اعلان کیا بلکہ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین پر سنگین نوعیت کے الزامات
عائد کرتے ہوئے اپنی ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کرنے کا اعلان بھی کردیا۔
بانیان پاکستان کے بعد اگر ہم پاکستان کی سیاست میں قدم رکھنے والے بہادر
اور محب وطن سیاست دانوں کا تذکرہ کریں تو ذوالفقار علی بھٹو،بے نظیر بھٹو
اورعمران خان کے بعد جو نام سامنے آتا ہے وہ مصطفی کمال کا ہے جنہوں نے 3
مارچ 2016 کو3 سال بعد کراچی واپس آکرایک دھماکہ خیز پریس کانفرنس کے ذریعے
بڑی دلیری اور بے باکی کے ساتھ اپنی سابقہ سیاسی جماعت ایم کیوایم(متحدہ)کے
قائد کے خلاف ملک دشمنی اور بھارتی خفیہ ایجنسی را سے فنڈنگ حاصل کرنے اور
اپنے مخالفین کو راستے سے ہٹانے کے لیئے جنوبی افریقہ سے ٹارگٹ کلر ٹیموں
کو چلانے کے سنگین الزامات عائد کرکے کراچی کی سیاست میں جو بھونچال پیدا
کیا ہے اس کے جھٹکے اب ملک کے دیگر حصوں میں بھی محسوس کیئے جانے لگے ہیں
کہ مصطفی کمال نے اپنی سابقہ جماعت سے علیحدہ ہونے کے بعد جس طرز سیاست کی
ابتدا کی اس کا محور ومرکز پاکستان ٹہرا ،انہوں نے لسانی تعصب پر مبنی
سیاست کو خیر باد کہہ کر ایک وفاقی طرز کی پاکستانی سوچ رکھنے والی نئی
سیاسی جماعت’’ پاک سرزمین پارٹی ‘‘ قائم کرکے صرف 30 دن بعد کراچی میں اپنا
پہلا جلسہ عام منعقد کرکے کراچی کی سیاست میں سرگرم عمل بڑے بڑے نامی گرامی
سیاستدانوں کو ہلا ڈالا کہ جو شخص صرف 30 دن کے اندر بغیر کسی تنظیم سازی
اور تیاری کے تمام تر مخالفتوں اورخطرات کے باوجود کراچی میں ایک اچھا جلسہ
عام کرکے دکھا سکتا ہے اگر اس کو مناسب وقت اور سچی پاکستانی سوچ رکھنے
والی اچھی ٹیم مل گئی تو یہ کیا کچھ نہیں کرے گا۔
پاکستانی سیاست میں ہیروز کا درجہ اور مقبولیت حاصل کرنے والے سیاست دانوں
میں قائداعظم محمدعلی جناح اور لیاقت علی خان کے بعدذوالفقار علی بھٹواوربے
نظیر بھٹوکا تعلق سندھی بولنے والے گھرانے سے تھا جبکہ عمران خان کو پشتو
بولنے والے خانوں اورپٹھانوں کا ترجمان سیاست دان سمجھا جاتا ہے اور اگر ہم
برسر اقتدار سیاست دان نواز شریف کا ذکر کریں تو ان کا تعلق ایک پنجابی
بولنے والی فیملی سے ہے یوں دیکھا جائے تو پاکستان میں ایک طویل عرصے سے
کوئی اردو بولنے والا سیاسی لیڈروہ شہرت اور کامیابی حاصل نہیں کرسکا جو
مذکورہ بالا سیاستدانوں کو حاصل ہوئی ۔البتہ ایم کیو ایم یا متحدہ قومی
موومنٹ کے قائد الطاف حسین کو ہم اردو بولنے والوں کا پہلا لیڈر کہہ سکتے
ہیں جس نے کراچی اور حیدرا باد کی سیاست تک بے مثال مقبولیت اور کامیابی
حاصل کی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے اردو بولنے والوں کی نمائندگی
کرنے والے اس سیاسی رہنما نے اﷲ تعالی اور اردواسپییکنگ کمیونیٹی کی جانب
سے ملنے والی عزت ،مقبولیت اور کامیابی کی قد ر نہیں کی ،اگر الطاف حسین کو
اردو بولنے والوں کی ذرا برابر بھی پرواہ ہوتی تو وہ بھارتی ایجنسی را کے
ہاتھوں میں نہ کھیلتے وہ اپنی قوم کی جانب سے ملنے والی عزت اور کامیابی کو
اردوبولنے والوں کی فلاح وبہبود کے لیئے استعمال کرتے لیکن افسوس ایسا نہ
ہوسکا ،انہوں نے اپنے آپ کو اپنی سیاسی پارٹی کو ملنے والے مینڈیٹ کو مثبت
سرگرمیوں میں استعمال کرنے کی بجائے اس کا منفی استعمال کیا جن نعروں کی
بنیاد پر انہوں نے ایم کیو ایم قائم کی تھی ان سب نعروں کو انہوں نے بہت
جلد فراموش کردیا ۔
ایم کیوایم کے قیام کے وقت الطاف حسین کا پہلانعرہ بنگلہ دیش میں محصور
بہاریوں کو پاکستان واپس لانا تھا ،لیکن 30 سال تک کراچی میں بلاشرکت غیرے
سیاست کرنے کے باوجود الطاف حسین نے ان بہاریوں کو پاکستان واپس لانے میں
کامیاب نہیں ہوسکے ،دوسرا نعرہ اردو بولنے والوں یعنی مہاجروں کو ملازمتوں
میں یکساں مواقع فراہم کروانے کے لیئے کوٹہ سسٹم کو ختم کروانے کا تھا لیکن
افسوس بیشتر وقت اقتدار میں رہنے کے باجودالطاف حسین کی قیادت میں کام کرنے
والی ایم کیوایم جس نے بعد میں سیاسی مجبوریوں کی وجہ سے اپنی پارٹی کا نام
بدل کر متحدہ قومی مومنٹ رکھ لیا آج تک سندھ سے کوٹہ سسٹم ختم کروانے میں
کوئی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ۔کراچی میں 30 سال کی سیاست کے دوران بیشتر
وقت اقتدار اور وزارتوں کے مزے لوٹنے والی متحدہ قومی مومنٹ نے اردو بولنے
والوں کے لیئے کوئی ایک بھی ایسا کام نہیں کیا جس پر اردو بولنے والے فخر
کرسکیں ،ہاں البتہ اگر ایم کیوایم نے کسی دور میں کچھ اچھا کام کیا ہے تو
وہ پرویز مشرف کے زمانے میں صرف ان 5 سالوں میں کیا گیا جن کے دوران کراچی
کے ناظم اعلی ٰ کے عہدے پر سید مصطفی کمال فائز تھے اور انہوں نے بلاشبہ
اردو بولنے والوں کی فلاح وبہبود کے لیئے سٹی ناظم کے طور پر پہلی بار ایسے
قابل تعریف کام کیئے کہ کیا اپنے کیا پرائے ہر طرف ان کی شخصیت اور
کارکردگی کی دھوم مچ گئی اور کیا اپنے کیا پرائے سب ان کی قابلیت ،صلاحیت
اور کارکردگی کے معترف ہوگئے جس کی وجہ سے خود متحدہ قومی موومنٹ نے مصطفی
کمال کو اپنے ماتھے کا جھومر قرار دیا اور متحدہ قائد نے مصطفی کمال کو گلے
لگاکر اور ان کا ماتھا اور گال چوم کر ان کو کراچی کے مئیر کے طور پر
شاندار کارکردگی پر مبارکباد دی جس کی تصاویر آج بھی انٹرنیٹ پر دیکھی
جاسکتی ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ کی حمایت یا مخالفت سے قطع نظراگر نیوٹرل ہو کر دیکھا
جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا متحدہ نے اپنے 30 سالہ دور سیاست میں
اپنا کیا گیا کوئی ایک وعدہ بھی پورا کیا یا وہ 30 سال کے دوران ہر آنے
والی حکومت میں اقتدار اور وزارتیں حاصل کرنے کے باوجود کوٹہ سسٹم کے خاتمے
یا بہاریوں کو پاکستان لاکر آباد کرنے کی سلسلے میں کوئی کامیابی حاصل
کرپائی ؟حقائق بتاتے ہیں کہ ایسی کوئی کامیا بی متحدہ حاصل کرنے میں مکمل
طور پر ناکام رہی تو پھر تحریک کس بات کی اور منزل کیاہے؟یہی وہ نکتہ ہے
جسے مصطفٰی کمال نے نہایت بے خوفی کے ساتھ کراچی میں واپس آنے کے بعد اپنی
پہلی پریس کانفرنس میں کھل کربیان کیا جس کا لب لباب یہ ہے کہ طویل جدوجہد
اور بیشتر وقت ہر حکومت کے ساتھ اقتدار میں شریک رہنے کے باوجود ایم کیوایم
نے اپنے چاہنے والوں ،ووٹرز اور کارکنوں کو کیا دیا؟ہڑتالیں ،جلاؤ گھیراؤ
،شور شرابے اورسیاسی قلابازیوں سے کے لیئے تو اردو بولنے والوں نے ایم
کیوایم کو ووٹ نہیں دیے تھے ؟لسانیت اور قومیت کی بنیاد پر اندھی عقیدت اور
لسانی تعصب کی عینک اتار کر دیکھا جائے تو متحدہ کی 30 سالہ سیاست میں سے
اگر مصطفی کمال کے5 سال نکال دیئے جائیں تو جو کچھ باقی بچتا ہے وہ بھتہ
خوری ،بدامنی ،خوف و دہشت کا راج ،بوری بند لاشیں ،ٹارچر سیلز ،سیاسی
مخالفوں کی ٹارگٹ کلنگ اورنت نئے سیاسی ڈرامے ہیں جن سے لوگ اس قدر تنگ آئے
ہوئے ہیں کہ غیر تو غیر اب تو اردو بولنے والے کھلم کھلا یہ باتیں کرتیں
ہوئے نظر آتے ہیں کہ اردو اسپیکنگ کمیونیٹی کی نمائندہ جماعت ہونے کی
دعویدارجماعت نے اردو بولنے والوں کے لیئے کو ن سا ایسا قابل فخر کام کیا
ہے جس کی وجہ سے لوگ آنکھیں بند کرکے ان کا ساتھ دیتے رہیں۔؟
متحدہ قومی مومنٹ کا سوفٹ امیج ڈیولیپ کرنے والا کراچی کا نیک نام سٹی ناظم
مصطفی کمال جب ایم کیو ایم کا حصہ تھے تب بھی ان پر بدعنوانی ،کرپشن،بھتہ
خوری یا قتل وغارت کے حوالے سے کسی بھی جانب سے کوئی انگلی نہیں اٹھی اور
آج جب کہ وہ اپنی سابقہ سیاسی جماعت ایم کیوایم اور اس کے قائد کے خلاف
سینہ ٹھوک کر میدان سیاست میں دندناتے پھر رہے ہیں اب تک ان پر کسی بھی
جانب سے کرپشن یا کسی بھی منفی سرگرمی میں ملوث ہونے کا کوئی الزام نہیں
لگایا گیا حتیٰ کہ متحدہ کے قائد اور ایم کیوام کی رابطہ کمیٹی کو بھی
مصطفی کمال کے خلاف ابھی تک کرپشن ،بھتہ خوری یا قتل وغارت میں ملوث ہونے
کا کوئی ثبوت نہیں ملا ورنہ یہ لوگ مصطفی کمال پر میڈیا پرپریس کانفرنس کے
ذریعے چڑھ دوڑتے ۔اس کے علاوہ مصطفی کمال نے 3 مارچ سے لے کر آج تکب باربار
متحدہ کے قائد اور ایم کیو ایم پر را کا ایجنٹ ہونے اور را سے فنڈنگ حاصل
کرنے کے سنگین ترین الزامات عائد کیئے ہیں جن کی اب تک الطاف حسین یا ایم
کیو ایم کی جانب سے کوئی باضابطہ تردید نہیں کی گئی ہے ۔۔۔ان سب باتوں سے
ایک بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ مصطفی کمال ایک صاحب
کردار،باصلاحیت ،قابل ،فعال اور نیک نام سیاسی رہنما ہیں جن کے خلاف ان کے
بدترین مخالفین بھی کوثبوت پیش کرنے میں تاحال ناکام ہیں حتی ٰ کہ مصطفی
کمال کی کہی گئی باتوں کی تردید میں بھی ایم کیوایم قائد یا رابطہ کمیٹی اب
تک ایک بیان بھی نہیں دے سکی اور نہ ہی کراچی یا لندن میں متحدہ قائد یا
ایم کیوایم کی جانب سے مصطفی کمال پر ہتک عزت کا کوئی مقدمہ قائم کیا گیا
ہے جس سے یہ بات صاف ظاہر ہوتی ہے کہ مصطفی کمال جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ سچ
ہے کہ سچ کو آنچ نہیں ہوتی اور جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ۔
اگر ماضی میں ایم کیوایم کی جانب سے کراچی کے ناظم اعلی کے عہدے پر فائز
کیئے جانے والے مصطفی کمال کے ماضی اور حال پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے
تو یہ بات بہت واضح ہوکر سامنے آتی ہے کہ نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی
کے سربراہ مصطفی کمال اپنی پرکشش شخصیت،فطری دلیری ، ،قابلیت،فعالیت،ذاتی
کردار اور قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے یقینا اس بات کے اہل ہیں کہ اگر
مصطفی کمال کو اردو بولنے والوں کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ
ہوگا ۔افسوس کہ ایم کیو ایم قائد نے اپنی فرعونیت میں مبتلا ہوکر مصطفی
کمال جیسے ہیرے کو کھودیا لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ انسانی خوبیوں سے
مالا مال اس ہیرے کو اﷲ تعالی نے یہ توفیق عطا فرمائی کہ اس نے ایک غلط
سیاستدان اور گمراہ سیاسی پارٹی کے ہاتھوں سے نکل کرسر پر کفن باندھ کر
پاکستان کی سیاست میں ایک بہادر اور محب وطن سیاستدان کے طور پر نہ صرف قدم
رکھا بلکہ جھوٹ کی سیاست کرنے والوں کا پول کھولتے ہوئے انیس قائم خانی کے
ہمراہ ایک نئی سیاسی جماعت پاک سرزمین پارٹی قائم کرکے اپنے رفقا کے ہمراہ
نہایت تیزی کے ساتھ اردو بولنے والوں کی عزت وتوقیر میں اضافے کے لیئے دن
رات کام کررہا ہے کہ الطاف حسین اور ایم کیوایم کی منفی،دہشت گردانہ اور
ملک دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے اردو اسپیکنگ کمیونٹی کے چہرے پر جو کالک مل
دی گئی تھی اسے صاف کرکے اردو بولنے والوں کو علاقائی سیاست سے نکال کر
قومی دھارے میں شامل کرکے ان کو پاکستان کے دیگر صوبوں اور علاقوں سے تعلق
رکھنے والے باشندوں کی طرح ایک باعزت شناخت دے سکے تاکہ اردو بولنے والے
بھی فخر سے اپنا سینہ تان کر کہہ سکیں کہ ہم را کے ایجنٹ اور دہشت گرد نہیں
بلکہ پاکستان کی ترقی اور استحکام کی خاطرپر اپنی جان قربان کردینے والے
محب وطن پاکستانی ہیں ۔
اﷲ تعالیٰ مصطفی کمال اور ان جیسے ہر محب وطن سیاستدان اور ان کا ساتھ دینے
والے ہر پاکستانی کے ہاتھ مظبوط کرے تاکہ یہ سب متحد ہوکر اس ملک سے را کے
ایجنٹوں ،دہشت گردوں ،بھتہ خوروں اور ٹارگٹ کلرز کا خاتمہ کرکے آنے والی
نسلوں کو ایک بہتر اور پرامن پاکستان دے سکیں جہاں وہ پوری شخصی آزادی کے
ساتھ خود کو اور اپنی فیملی کو ایسا ماحول دے سکیں جہاں و عزت وآبرو اور
امن وامان کے ساتھ زندگی گزار کر پاکستان کی ترقی اور استحکام کے لیئے اپنا
کردار ادا کرسکیں۔دعا ہے کہ اﷲ تعالی وطن کی خاطر جان دینے والے ان تمام
سرفروشوں کو وطن فروشوں کے شر اور فساد سے محفوظ رکھے (آمین) |
|